برماجنوبی ایشیا کا جغرافیائی حصہ ہے ۔اس کے شما ل میں چین اور ہندوستان ہے۔جنوب میں بنگال کی کھائی اور تھائی لینڈ،مشرق میں بھی چین اور تھائی لینڈ کی سرحد یں ملتی ہیں،جب کہ مغرب میں بنگال کی کھائی ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سرحدیں جڑی نظر آتی ہیں۔کل چودہ ریاستوں پر مشتمل برما کی مجموعی آبادی اس وقت ۷ ؍ کروڑ سے زائد ہے ۔مجموعی طور پر برما غریب ملکوں کی فہرست میں شامل ہے ۔ یہاں ایک عرصہ تک مارشل لا کا نفاذ رہا ہے اس لیے اس کے اثرات بھی نمایاں طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔جب کی یہاں کی تجارت کو لوٹ مار، کرپشن ،رشوت اور بدنظمی کے علاوہ بدھسٹوں کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک نے تباہ و برباد کیا ہے ۔ برما کے زمینی حقائق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہاں فوجی حکومت ۲۰۱۰ء تک قائم رہی ہے ۔یہ بھی ایک قسم کی برمی بدحالی کی بہت حد تک موجب اور ذمہ دار کہی جا سکتی ہے۔ کہنے کویہاں اس وقت جمہوریت نافذ ہے اور اکثریت بدھ مذہب کی ہے ۔اراکان برما کا ایک صوبہ ہے جو ملک کے جنوبی مغرب میں واقع ہے ۔ یہ وہ برمی ریاست ہے جو جغرافیائی اعتبار سے بنگلہ دیش کے شہر چٹا گام سے متصل اور قریب ہے ۔رہے یہاں کے باشندے تو اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ جہاں تک اس کی سابقہ تاریخ کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں جو معلومات دستیاب ہیں ان کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ۱۷۸۴ء سے پہلے یہ ایک مکمل آزاد اسلامی ریاست رہی ہے ۔مگر مذکورہ عیسوی میں برما کے راجہ نے اراکان پر حملہ کرکے اس پر ظلماً و جبراً قبضہ کرلیا۔مگر ٹھیک سوسال بعد ۱۸۸۶ء میں انگریزوں نے نہلے پر دہلا کا ثبوت دیتے ہوئے اراکان کو اپنے زیر نگیں کرلیااورانہوںنے مسلسل ۶۲؍سال تک برما پر حکومت کی۔برمی شہریوں نے انگریزوں سے رہائی پانے کی جو مہم چلائی یا تحریک چھیڑی تھی، اس میں بھی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر شانہ بہ شانہ بدھسٹوں اور مگھوں کا ساتھ دیا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے بدھسٹوں نے یہاں کے مسلمانوں پر انگریزوں کے دور میں بھی ظالمانہ سلوک روا رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی محدود تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بدھسٹوں کے معاندانہ رویہ سے تنگ آکر انگریزوں سے رہائی کے بعد پاکستان کے مشرقی علاقے جو اس وقت بنگلہ دیش کے نام سے موسوم ہے ،میں شمولیت کی اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تھا مگر انگریزوں اور بدھسٹوں نے ان کی اس خواہش کی تکمیل بڑی رکاوٹ ڈال دی اور اس طرح اراکان کے مسلمان اقلیت میں رہ کر برمی سرزمین کے ہی باسی بن کر رہنے پر مجبور ہو گئے۔اراکان میں جو مسلمانوں کی اس وقت حالت ہے اور یہاں کی حکومت کا جو ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ پچھلے ایک عرصہ سے رہا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے انسانی زبان تھر اجاتی ہے ،قلم لڑکھڑانے لگتا ہے ۔کوئی ایسا ظلم نہیں ہو گا جو برمی بدھسٹوں نے یہا ں کے بے قصور اور نہتے مسلمانو ں پر نہ ڈھادیا ہو۔قتل وغارت گری، عصمت دری اور آبرو ریزی ،مساجد کی انہدامی ،مکاتب و مدارس کی مسماری اور عبادت گاہوں کی زمیں بوسی ،مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے وجود کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کی ناپاک کوششوں کو اپنا فریضہ قراردے دیا ہے ۔
