ڈاکٹر گلزار احمد وانی
مظفر حنفی برصغیر کے ان ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں جن کے کلام کو ان کی حیات میں ہی اعلی درجہ اور ممتاز مقام حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے زیست کے سفر میں جتنے بھی تجربے اور مشاہدے کئے ہیں ان کی تمام روداد شعری صورت میں اپنے کلام میں بیاں کی ہے۔ انہوں نے زیست کے اس سفر کو شعری سفر نامہ کے بطور قارئین کی نذر کیا ہے۔ مظفر حنفی ناصر کاظمی کی طرح چھوٹی چھوٹی بحروں میں اشعار کہتے ہیں جو دلوں پر نقش ہو کر اپنے تاثر سے بھی مہکاتے ہیں۔ ان کے کلام میں بصری ، لمسی اور حسی پیکروں کی بھی بھر مار ہے اس کے ساتھ ساتھ استعارات و تشبیہات اور تراکیب سے بھی ان کا کلام سجا ہوا ہے۔ جیسے تراکیب میں برق و باد ، دشت و جبل ،کف پا ، جا اماں ، دریدہ جسم، گردِ رہِ خامہ، شبِ وصل ، دیدۂ بیدار، گردابِ شعر اور شکست ِ ذات وغیرہ۔اگر چہ ان کا کلام کسی بھی نظریے سے دور ہی سہی مگر اک چبھن اور خلش ضرور محسوس ہو جاتی ہے کہ شاعر نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سرمایہ کھویا ہے جس کی سرگردانی ان کے اشعار میں بخوبی پائی جاسکتی ہے کہ جیسے ان کے کلام میں تقریباً ہر دو غزل کے بعد کسی بھی غزل میں رات ، سیاہ ، اندھیرا ، ہوا ، آندھی ، دیا اور تیرگی کے جیسے الفاظ پھر پھر کے استعمال ہو کر اپنے تاثر سے ایک قاری کو جگا دیتے ہیں۔ مظفر حنفی نے کبھی بھی اردو کے کسی بھی رجحان کے تابع میں اپنی ذات کو مقید نہ رکھا ، بلکہ وہ ان سب چیزوں سے ماورا ہو کر زندگی اور اس کے فلسفے میں گم دکھائی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:
ہم کو جو کہنا تھا طرزِ بے بدل میں کہہ دیا
گفتنی نا گفتنی سب کچھ غزل میں کہہ دیا
مظفر حنفی کو اردو غزل بہت حد تک راس آئی ہے۔ انہوں نے اپنے تمام قلبی واردات کو غزل کی صورت میں بیاں کیا ہے۔ جس میں وہ بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ کہتے ہیں :
ہم کو جو کہنا تھاطرزِ بے بدل میں کہہ دیا
گفتنی ناگفتنی سب کچھ غزل میں کہہ دیا
’’چنیدہ ‘‘ مظفر حنفی کا ایک شعری مجموعہ ہے جو ٢٠١٥ میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے۔ یہ ایک ضخیم شعری مجموعہ ہے۔ جس میں تین سو سے زیادہ غزلیں موجود ہیں۔ مظفر حنفی ایک منفرد اور توانا شعری آواز ہے۔ انہوں نے غزل میں اگر چہ روایتی موضوعات میں ہی اپنی طبع ًآزمائی کی ہے مگر انہیں موضوعات کو کچھ اس طرح سے برتا ہے کہ روایت اور جدیدیت ایک جگہ سما گئے ہیں۔ مظفر حنفی کسی بھی تخیل کو اپنے منفرد لفظی پیراہن میں کچھ یوں سجا لیتے ہیں کہ تخیل کسی خاص پیکر میں قاری کی آنکھوں میں سمانے لگتا ہے۔ ان کے یہاں لفظ سازی میں جن چیزوں کی معاونت زیر نظر رہتی ہے۔ ان میں خاص طور پر تراکیب کا بہت حد تک عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ جن کی رو سے کسی بھی جذبے اور خیال کو اظہار کرنے میں نہ صرف کسی بھی قسم کی دشواری کاسامنا نہ کرنا پڑتا ہے بلکہ لفظیات خیال کے تابع نظر آتے ہیں جو کسی بھی تخلیق کار کی کامیابی کا ضامن بھی ہے۔ عام طور پر ہلکی تراکیب کا اظہار خیال کر کے اسالیب کو برتنے میں ممدو ثابت ہوتا ہے لیکن جب پیچیدہ تراکیب بھی اپناعمل دخل چھوڑنا شروع کرتے ہیں تو غزل بہت تابدار بن جاتی ہے اور مظفر حنفی کو اس چیز میں یدطولیٰ حاصل ہے۔
آئی اے رچرڈس کہتے ہیں :’’ شاعر آدمی سے زیادہ تیزی ‘‘ (Stimulation) کا حامل ہوتا ہے اور اپنی آرزوؤں کو بہتر ترتیب و تنظیم میں لانے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ وہ اپنے تجربے کو مربوط کر سکتا ہے اور اس طرح ایک توازن قائم کر سکتا ہے ۔ادب و فن کی جگہ کوئی اور چیز نہیں لے سکتی، کیونکہ ان سے جو تجربے سامنے آتے ہیں وہ کہیں اور نہیں مل سکتے ۔‘‘(ارسطو سے ایلیٹ تک ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ص نمبر 101,102ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، سنہ اشاعت 2004.)
