مسعود محبوب خان
کُتب بینی (Book Reading) ایک ایسی سرگرمی ہے جو انسان کی ذہنی، فکری، علمی اور اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب کہ جدید دور میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے زندگی کو آسان اور معلومات تک رسائی کو فوری بنا دیا ہے، لیکن اس نے ہمیں ان روایات سے دور بھی کر دیا ہے جو ہماری تعلیم و تربیت کی بنیاد تھیں۔
کتابیں پڑھنے کا کلچر ایک زمانے میں بہت مضبوط تھا اور اس کی بدولت معاشرے میں مکالمہ، بحث مباحثہ اور تنقید برائے تعمیر جیسے عوامل پروان چڑھتے تھے۔ یہ عوامل ہمارے معاشرتی اور فکری ترقی کے لیے ناگزیر تھے۔ گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں پر اثر ڈالا ہے۔ بلاشبہ سوشل میڈیا نے کچھ اہم سماجی مسائل کو فوری طور پر اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اس نے نوجوان نسل کو کتابوں، تحقیق، تخلیق اور تربیتی نشستوں سے دور کر دیا ہے۔
کُتب بینی سے حاصل ہونے والا سکون اور تاثیر ناقابلِ بیان ہے۔ کتابیں انسان کو خود سے اور اپنے وجود سے آشنا کرتی ہیں۔ جب ہم ایک کتاب پڑھتے ہیں، تو ہم ایک مختلف دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں خیالات کی گہرائی اور معلومات کی وسعت ہمیں متاثر کرتی ہے۔
انٹرنیٹ کے برعکس، کتابیں ایک مستند ذریعہ ہیں جو انسانی تجربات، علم اور دانائی کا خزانہ ہوتی ہیں۔ کتابیں ہمیں غور و فکر، تحمل اور شعور دیتی ہیں، جو کہ سوشل میڈیا کے فوری اور سطحی اثرات کے برعکس ہیں۔لہٰذا، اگرچہ سوشل میڈیا کی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر ہمیں کُتب بینی کی اہمیت اور ضرورت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کتابیں ہمارے اندر وہ خوبیاں پیدا کرتی ہیں جو ہمیں ایک بہتر انسان اور ایک بہترین معاشرہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
مطالعہ کا ذوق: ایک نسل سے دوسری نسل تک
اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اہل علم اور جاہل برابر نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر علم کی فضیلت اور اس کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ علم وہ عظیم نعمت ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔دین اسلام کے ابتدائی دور میں بھی علم کی اہمیت اور فضیلت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کی پہلی وحی جو ’’اقراء‘‘ (پڑھ) کے حکم کے ساتھ نازل ہوئی، وہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں علم حاصل کرنے کی کتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔اسی طرح جنگِ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کی شرط کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام نے تعلیم اور علم کی ترویج کو کتنی اہمیت دی ہے۔ یہ اقدامات اسلام کے ابتدائی دور میں علم کی اہمیت اور اسے عام کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی عکاسی کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات میں مطالعہ اور علم کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مطالعہ کے ذریعے انسان علم حاصل کرتا ہے اور اپنی بصیرت میں اضافہ کرتا ہے۔ علم اور مطالعہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ان کی بدولت انسان دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔
علم کی جستجو اور اس کی ترویج ہی وہ راستہ ہے جو انسان کو ترقی، کامیابی اور بلند مقام تک پہنچاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں بھی علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم بھی اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک معزز و محترم بن سکیں۔کتابیں ہمیشہ سے علم کے فروغ کا بہترین ذریعہ رہی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام پر جو وحی نازل فرمائی، وہ کتابوں اور صحائف کی صورت میں محفوظ کی گئیں، جیسے قرآن مجید، تورات، انجیل اور زبور۔ یہ مقدس کتابیں دراصل نقلِ لوحِ محفوظ ہیں ،جو اللّٰہ کے پیغام کو انسانوں تک پہنچاتی ہیں۔
کتابیں علم کی حفاظت اور اس کے انتقال کا اہم ذریعہ ہیں۔ وہ مختلف علوم و فنون کو نسل در نسل منتقل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ جدید دور میں بھی کتابیں علمی ورثے کی حفاظت اور ترویج کے لیے ناگزیر ہیں۔ مطبوعہ کتابیں، ڈیجیٹل کتابیںاور آن لائن وسائل نے علم تک رسائی کو مزید آسان بنا دیا ہے۔
