رپورتاژ
محمد اویس ملک
جموں و کشمیر کے ایک معروف و ممتاز شاعر مظفر ایرج کا غیر مطبوعہ کلام منصہ شہود پر آیا ہے۔ یہ مجموعہ ’’کہی ان کہی‘‘ کے نام سے ایرج کی رحلت کے بعد ایک اُردو دوست وحشی سعید اور مدیر سہ ماہی’’ تحریکِ ادب‘‘ ڈاکٹر جاوید انورکی مشترکہ مساعی کی وجہ سے سامنے آیا۔ اس سے پہلے ایرج کے کئی شعری مجموعہ جات منظرِعام پر آئے ہیں جن میں ’’ابجد‘‘، ’’انکسار‘‘ ، ’’ثبات‘‘ ، ’’دلِ کتاب‘‘ ، ’’ہوا دشت دیار‘‘ ،’’ سخنِ آئینہ‘‘ شامل ہیں۔مرحوم نے غزل کے میدان میں قدم تب رکھا جب کشمیر میں رفیق رازؔ، ایاز رسول نازکیؔ، جاوید آزر،اقبال فہیم جیسی قدآور شخصیتیں موجود تھیں۔ان اشخاص کے دوش بہ دوش غزلیں کہنا اور اپنا انفراد قائم کرنا مرحوم کا ہی اختصاص ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں ان کی غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔اس کتاب میں غزلوں کی تعداد ’’۳۳‘‘ ہے۔غزل کا فن رمز و ایما کا فن ہے ،اشاروں اور کنایوں کا فن ہے یہاں باریک سے باریک بات کو بھی دو مصرعوں میں بیان کرنا ہوتا ہے اور یہی اس صنف کا کمالِ فن بھی ہے۔موصوف کی غزلوں کی اگر بات کریں تو ان میں رمز و ایما کا فن واضح اور نمایاں ہے۔جہاں ان کی غزلوں کا اسلوب سادہ ہے تو وہیں روایتی استعارات ، تشبیہات اور تلمیحات کا استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی غزلوں میں سلاست اور روانی بھی ہے۔اس ضمن میں چند اشعار ؎
دِل آسودہ کو ورافتگی ہے
مگر میرا چلن ہی بے خودی ہے
میں دیوانہ کہوںکیوں کر کہ اس میں
لگن ہے ،شوق ہے، شائستگی ہے
معمہ ہے تری بے التفاتی
یہ حسن ِ طن ہے یا جادوگری ہے
موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک غزل میں حضرتِ امامِ حسینؑ سے عقیدت کا اظہارملتا ہے جبکہ تین غزلوں میں حضورِ اقدسؐ کی شان کو بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ انسان دوستی،دنیا کی بے ثباتی،عرفانِ خداوندی،ذات سے کائنات کے معاملات جیسے موضوعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔علامہ اقبال کی طرح ان کے ہاں بھی وصل سے زیادہ ہجر کو اہمیت حاصل ہے کہتے ہیں ؎
اپنی اپنی دعا کا ثمر ہے اپنی اپنی قسمت ہے
تم کو مبارک وسل کی کھیتی ہجر میں میری دولت ہے
وہیں اگر ان کے قطعات کی بات کریں تو یہاں بھی موضوع کی یکسانیت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔دراصل قطعہ اس مختصر سی نظم کو کہتے ہیں جس میں اشعار کی تعداد متعین نہیں ہوتی بلکہ موضوع کے اعتبار سے تسلسل قائم ہوتا ہے ہاں عام طور پر اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں جن کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں ہم قافیہ الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔موصوف کے قطعات کی اگر بات کریں تو ان میں مقامی رنگ جھلکتا ہے جس کو ’’کشمیر رنگ‘‘ سے منسوب کیا گیا ہے۔کشمیر کے حالات و واقعات کا بیان نہ صرف ان کی غزلوں بلکہ قطعات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان حالات کو پڑھتے وقت نہ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی تصویر نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔قطعہ دیکھیے ؎
سینۂ چاکانِ وطن سوئے وطن چلتے ہیں
لو بلاتے ہمیں سروسمن چلتے ہیں
شہر کے در ہے مکفل ہمیں الجھن کیسی
باہیں پھیلائے سبدارورسن چلتے ہیں
اردو شعرانے زندگی کے جس تصور کو بیان کیا ہے اس میں ایک نمایاں تصور زندگی کی بے ثباتی اور اس کا ختم ہونا ہے۔ایرج مرحوم کے ہاں بھی ہمیں زندگی کا یہی تصور دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک قطعہ اور غزل کے چند شعر اس ضمن میں پیش کرتا ہوں ؎
زندگی ہے آنی جانی حضور
دوہی مصرعوںکی ہے کہانی حضور
میرا در پہ میرا عدو ہی نہیں
آپ کی مہر بانی ہے حضور
غزل سے چند شعر ؎
زندگی نقشِ آب ہے لوگو
بلبلہ ہے سراب ہے لوگو
اونچے اونچے مکان خالی گھر
سب کا خانہ خراب ہے لوگو
مختصرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایرجؔ نے روایتی غزل کی پاسداری کرتے ہوئے وہ اسلوب اختیار کیا ہے جہاں وہ سادگی میں پرکاری کا جلوہ کھاتے ہیں۔موضوع کے اعتبار سے دیکھیں تو روایتی موضوعات ہونے کے باوجود ان میں ندرت پائی جاتی ہے جو کہ قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
(مبصرشعبۂ اُردو، جامعہ کشمیر، سرینگر سے منسلک ہیں)