یہاں پہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ دکھائی دیتا ہے کہ شاعر اپنی ناتمام آرزوؤں کو کسی ترتیب میں یوں مربوط کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔
صحرا میں برگ و بار نہ آئے نظر کہیں
وہ راستہ ہے جس میں نہیں ہے شجر کہیں
اس شاعری کا تعلق زمانے سے ہے کیونکہ زمانے کے سادے ہوئے تیر و نشتر، جبر و زیادتیاں، قہر و زہر، غم و الم اور سزا و جزا کی تمام تر کیفیتیں اس کلام میں تہہ در تہہ موجود ہیں جن سے اس دور کے فرد کی زندگی کا پتہ لگانا اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ زندگی ۔کیونکہ ادب کا زمانے سے بھی رشتہ ہوتاہے اور زندگی سے بھی۔ اس بارے میں ڈاکٹر وسیم بیگم اپنے خیالات کا کچھ اس طرح سے اظہار کرتی ہے:’’ ادب چونکہ ایک تخلیقی عمل ہے، اس لئے ایک فن پارہ اپنی جگہ پر ایک آزاد اور مستقل نقش کی حیثیت بھی اختیار کر لیتا ہے ۔ ہر تخلیق پارہ اپنی جگہ ایک مستقل قدر بھی ہے ۔اس لئےکہ وہ اپنا نمونہ آپ ہے اور چونکہ فن کا رشتہ زندگی کے تقاضوں اور تجربوں سے بھی ہوتا ہے اور اس میں تجزیے بھی شامل رہتے ہیں۔ اس کو ہم ذہن، زمانہ،زمین کے تعلق سے الگ بھی نہیں کر سکتے ۔ زمانے کی روح اس میں موجود رہتی ہے ۔ تاج محل ہو یا لال قلعہ، تعلق آباد ہو یا قیصر چہل ستون اس کا تعلق ایک دور کی زندگی سے بھی ہے۔ ان سچائیوں سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔‘‘(آزادی کے بعد اردو غزل ۔ ڈاکٹر وسیم بیگم، ص نمبر 191 ۔ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سنہ اشاعت 2009)۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کی اردو غزل میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بو باس رچی بسی ہوئی ہے۔ جس سے یہ اپنی ثقافت و کلچر کے فروغ میں بھی نمایاں رول ادا کر رہی ہے۔ دراصل کلاسیکی غزل گو اور آج کے غزل گو اگر چہ دونوں اپنی اپنی کہہ رہے ہیں مگر اس میں تبدیلی پھر بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ کیونکہ ایک میلان کے زور پکڑنے سے اگر چہ پرانا میلان بدل تو نہیں رہا ہے مگر اپنی تبدیلی کے آثار ضرور دکھائی دیتا ہے۔ آل احمد سرور رقمطراز ہیں :’’ قدرتی طور پر ادب میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ ایک میلان زور پکڑتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے عروج کو پہنچتا ہے پھر اس کا ردعمل شروع ہوتا ہے اور دوسرا میلان سامنے آتا ہے ۔ یہ گویا ادب کا قانون ہے کہ جو نئی رد آتی ہے وہ صرف پچھلی رد کی بازگشت نہیں ہوتی بلکہ اور نئی چیزیں لے آتی ہے ۔‘‘( آل احمد سرور ۔ ایوان اردو، اپریل ١٩٩٥ ص ٨ )۔ مظفر حنفی کی شاعری میں جو بدلاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر چہ ان کے یہاں بھی موضوعات وہی ہیں پر کہنے کا انداز نرالا ہے اور یہ انفراد انہوں نے اسی بدلاؤ کے زیر اثر قبول کیا ہے۔
ہم کو محفوظ کناروں سے نہ دینا آواز
بادبانوں سے ابھی باد صبا لپٹی ہے
