فکر ِ صحت
ڈاکٹر ریاض خان
ذہنی صحت اور اس کی اہمیت ہر طبقے کےلئے اہم ہے۔ نوجوان طبقہ کے لئے اس کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تحقیق کے مطابق 15-29سال کے لوگوں میں سے ہر 6میں سے ایک نوجوان ڈپریشن یا انزائٹی جیسے مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔لڑکپن سے لے کر نوجوانی تک کے مختلف مراحل میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی قسم کے جذباتی مسائل یا نفسیاتی الجھن کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ماحول میں رونما ہونے والے واقعات و حالات جیسے غربت ، خوف، بے یقینی جیسی صورتحال نوجوانوں کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق10 سے 19 سال کے نوجوانوں میں ڈپریشن کی شر ح 13 فی صد ہے۔بے چینی، ڈپریشن، مایوسی اور ایسے کئی انتہائی سنجیدہ موضوع سامنے ہیں ، جس میں 15-20سال کی عمر کے نوجوانوں میں موت کی بھی بڑی وجہ خودکشی ہے۔ایسے نوجوانوں کو نامساعد حالات سےبچانا اور ان کی ذہنی اور جذباتی نشوونما، تربیت اور ذہنی صحت کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ نوجوانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ بدلتے ہوئے سماجی رویوں بالخصوص اسکول، کالجز اور تعلیمی اداروں میں عدم توجہی کا شکار نوجوان جب کسی ذہنی مسئلے سے گزرتا ہے تو خود کو اکیلا کر دیتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماری کو بیماری سمجھنے اور اس کا علاج کرانے کے لیے نظریئے کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں جسمانی اور طبعی بیماریوں کو تو علاج اور توجہ دی جاتی ہے ، مگر کسی جذباتی اور نفسیاتی اُلجھن ممکن نہیں، اس لئے حل نہیں ہو پاتی ،کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ابھی بھی اس کو تسلیم نہیں کیاگیا۔
مزید براں ذہنی الجھن کو پاگل قرار دیئے جانے اور ذہنی مرض کے شکار انسان کو تنہا کر دینے کا رواج ہے۔یہی معاشرتی رویئے عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں اور یوں ایسا نوجوان خود کو گھر اور معاشرے سے الگ کرلیتاہے۔ اسی طرح اس کے ساتھ رونما ہونے والے باقی مسائل سے مدد نہ حاصل کرنا اور غیر صحت مندانہ رویوں کی طرف رجحان رکھنا، نوجوانوں میں غصہ، عدم استحکام اور فرسٹریشن پیدا کرتا ہے، جس سے ذہنی اور جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
لڑکپن سے نوجوانی تک کا دور انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دور میں نوجوان عمومی طور پر بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں صحت مند رویّوں سے مناسب نیند، غذا، بہتر گھریلو ماحول، حالات کا سامنا کرنے کے لئے درکار مثبت سوچ اور توانائی کا فقدان اسٹریس کا باعث بنتا ہے اور نوجوانوں میں جذباتی اور ذہنی صحت کے مسائل کے نئے اسباب ہوتے ہیں۔جس میں سے سرفہرست ذہنی دباؤ ہے۔ نوجوانوں میں ذہنی دبائو کا کافی اثر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عموماً بچے ڈپریشن، انزائٹی اور اسٹریس کا شکار رہتے ہیں ۔ تعلیمی میدان میں ناکامی ا سے مزید مایوسی کی طرف دھکیل دیتی ہے، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو دوسرا بڑا مسئلہ ہے وہ خاندانی مسائل کا ہے۔ رشتوں میں تناؤ والدین کے مابین تنازعات، لڑائی جھگڑے، طلاق، رشتے داروں کے مسائل براہ راست نوجوانوں کی جذباتی اور ذہنی صحت پر اثر ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ صحت مندانہ سماجی روئیے، دوستوں اور ساتھیوں کے مابین لڑائی دوسروں کی برابری کرنے کی دوڑ، سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت ضائع کرنا، آپس میں معاملات میں تنازعات اور جھگڑے بھی نوجوان کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ماحولیاتی عوامل سے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی، معاشی چیلنجز ، بے روزگاری بھی نوجوانوں کو اسڑیس کا شکار بنا دیتی ہے۔تعلیمی اداروں سے لے کر سماجی صورتحال ہی میں نوجوانی کا خود کو سہنا محسوس کرنا، ذاتی شناخت اور تشخص کے حوالے سے خود کو غیرموزوں سمجھنا، خاص طور سے اسکول کالجوں میں ہونے والے Bullyingبھی نوجوانوں کو ذہنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ نشے اور دوسرے خطرناک رویوں کی طرف لے جاتا ہے۔ بدلتی ہوئی تیز رفتار زندگی اور مقابلے کی دوڑ نے نوجوان کو عدم تشخص کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کی وجہ سے نوجوان اپنی توانائی ،اپنی خوبیوں کو اُجاگر کرنے کے بجائے اپنی شناخت کو دوسروں میں ڈھونڈ نے لگ جاتا ہے،پھر اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہوکر خودساختہ تنہائی اختیار کر لیتا ہے اور یوں اپنی ہی ذات کے خول میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ اندر ہی اندر گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے اور مایوسی، ڈپریشن، انزائٹی جیسے امراض کا شکار ہو تا چلا جا رہا ہے۔ معاشرتی اور گھریلو عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جن کا بہت سے نوجوان کی ذہنی حالت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔نوجوانوں کی ذہنی صحت کی بہتری کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے، مگر اس کے لئے معاشرے کے عام ارکان سے ادارے، حکومت، خاندان، صحت عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا مل کرکام کرنا بہت ضروری ہے۔ ذہنی صحت کے فروغ کے لئے سائیکلولوجسٹ (Psychologist) کے پاس جانا بہت ضروری ہے، جس میں ان کو مختلف ذہنی امراض کی علامات، شناخت کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے، تاکہ وہ خود میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے فوراً اسے سدباب کے لئے معالج یا ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ذہنی امراض کے دیگرStigmaکو کم کرنے کے حوالے سے آگہی دینا بہت ضروری ہے۔یاد رہے کہ اہم امر بر وقت تشخص اور علاج کا ہے ۔ اسکولوں میں موجود اساتذہ اور کائونسلر کا موجود ہونا اور صحت عامہ کے شعبوں میں ذہنی صحت جیسے شعبے کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اسکولوں کالجوں میں ایسے ٹیسٹ اورامر متعارف کرنے کی اشد ضرورت ہے،جس کی مدد سے ذہنی امراض کی screening کویقینی بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں موجود کائونسلراور تھراسٹ کی موجودگی نہ صرف بروقت علاج کی سہولت میں مؤثر ثابت ہو گی بلکہ اس سے یہ تاثر بھی فروغ پائے گا کہ ذہنی اور نفسیاتی اُلجھنوں کا ہونا بھی ایک فطری ردعمل ہے۔جس کاسائیکوتھراپی کے ذریعے علاج ممکن ہے۔ اس کے ساتھ اسکولوں میں موجود ٹیچرز اسٹاف اور دیگر عملے اور محکموں کو یہ باور کرانا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اداروں میں مثبت ماحول کے فروغ کو یقینی بنائیں، تاکہ مستحکم ماحول پیدا ہو سکے جہاں نوجوان اپنی توانائی اور اپنی خوبیوں کو اجاگر کرنے میں صرف کریں۔ اس طرح اسکولوں کا اسے اداروں کے ساتھ تعاون جو ذہنی صحت کی سہولیات مہیا کرتے ہیں بہت ضروری ہے، تاکہ وہ نوجوان میں جو بروقت علاج کے مستحق ہوں ان کو تنہا چھوڑنے کے بجائے ایک دوستانہ طریقہ کار سے موزوں ان اداروں میں بھیجا جاسکے جو ذہنی صحت کے حوالے سے موزوں علاج جسے دوا، تھراپی، کانسلنگ مہیا کرتے ہیں۔
والدین کی تعلیم و تربیت اور ان کو ان کے بچوں کی صحت و سرگرمی سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ اسے ذرائع اور وسائل کا فروغ بہت ضروری ہے، جس سے والدین اور بچوں میں عدم اعتمادکی فضا کو کم کرکے بات چیت بہتر بنائی جاسکے، تاکہ ہمارا نوجوان خود کو تنہائی کی دلدل میں نہ محسوس کرے بلکہ گھر اور معاشرے سے ملنے والے سہارے سے فائدہ اٹھا سکے۔
غیر سیاسی اور نیوٹرل سماجی سرگرمیاں جسے فلاح و بہبود کے کاموں میں نوجوانوں کی شمولیت بھی نوجوانوں کو منفی سوچوں اور رویوں سے بچاتی ہے۔ غرض نوجوانوں کا ذہنی مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کے سدباب کے لئے نہ صرف حکومتی سطح پر اصلاحات ہونی چاہئے بلکہ ہمیں بھی افرادی طور پر اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم خود اپنے نوجوانوں کی ذہنی نشوونما پر توجہ دیں۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی ملک کا سرمایہ نوجوان طبقہ ہوتا ہے اور اس طبقے کی مستحکم نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی جائے۔
ان کی ذہنی صحت اور نشوونما کو اولین ترجیح سمجھا جائے اور ایسے معاشرتی سماجی اور انفرادی عوامل کا سدباب کیا جائے جو ان کی ذہنی پسماندگی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