برمی مسلمانوں کی اس انسانیت سوز بدحالی کی سراسرذمہ دار یہاں کی موجودہ حکومت ہے ۔چنانچہ ۲۰۱۰ء میں جب یہاں جمہوری طرز حکومت کے نفاذ کے لیے انتخاب عمل میں لایا گیا تو فوجی حکومت کے مقابلہ میں کھڑی اس وقت کی حزب مخالف نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سانگ سوچی کا میاب ہوئی ۔اس چڑیل کی کامیابی اور نام نہاد نوبل انعام کی بے حرمتی کافریضہ انجام دینے والی اس منحوس عورت کی الیکشن میں جیت مسلمانوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس بے ضمیر بدھسٹ عورت نے خود فوج کے ہاتھوں بیس سالو ں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ذلت و خواری کی صعوبتیں اُٹھائی ہیں، اپنی چالبازی اور سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے ساتھ نرمی کامعاملہ روا رکھا۔مسلمانوں کی مذہبی اور دینی رسومات پر بظاہر کوئی پابندی نافذ نہیں کی گئی ۔ ماحول اتنا ساز گار ہوچکا تھا کہ برسوں پہلے کچھ خاندان کے جن لوگوں نے بدھسٹوں اور یہاں کی فوج کے ظلم وستم سے تنگ آکر مذہب اسلام کو ترک کردیا تھا ،وہ واپس اپنے دھر م میں آنے لگے۔ایسے خاندانوں میں ایک خاندان ایسا بھی بدھسٹوں کی نظر میں آگیا جس کی دوخواتین نے ایک ساتھ اسلام قبو ل کرلیا۔اسلام دشمن بدھسٹوں اور مگھوں کو یہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے ان دونوں خواتین کا بے دریغ قتل کردیا اور یہ مشہور کردیا کہ مسلمانوں نے دو بدھسٹ خواتین کو قتل کردیا ہے ۔ یہیں سے فرقہ وارانہ فساد کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ اس وقت شروع ہو گیا جب ۳۷؍افراد پر مشتمل ایک تبلیغی جماعت پر اراکان میں چند دہشت گرد بدھسٹوں کی طرف سے جان لیوا حملے میں اس دعوتی قافلہ میں شامل دس افراد موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے جب کہ ۲۷؍افراد کو سخت ترین زخموں کا سامنا کرنا پڑا۔یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا اور اب پورے برما میں مسلمانوں کو بے دردی سے ذبح کیا جارہا ہے ۔ یہاں روزانہ سینکڑوں مسلمان بچوں، بچیوں ، بوڑھوں اور بوڑھیوں کو اس طرح کلہاڑیوں سے چیرا جارہا ہے جس طرح لکڑیوں کو چیر ا جاتا ہے ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹا اورتراشا جارہا ہے ۔صرف پانچ دنوں کے اندر ۱۰۰ ؍کلو میٹر کے دائرے میں آنے والی مسلم بستیوں کو باشندوں سمیت خاکستر کردیا گیا اور ہزاروں جانیں جل بھن گئیں۔ اطلاعات کے مطابق گذشتہ ایک ماہ میں ۲۲۰۰۰؍ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے ، اس کے علاوہ دس ہزار مسلمان بھاگتے ہوئے شہید کردیے گئے اور پندرہ سو سے زائد عورتیں عصمت دری کے لیے فوج میں تقسیم کردی گئیں۔زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹ کر چیل کوئوں کو دے دیا گیا ۔ اس طرح دوسری طرف اس بے دردانہ قتل و غارت گری اور ظلم وستم کے نتیجہ میں روزانہ بے شمار عورتیں بیوہ ،لاتعدادبچے یتیم اور اَن گنت لوگ بے گھر ہورہے ہیں ۔ابھی بھی ایک لاکھ سے زائد مسلمان بدھسٹوں کے ظلم وستم کے چنگل میں گرفتار جنگلوں میں محصور ہیں ۔
