لمحۂ فکریہ
فہیم الاسلام
کشمیر کی سرزمین اپنی حسن و جمال، سبز و شاداب وادیوں اور نیلی جھیلوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تہذیب کی بھی پہچان رکھتی ہے، جس کی بنیاد محبت، اخوت اور رشتوں کی تقدیس پر رکھی گئی ہے۔ یہاں کے گھروں میں بہن بھائی کا رشتہ سب سے زیادہ پاکیزہ مانا جاتا ہے۔ بڑی بہن کو ماں کا سایہ سمجھا جاتا ہے اور چھوٹی بہن کو دل کا ٹکڑا۔ مگر حالیہ دنوں میں گاندربل سے آنے والی وہ خبر جس نے پوری وادی کو لرزا کر رکھ دیا ہے، ہمارے اس قدیم اور معتبر تصور کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ایک بڑی بہن نے اپنی ہی چھوٹی بہن کو قتل کر دیا۔ یہ سانحہ محض ایک جرم نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی حقیقت ہے، ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہر دل کو لرزا دیا اور ہر زبان کو سوال پر مجبور کر دیا کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں۔
جب یہ خبر سامنے آئی تو ہر طرف خاموشی اور صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ گلی کوچوں میں، تعلیمی اداروں میں، چائے خانوں اور محفلوں میں ایک ہی موضوع زیر بحث تھا۔ لوگ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے اور سوچتے کہ آخر ایک بہن اپنے ہی وجود کے حصے کو مٹا دینے پر کس طرح آمادہ ہوئی؟ جو رشتہ ہمیشہ سے ایثار، قربانی اور شفقت کی علامت رہا، وہ قتل و خونریزی کی راہ پر کیسے چل پڑا؟ اس سوال کا جواب محض وقتی غصے یا اشتعال میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک گہرے بحران کا شاخسانہ ہے جس نے ہمارے گھروں اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو اندر سے کمزور کر دیا ہے۔
ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ برداشت کھو رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے جھگڑوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر یہ جھگڑے تشدد اور خون خرابے میں بدل جاتے ہیں۔ گھروں میں بچوں کو محبت، صبر اور رواداری کی تعلیم دینے کے بجائے اکثر ان کی تربیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ والدین اپنی مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں، اساتذہ اپنی ذمہ داری کو نصاب اور امتحانات تک محدود کر دیتے ہیں، یوں نئی نسل رہنمائی سے محروم ہو کر ایسے راستے اختیار کرتی ہے جو ان کی اپنی زندگی اور پورے معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ گرنجو گاندربل کی یہ خونچکاں واردات اسی بحران کی ایک خوفناک مثال ہے۔
اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ نفسیاتی دباؤ اور ذہنی بیماریوں نے ہمارے نوجوانوں اور خواتین کو جکڑ لیا ہے۔ ڈپریشن، تنہائی اور بے چینی اب عام مسائل ہیں مگر ہمارے ہاں ذہنی بیماری کو آج بھی عیب سمجھا جاتا ہے۔ علاج اور رہنمائی کے بجائے لوگ خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں، نتیجہ یہ کہ یہ دباؤ کسی دن اچانک ایک دھماکے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور انجام ایک ایسا سانحہ ہوتا ہے جسے سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔اس سب کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل بھی ایک تلخ حقیقت ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور گھریلو تنازعات نے گھروں کو سکون کے بجائے کشمکش کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑے، معمولی تلخیاں اور وقتی ناراضگیاں اگر وقت پر سلجھا نہ لی جائیں تو یہ نفرت کی ایسی آگ بن جاتی ہیں جو آخرکار انسانی جان کو نگل جاتی ہیں۔ بہن کا بہن کو قتل کر دینا اسی آگ کی دہکتی ہوئی چنگاری ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری تعلیم صرف ڈگریوں اور نوکریوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو سائنس، ریاضی اور ٹیکنالوجی تو پڑھا رہے ہیں مگر صبر، برداشت، محبت اور ہمدردی کی تعلیم کہاں ہے؟ وہ درس کہاں ہیں جو ان کے کردار کو سنوارتے اور ان کے رویوں کو متوازن بناتے؟ آج ہماری نسل کو رہنمائی کی شدید ضرورت ہے لیکن ہم نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ یہی خلا انہیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر رہا ہے جو معاشرتی اقدار کو مسخ کر دیتے ہیں۔
اسلام اور ہماری روایات بہن بھائی کے رشتے کو سب سے زیادہ عظمت دیتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں بار بار صلہ رحمی یعنی رشتوں کو جوڑنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ بہترین مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ لیکن یہ تعلیمات جب عملی زندگی سے غائب ہو جاتی ہیں تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ گاندربل کا واقعہ اسی خلا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
یہ سانحہ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ اس آئینے میں ہمیں اپنی کوتاہیاں، اپنی غفلت اور اپنی ذمہ داری سے فرار صاف نظر آ رہا ہے۔ ہمیں اس سے یہ سبق لینا ہوگا کہ اگر ہم نے گھروں کو دوبارہ محبت اور امن کا گہوارہ نہ بنایا تو آنے والے دنوں میں ایسے اور سانحات ہمارے دروازے پر دستک دیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کے دلوں میں برداشت اور محبت کے چراغ جلانے ہوں گے، انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ غصے پر قابو پانا سب سے بڑی طاقت ہے، اور یہ کہ رشتوں کی تقدیس ہر حال میں قائم رکھنی ہے۔
گاندربل کا قتل ایک زخم ہے جو جلد مندمل ہونے والا نہیں۔ یہ زخم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی مسائل کو حل نہ کیا تو آنے والی نسلیں رشتوں پر سے اعتماد کھو بیٹھیں گی۔ یہ زمین جو ہمیشہ اخوت اور بھائی چارے کی پہچان رہی ہے، نفرت اور خون کی وادی میں بدل سکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ والدین، اساتذہ، علما اور سماجی ادارے سب کو مل کر یہ ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے گھروں میں محبت کی فضا قائم ہو، ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگری دینے والی فیکٹریاں نہ ہوں بلکہ تربیت گاہیں ہوں، ہمارے مذہبی ادارے صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی زندگی کو سنوارنے میں کردار ادا کریں۔ جب تک ہم یہ سب نہیں کرتے تب تک گرنجو گاندربل جیسے سانحات ہمارے سماج کے سینے پر زخم بن کر لگتے رہیں گے۔
آخر میں یہ کہنا ہی کافی ہے کہ یہ قتل محض ایک بہن کے ہاتھوں دوسری بہن کا نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کے خوابوں، امیدوں اور اقدار کا قتل ہے۔ اگر ہم نے اس سانحے کو محض خبر سمجھ کر بھلا دیا تو یہ زخم کبھی بھرنے والا نہیں۔ مگر اگر ہم نے اسے ایک سبق سمجھا اور اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی سعی کی تو شاید آنے والی نسلوں کو ہم وہ محبت اور سکون لوٹا سکیں جس کی وادیٔ کشمیر صدیوں سے پہچان رہی ہے۔
(مضمون نگار اچھن پلوامہ سے تعلق رکھتے ہیںاور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے بیں الاقوامی سیاست میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی ہے)