حق گوئی
عاقب ابن اعجاز
معاشرے میں جب طرح طرح کے جرائم وقتاً فوقتاً جنم لیتے ہیں، جن کا ازالہ اگر بر وقت نہ کیا جائے تو یہ ایک وباء کی صورت اختیار کرکے معاشرے کو اپنے اندر لپیٹ لیتے ہیں ۔ خاص کر نو جوان نسل کو، جو کہ قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔جب ہم اپنے وطن عزیز کشمیر پر نظر دوڑاتےہیںتو ہمارے یہاں جرائم کے طوفان اُمڈ آئےہیں۔منشیات(drugs)، جوا، online fraud schemes، اور بھی جتنی ساری بُری چیزیں ہیں، جن سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کشمیر میں ان سب چیزوں کا بازار گرم ہے اور لوگ اس دلدل میں پھنستے چلے جا رہےہیں،جن سے چاہ کے بھی نکلنا مشکل ہوتا ہے،وجہ کیا ہے؟ ہم لوگ کیوں ان بُرائیوںکا شکار ہوتےہیں۔ چاہے online games میں پیسے لگانا ہو، چاہےاکیس دن میںپیسے ڈبل (double) والی سکیم (scheme) ہو،چاہے غبن و گھپلے کرنا ہو،چاہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لئےلوگوں کومضر صحت ،سڑا ہوا حرام گوشت کھلایا ہو،نقلی ادویات کےکاروبار کو گلی گلی اور کوچوں کوچوں میں پھیلانا ہو،یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا شیوہ بن چکا ہے اور اسی طرح کے بہت سارے ناجائز ، غیر قانونی اور انسانیت دشمن دھندوں کی لت کا نشہ ایسے لوگوں کی رگ رگ میں رچ بس گئی ہے،جنہیں نہ دنیا کی فکر ہے اور نہ آخرت کی۔اگرچہ اس ساری صورت حال کے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں تاہم ،ہم یہاںمحض دو وجوہات پر بات کریں گے۔
پہلی وجہ ،جو کہ میرے ذہن میں بھی آرہی ہے، وہ یہ کہ یہاں کا نوجوان نسل کی ایک کثیر تعداد بے روزگار ہے ،جو کوئی معقول ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے وہ اِدھر اُدھر ہاتھ مار رہے ہیں اور راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیںجو کہ ممکن نہیں ہےاور اس چاہت میں وہ اپنے والدین کی جمع پونجی بھی گنوا رہے ہیں۔ کچھ ایسا واقعات سُننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں،جن سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ باپ نے اپنی زندگی کی پوری کمائی اپنے بیٹے کے اکاونٹ( bank account) رکھے ہوئے تھے اور بیٹے نے سارے پیسےGamesمیں ہار لئے ہیں اور بھی کئی سارے واقعات ایسے ہیں، جن کوسُن کر افسوس کرنے اور ہاتھ مَلنے کےسوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ:اصل میں ترجیحات بدل جاتی ہے اور لوگوں نے دین کے ترجیح دینےکے بجائے دُنیا کو دے رکھی ہے۔ خاص کر نو جوانوں میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ کامیابی ، بڑی بڑی گاڑیوں میں ہے، پیسوں سے ہے، Branded کپڑے پہنے میں ہے ۔حالانکہ یہ حقیقی کامیابی نہیں ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مقدس میں بیشترمختلف مقامات پر فرماتے ہیں:’’فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی ، اور اپنے پروردگار کا نام لیا، نماز پڑھی ، لیکن تم لوگ دُنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو، حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائدار ہے۔‘‘(سوره اعلی ۱۷-١٤)۔ دوسری جگہ آیا ہے، ’’ فلاح اُسے ملے گی جو اپنے نفس کو پاکیزہ بنائے۔‘‘ (سورہ الشمس : ٩)
اب اگراس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہے تو وہ یہ ہے کہ اولین فرصت میں اپنا تعلق قرآن کریم اور احادیث پاک سے مضبوط طریقے سے استوار کریں۔قرآن پاک نے واضح طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ، اپنے نفس کو پاک رکھنے میں کامیابی ہے۔ نفس ہی اُن بُرے افعال پر اُبھارتا ہے۔ اس لئے قرآن پاک نے نفس کی پاکیزگی (تزکیہ نفس) کو ہی اصل کامیابی قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان محنت و مشقت کرتا ہے ، نفس کو پاک رکھتا ہے تو پھر ُدنیوی زندگی اور اس کی کامیابی انسان کو عارضی اور حقیر نظر آتی ہے۔ جیساکہ قرآن مجید بیان فرماتے ہیں کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل تماشا ہے اور حدیث پاک کا مفہوم بھی ہے کہ انسان کو قبر میں احساس ہوگا کہ میں نے کن فضول اور عارضی چیزوں کی خاطر اُخروی زندگی کو بھُلا دیا تھا۔بے شک دُنیا کمانا کوئی بُری بات نہیں، مگر طریقہ حلال و شریعت کے حدود کے تحت ہونا چاہیے۔ اگر واقعی انسان آخرت کی زندگی کو ترجیح دیگا تو وہ دُنیا کو بھی کمائے گا، بشرطِ کہ ضرورت دنیا کے سازو سامان کو زندگی کی ضرورت سمجھ کر استعمال کریگا اور سکون اور خوشحالی سے زندگی گزارے گا۔ وہ اپنی محنت و مشقت اور خون پسینےکی کمائی کسی کو یونہی نہیں کھانے دیگا، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیںکہ نوجوان چھوٹی چھوٹی رقم جوئے یا کسی اور طریقے سے داؤ پر لگا کر ہار جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اِکا دُکا بڑا رقم واپس آتا ہے۔مگر غور طلب بات یہ ہے پوری قوم کی حیثیت سے ہم اس سے گناہ گار ہو جاتےہیں، جس کی طرف ہمارا دھیان باکل بھی نہیں جاتا۔ایک اور حل یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت ٹھیک سے کریں اور ان کیلئے صحیح اسکول ، مدرسہ کا تعین کرلیں، کسی اچھے اور مستند شخص ( عالم دین) کی صحبت
میں رکھیں تاکہ بچے بچپن سے ہی دین سے آشنا ہوکر کسی بھی قسم کی غلط یا بُری صحبت سے باز رہیں اور بُرائیوں اور خرابیوں سے پاک رہ سکیں۔
[email protected]