حیرانی کی بات ہے جو بدھ ازم یہ تعلیم دیتا ہے کہ’’زمین پر چلنے میں بھی وہ احتیاط کیا جائے کہ کوئی کیڑا پائوں سے دب کر کچل نہ جائے ‘‘ اسی کے پیروکار مہاتمابدھ کی تعلیمات بھلا کر وحشی درندوں کی طر مسلمانوں کی مار دھاڑ کر رہے ہیں ۔ وحشیانہ ظلم و ستم سے تنگ آکر جب برمی مسلمانوں نے بنگلہ دیش کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ تصورکر کے اس سمت رخ کیا تو بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بے رحمی و سنگ دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان پر اپنی سرحدیں بند کردیں۔البتہ جن کو رشوت دے کر بنگلہ دیش میں داخلہ ملا ،وہ بھی یہاں کے جنگلوں میں بھوکے پیاسے بھٹک ر ہے ہیں ۔ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ایک برمی عالم دین نے ایک ٹی ۔وی ۔ چینل پر برمی مسلمانوں کے لیے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کے واسطے اخوت دینی کو بیدا رکرو اور راہ چلتے بھوک وپیاس کی وجہ سے شہید ہورہے ہم برمی مسلمانوں کی نصر ت کے لیے آگے بڑھ۔‘‘یہ دل دہلا دینے والی صورت حال برمی مسلمانوں کے تئیں آنگ سانگ سوچی کی زہرناکی کا کڑوا پھل اور عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش ہے، جس پر سے آہستہ آہستہ پر دے سرک رہے ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ظلم اس وقت برمی مسلمانوں پر ہورہا ہے اورعالم اسلام خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے ۔مسلمانوں کے چھپن ممالک ہے اور ان کا ایک متحدہ محاذ بھی ہے ،اس کے باوجود ان کے حکمرانوں کے کانوں پر برما کی صورت حال کے حوالے سے جوں تک نہیں رینگتی ۔ اگر ایسی خاموشی قائم رہی تو یہ اشعار خدانخواستہ حقیقت کا روپ دھارن کر سکتے ہیں۔
جلتے گھروں کو دیکھنے والو ! پھوس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پہ میں بھی خوش تھا اب میرا نمبر آیا
میرے قتل پہ آپ بھی خوش ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
برمی مسلمانوں کی ملک میں برسوں سے یہاں کے سیاسی افق پر جو صورتحال رہی ہے وہ یہاں کی سیاسی ظلم و استبداد اور فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاس اور خودساختہ مجرمانہ قانونی دست درازی کی پیداوار ہے ۔چنانچہ حکومت کی نظر میں ان کی جو حیثیت ہے وہ درج ذیل ہے :(۱)انہیں چار سوسالوں میں برما کی شہریت حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔(۲)تعلیم کے دروازے ان پر بہر حال مقفل ہیں ۔(۳)سرکاری نوکریوں میں وہ حصہ لینے کے مجاز نہیں ہیں۔(۴) شادی بیاہ میں بھی ان کی مذہبی مرضی نہیں چلتی ۔وہ اپنے مذہب پرعمل کرنے سے قاصر ہیں ۔(۵) حکومت میں ان کی کوئی حصہ داری نہیں ہے ۔(۶) اُنہیں اس وقت ملک میں چہل پہل کی بھی پابندی ہے وہ جب کبھی اپنی جان بچانے کے لیے علاقہ تبدیل کرتے ہیں تو انہیں گولیوں سے بھون دیا جا تاہے ۔ (۷)وہ سراپا مظلومی کی داستان بنے ہوئے ہیں ۔
اسلامی اخوت وبھائی چارگی کا تقاضا یہ ہے کہ برمی مسلمانو ں کی جانوں کا تحفظ کیا جائے ۔ان کی اُجڑی، بے چین ،پر خوف اور بے مزہ زندگی کو آباد، پر سکون اور بے خوف بنایا جائے ۔ظالم حکومت کے پنجہ ٔ ظلم کو توڑنے میں پوری اسلامی حمیت اور دینی غیرت کا ثبوت پیش کیا جائے ۔اس کے لیے شرط اول یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا ایک ساتھ آواز بلند کرے اور اپنی حمیت اسلامی کو ثابت کرے ۔یہ کام مشکل نہیں بلکہ اس طرح بہت آسان ہے کیونکہ
متحد ہوتو بدل ڈالو زمانہ کا نظام
منتشرہوتو مروشور مچاتے کیوں ہو
اس وقت برمی مسلمانوں کی زندگی کا تحفظ اسی امرمیں مضمر ہے کہ بنگلہ دیش اپنی سرحد کھول دے اور ملت دل کے دروازے وا کر دے ۔ ہندوستان کی موجودہ بھاجپاحکومت سے یہ توقع کرنا فضول ہے ۔ لٹے پٹے روہنگیائی مسلمانوں کو بسنے اور محفوظ رہن سہن کی جگہ دے دی جائے ، ان کو جان کی امان دے دی جائے۔ اگر بنگلہ دیش کی موجودہ خاتون حکمران اپنی سیاسی خود غرضیاں نظر انداز کر کے کم سے کم روہنگیا مہاجرین کے لئے انصار بن کر انہیں یہا ںعارضی ٹھکانہ دیںاور مسلم ممالک خاص کر سعودی عرب ، قطر ، ایران ، ترکی، مصر ،پاکستان، عراق وغیرہ کے حکمران و سلاطین ان مستحق امداد مسلمانوںکےلئےاپنی زمینیںاور وسائل پیش کریں۔ مسلمانوں کو عیال اللہ مان کرفی الحال برما کے مظلوم مسلمانوں) کومواضات و مساوات کی بنیاد پر اپنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں امن وسکون کے ساتھ اراکان میں ایک آزاد مسلم ریاست تشکیل دینے کے لئے اقوام متحدہ سے اوآئی سی باضابطہ طور رجو ع کریں ؎