کتابوں کے ذریعے علم کا فروغ، انسانوں کی فکری، علمی اور اخلاقی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ کتابیں نہ صرف مذہبی تعلیمات کو محفوظ کرتی ہیں بلکہ سائنسی، ادبی، تاریخی اور دیگر مختلف شعبوں کے علوم کو بھی دستاویزی شکل میں محفوظ کرتی ہیں۔ اس طرح کتابیں ہر دور میں علم کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنی ہیں اور بنی رہیں گی۔لہٰذا ہمیں بھی کتابوں کے مطالعے کو اپنی زندگی کا حصّہ بنانا چاہیے اور علم کے فروغ میں حصّہ لینا چاہیے تاکہ ہم خود بھی ترقی کر سکیں اور معاشرتی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں۔
علم دوست معاشرے کی ایک نمایاں نشانی یہ ہے کہ اس معاشرے کے افراد کتاب کو اپنا بہترین دوست بناتے ہیں۔ وہ اپنے روزمرّہ کے کاموں سے فارغ ہو کر فضول گوئیوں اور بے مقصد سرگرمیوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مطالعہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس طرح کے معاشرے میں کُتب بینی کو ایک اہم اور قیمتی سرگرمی سمجھا جاتا ہے۔
علم دوست افراد کے گھروں میں اکثر ذاتی کُتب خانے موجود ہوتے ہیں جو ان کی علم سے محبت اور وابستگی کا ثبوت ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہوتی ہیں جو نہ صرف ان کے علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں بلکہ ان کی فکری اور شعوری سطح کو بھی بلند کرتی ہیں۔
علم دوست معاشرے میں کُتب بینی کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں جیسے کُتب میلے، لائبریریوں کا قیام اور کُتب بینی کی ترویج کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد۔ ان معاشروں میں بچّوں کو بھی ابتدائی عمر سے ہی کتابوں سے محبت کرنے اور مطالعہ کی عادت ڈالنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
علم دوست معاشرہ وہ ہے جہاں کے افراد علم کو حقیقی دولت سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی میں اس کی اہمیت کو پہچانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ علم کے ذریعے ہی ترقی، کامیابی اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس لئےوہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو علم کے حصول اور اس کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے معاشروں میں علمی ورثہ محفوظ رہتا ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔لیکن آج کے نوجوانوں میں یہ ذوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز نے ان کی توجہ کتابوں سے ہٹا دی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجیز معلومات کی فوری رسائی فراہم کرتی ہیں، مگر وہ گہرائی اور سکون فراہم نہیں کرتیں جو کتاب بینی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی علمی ترقی اور فکری نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کتاب بینی کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انہیں اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ اپنے فارغ وقت کا کچھ حصّہ کتابوں کے مطالعے میں صرف کریں۔ یہ نہ صرف ان کی علمی ترقی کا باعث بنے گا بلکہ انہیں ایک بہتر انسان بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
کُتب بینی کی اہمیت پر بہت سے عظیم مفکرین اور اہل علم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جن میں علامہ محمد اقبالؒ اور دیگر شامل ہیں۔ ان کے ارشادات اور اقتباسات کتابوں کی قدر و منزلت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کی باتیں ہمارے لئے سبق آموز ہیں۔ جب انہوں نے اسلامی ورثہ کو مغرب میں مقید دیکھا تو ان کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اقبال کے یہ اشعار اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ جو علوم و فنون ہمارے اسلاف نے ترتیب دیے تھے، وہ آج مغربی دنیا کے لئے علمی سرمایہ بن چکے ہیں، جب کہ ہم خود اپنے اس علمی ورثے سے بے خبر اور لاتعلق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترقی اور وقار دونوں ہم سے دور ہو چکے ہیں۔۔۔۔(جاری)۔۔۔۔۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]