’’ لڑکے کی تنخواہ محض بیس ہزار ہے۔گھر ذاتی سہی لیکن میں اتنی تنخواہ میں گزارہ نہیں کر سکتی۔ بعد میں پھر بھی خود ہی کمانا ہے تو ابھی کماتی بری ہوں؟‘‘وہ سپاٹ لہجے میں کہہ رہی تھی۔
ام سمیرہ سخت پریشان تھیں۔یہ رشتہ بھی دوسرے بیسویں رشتوں کی طرح مسترد ہونے کو تھا۔کہیں سمیرہ مسترد کر دی جاتی تھی اور کہیں سمیرہ مسترد کر دیتی تھی۔عمر 28 ،29 کے قریب، خوش شکل لیکن قد واجبی تھا۔تعلیم ماسٹرز ، پرائیویٹ سکول میں جاب کر رہی تھی۔
’’پڑھا لکھا،خوش شکل ،امیر لڑکا۔۔۔‘‘بس یہی اس کی ڈیمانڈ تھی۔ایک جملے میں پوری ہوتی ہوئی تو دوسری جانب ’’پڑھی لکھی،اونچی لمبی خوب صورت ‘‘ لڑکی کی خواہش۔لڑکا بھی کامل چاہیے اور لڑکی بھی!!
’’دعا کیجیے گا!! لڑکے والوں نے آنا ہے‘‘اُم ماریہ فون بند کرتے ہوئے آہستگی سے بولیں۔دل میں سو خدشات۔نہ جانے لڑکا کیسا ہے؟؟خوب صورت بھی ہے یا۔۔۔کاروبار،جاب ٹھیک ٹھاک ہے یا سیٹل کرنا پڑے گا؟ماریہ اس بات کو سخت ناپسند کرتی تھی کہ ویل سیٹلڈ فیملی داماد کو سیٹل کرے۔ماریہ اعلیٰ تعلیم یافتہ،خوبصورت،مناسب قدوقامت کی باپردہ لڑکی تھی۔18 سال کی عمر سے رشتہ دیکھتے عمر 28 سال ہونے کو تھی۔ماریہ کی ڈیمانڈ’’خوب صورت،پڑھا لکھا،ویل سیٹلڈ لڑکا‘‘ تھا جب کہ اس کی والدہ برادری،چھوٹی فیملی اور قرب قریب کا اضافہ کر رہی تھیں۔لڑکے والے لڑکی پسند کر جاتے مگر لڑکے کی فیملی کبھی بڑی ہوتی تو کبھی لڑکا خوبصورت نہیں تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتے مسترد ہو جاتے!!
اُم ماریہ سخت پریشان تھیں۔نہ جانے مطلوبہ رشتہ کب آئے گا؟؟؟ایک فکر،ایک سوچ ذہن کو ریزہ ریزہ کر دیتی!!
اُم سمیرہ اور ام ماریہ کی باتیں سن کر ذہن الجھ سا گیا ، سوچوں کی پرواز نے ایک اور سفر شروع کر دیا۔دیورانی جھٹانی کے رشے سے جڑی اُم اسد کا ایک اکلوتا بھائی اور اُم فرحان کی چار بہنیں غیر شادی شدہ تھیں۔30سالہ عبید کی وہی ایک خواہش’’خوبصورت،تعلیم یافتہ،اونچی لمبی لڑکی‘‘۔سیدوں میں ویسے بھی غیر سیدوں میں رشتے بہت معیوب سمجھے جاتے ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ عبید کی بڑی بہن مصر تھی کہ سید فیملی سے ہٹ کر رشتہ نہیں ہوگا۔عبید کی رائے تھی کہ اگر سید فیملی ہی ڈھونڈنی ہے تو میں صرف فاطمی سیدوں میں رشتہ کرؤں گا۔عبید فی الحال بے روزگار تھا۔نوکری اور رشتے دونوں کی تلاش جاری تھی۔بیسیوں رشتے دیکھے مگر کوئی پسند نہیں آتا۔اُم فرحان کی چاروں بہنیں خوبصورت،پڑھی لکھی،فاطمی سید فیملی۔وہی خواہش’’خوب صورت،پڑھا لکھا،امیر کبیر اور قرب قریب۔دو بہنیں 26،25 کی ہو چلی تھیں۔ایک بہن 30،31 اور ایک ابھی چھوٹی تھی۔رشتے آمنے سامنے تھے۔کئی دفعہ اشارے کنایوں میں بات بھی ہوئی مگر اُم اسد جانتی تھیں کہ عبید بے روزگارہے جب کہ ام فرحان کی فیملی امیر کبیر لڑکا چاہ رہی ہے۔