مظفر حنفی اس تلخ زندگی اور اس کی ناکامی کی وجہ سے سکون قلب کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگے ہیں ۔ کبھی اس کے اظہار کی شکل تلاشتے رہے تو کبھی اس کے مداوے کی خاطر اظہار غم کرنے لگے ہیں۔ ان کے استعمال کردہ استعارات و تشبیہات انہیں اپنی بات کی ترسیل کرنے میں ممدو ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک جگہ رچرڈس لکھتے ہیں :’’ شاعری کو زندگی کے لیے ضروری سمجھتا ہوں،کیونکہ سائنس ہمیں وہ چیز نہیں دے سکتی جو شاعری ہمیں دے سکتی ہے۔ سائنس زندگی کو کتنا ہی گھیر لے مگر پھر بھی جو باقی رہے گا وہ صرف ادب کے دایرے میں آئے گا۔اسی لئے ادب کو دوام حاصل ہے ۔‘‘(ارسطو سے ایلیٹ تک ۔ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ص نمبر ١٠٢ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ سنہ اشاعت ٢٠٠٤)
مظفر حنفی کے کلام میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اگر چہ ایک طرف اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں، دوم یہ کہ وہ زمانی و مکانی حدود کی بھی لا مکانی سے بھی تجاوز کر رہے ہیں۔ ان میں اپنے اظہار کی صلابت اور جذبات کا وفور بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے کلام میں بزدلی سے غم کو سہنے کی تحریک اور اس کا مادہ بہ آسانی دستیاب نہیں ہے بلکہ انہیں کس سلیقے سے صبرو ثبات کے ساتھ جھیلا جائے اور ان سے نکلنے کا مادہ اور حوصلہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ غم کسی فردِ واحد کے غم نہیں ہیں بلکہ کلہم انسانیت کے غم ہیں جنہیں ایک بوجھ کی صورت میں نہیں بلکہ ایک جذبے سے قبول کرکے ان سے نبرد آزما ہونے کی دلیل بھی پیش کرکے ان کے مداوے کی بات کہی گئی ہے۔
بدن کے داغ چھپے تھے غبار وحشت میں
یہ سر پہ آئے تو عمامہ ہونے والا ہے
مظفر حنفی کے یہاں غزل کے موضوعات میں بو قلمونی نظر نہیں آتی ہے ۔وہ بڑے فن کار کی طرح اپنے دل کےمحسوسات اور جذبات کو صفحہُ قرطاس پر اتارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہیں اپنے طریق ِاظہار میں کبھی بھی لفظیاتی سطح پر دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ انہیں کبھی بھی اظہار کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ نت نئے طریقوں سے انہوں نے اپنے اظہار کی راہوں میں جذبات کے دریا بہا دئے ہیں۔ان کے اظہار میں اختصار خود بخوداس طرح پھیل جاتا ہے جیسے کوئی تفصیل۔پر ایسا بھی اختصار نہیں ہے جو کہ مطلب کو خبط کر دے۔جب کہ صحیح اختصار مطلب کو اور زیادہ مناسب مواقعے دستیاب کر دیتا ہےاور طوالت بے سبب بات کو کھینچ کر اس میں نثری عنصر شامل کر لیتی ہے۔ مظفر حنفی اردو غزل کی ایک توانا شعری آواز ہے انہوں نے بوجھل تخیل کو بھی اپنے صلابت اظہار سے معنی کا لبادہ اوڑھ کے اسے اور بھی بامعنی بنا دیا ہے۔جس سے ان کے شعری مفاہیم میں معنی کی نئی تعبیریں از خود وا ہوئیں ہیںجو کہ ان کی کامیابی کا راز عیاں کرتی ہیں ۔
[email protected]