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی
مؤخر الذکر کام فوراً نہیں انجام پاسکتا ،اس لیے مقدم الذکر کے فریضہ کی ادائیگی سے فارغ ہونے کے بعد ہی تمام مسلم ممالک مظلوم کی جنگ میں ظالم کا ہاتھ مروڑ نے کے لئے برمی حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیاں ، سفارتی قدغنیں اور دوسری تادیبی کارروائیاں کریں ۔ فی الوقت عوام اور حکمران سیاسی تقریر بازیاں نہیں بلکہ عملی طور ریسکیوآپرویشن کاکام کام کریں کیونکہ اس وقت اگر زور وشور سے بچاؤ کارروائیاں نہ ہوں تو روہنگیا کو اور بھی زیادہ ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ روئے زمین کوظلم وجور سے آزاد کر نے کے لئے ہم سب کو اس آزمائش میں کھرا اُتر نے کے لئے نبویؐ تاریخ کو دہرانے کی کامیاب سعی کرنا ہوگی تاکہ تخریب کا جواب تعمیر سے دیا جاسکے ۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مسلم ممالک کافوجی اتحاد،تمام اسلامی ممالک کے راست گو مسلم حکمراں ، امراء،مسلم ریاستیں ،علماء و صلحاء ،واعظین و مبلغی برمی مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم اور زیادتی وناانصافی کے خلاف قدمے سخنے دامے درمے کمر بستہ ہوں۔ برمی مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اللہ پر توکل اور بھروسہ کر کے ہمت سے کا م لیں اور مخالفین کا یہ سوچتے ہوئے ڈٹ کر مقابلہ کریں کہ یہ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں حق پسندوں کی دیر سویر جیت ہوتی ہے ۔انہیں چاہیے کہ وہ آپس میں حالات کی مقابلہ آرائی اور مزاحمت کے لیے کمر ہمت باندھیں اور اپنا کم ازکم نقصان ہو ،اس کے لئے مدافعانہ حکمت عملیاں وضع کریں ۔ اس ضمن میںخدا کی ذات کاملہ پر بھروسہ کریں،اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ،میدان چھوڑ کر صرف اسی صورت میں ہجرت کریں جب کوئی اورچارہ کار باقی نہ رہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ سے اپنارشتہ بہر حال جوڑے رکھیں اور اس سے مدد مانگیے وہی کوئی سبیل نجات اور راہ رہائی غیب سے نکا ل دے گا ۔اسی کی توفیق ملے گی تو روہنگیائی مسلمانوں کی اللہ کے حضورآہ اورچیخ وپکار ان کی غیرت دینی کے لیے مہمیز لگاسکے گی۔خدا وند قدوس کا اعلان ہے کہ چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر اللہ کی توفیق اور اس کی مدد سے غالب آجاتی ہے( بقرہ ) ۔ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر اور کچھ نہ کر سکیں مگر اللہ سے دعا کریں کہ خالق کائنات اور دلوں کی دنیا بدلنے والا مالک انفس وآفاق برمی مسلمانوں کی مدد کرے اور جس طرح اس نے اسلام دشمن منگولوں کو ہدایت ِاسلام دے کر تاریخ کی کایا پلٹ کر دی ،اسی طرح پورے برما کو لاالہٰ کے نور سے منور کر دے اور حق کے ظہور سے مسخر کر دے کہ برما کی پوری سرزمین اسلامی رنگ میں رنگ جائے اور اس پر خدائے وحد ہ لاشریک کی عبادت کی ہی گونج سنائی دینے لگے اور اسلام کا بول بالاعام ہو جائے تاکہ پھر ایک بار یہ حقیقت دنیا پر واشگاف ہو جائے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبائو گے
رابطہ shefaullahnadwi@gmailcom
������