بات ہو بھی جائے،نبھے گی کیسے؟؟سو دونوں طرف تلاش جاری تھی۔لڑکے والے پسند کر جاتے مگر دور دراز،لڑکا خوب صورت نہیں ہے،امیر نہیں ہے انکار کی وجوہات بن جاتیں۔عبید کی عمر 35 سے اوپر ہونے لگی۔۔ادھر اُم اسد نے اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ فیملی میں طے کیا تو سب اعتراض کرنے لگے کہ بھائی کی تو ابھی تک شادی کی نہیں۔ادھر بھائی کے معیار کا رشتہ کہاں تلاشا جائے؟اول تو کوئی لڑکی پسند ہی نہ آتی اور جہاں رشتہ پسند آتا وہاں بھی امیر کبیر کے مطالبات ہوتے۔دن گزرتے چلے گئے۔
ایک دن اُم اسد کے بہنوئی کے توسط سے ایک رشتہ دیکھنے گئے تو بہنوئی نے از خود بات طے کر دی۔لڑکی فاطمی سید،خوش شکل تھی گرچہ قد چھ پونے چھ فٹ کے مقابلے میں 5 فٹ ہی تھا،تعلیم بھی بہت زیادہ نہ تھی۔کچھ عرصے کے بعد شادی ہو گئی،شادی کے کچھ ماہ بعد جاب بھی مل گئی۔آج عبید کے تین بیٹے ہیں،خوش و خرم فیملی۔ایک چیز کم ملی مگر اجر اچھا مل گیا۔اُم فرحان کی فیملی مسلسل تلاش جاری رکھےتھی۔سب سے چھوٹی بہن اور ایک بڑی بہن کی شادی ہو گئی۔اب 35،36 سالہ اور 28،29 سالہ دوبہنوں کے رشتے ڈھونڈے جا رہے تھے۔والد کا کہنا تھا کہ غیر سیدوں میں رشتہ دینا،کافروں میں رشتہ دینے کے برابر ہے۔لہٰذا سب سے بڑا مسئلہ برادری کا تھا۔پھر قرب قریب۔ہر ایک اپنی پسند کا خیال رکھے ہوئے!!مگر مکمل کامل کسے ملتا؟؟کامل کون ہوا ہے؟؟لڑکی کی عمر بھی تو اب 30 سے اوپر جا رہی تھی۔آخر ابو فرحان کی مسلسل کوشش سے رشتے ڈھونڈلیے گئے۔امیر،پڑھے لکھے مگر فیملی غیر سید تھی۔اُم فرحان کے والد سخت ناراض تھے مگر اب اُم فرحان کی اپنی بیٹی بھی بڑی ہو رہی تھی،انہیں اس کا بھی خیال تھا۔جلد ہی دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی۔چھوٹی بہن تو اپنے گھر میں خوش تھی مگر بڑی بہن کا مزاج نہ ملا۔سال بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جڑواں بیٹے دیے اور اسی دن خاوند نے طلاق کے کاغذ بھیج دیے!!لڑکی نے صبر و شکر سے بچوں کے سہارے زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔اب وہ اکیلی جان ہے اور 2 ننھے بچے۔اکلوتےبھائی اور والدین کے سہارے۔۔لیکن آخر کب تلک؟؟؟یہ مطلوبہ رشتے۔۔آخر کب ملیں گے؟؟؟بیس بائیس برس سے رشتہ دیکھتے تیس بتیس کی عمر میں مجبوراً کسی کم پڑھے لکھے،غیر برادری،متوسط گھرانے میں رشتہ پہلے نہیں دیا جاسکتا تھا؟؟12،16 سال کی ذہنی اذیت کس کھاتے میں جائے؟
محترم والدین اور محترم اولاد!اتنے اونچے دروازے نہ رکھیں کہ لوگ کھٹکھٹاتے ہوئے ڈریں۔آج اتنے اونچے دروازے رکھ کر لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے سے روکا تو کل آپ کو اپنی ضروریات کے لیے خود نیچے اترنا پڑے گا۔یاد رکھیےکون کامل ہوتا ہے؟؟؟کون کب کامل ہوا ہے؟؟؟