مسعود محبوب خان
مطالعہ انسان کی ذہنی گرہوں کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے، جس سے انسان معاشرے کا کارآمد فرد بن جاتا ہے۔ اچھی کتابیں انسان کو کسی بھی نقصان کے بغیر علم و دانش کی دولت فراہم کرتی ہیں۔
کتاب بینی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایوب بن شجاع کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے غلام کو عبد اللّٰہ اعرابی کے پاس بلانے کے لئے بھیجا۔ غلام نے واپس آ کر بتایا کہ عبد اللّٰہ اعرابی کتابوں کے مطالعے میں مصروف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھے ہیں، حالانکہ وہاں صرف کتابیں تھیں۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کتابیں بہترین ساتھی اور بہترین مجلس فراہم کرتی ہیں۔
برطانوی تاریخ دان تھومس میکالے کا ایک قول بھی کُتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے:’’میں کتاب پڑھنا اس لیے پسند کرتا ہوں کیونکہ کتاب پڑھنے سے مردوں سے بات کی جاسکتی ہے اور غیر حقیقی دنیا میں زندہ رہا جاسکتا ہے۔‘‘کُتب بینی انسان کو مرحوم مصنفین کے خیالات اور تجربات سے واقفیت کا موقع فراہم کرتی ہے، جس سے وہ اپنے علم اور فہم میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کتابیں نہ صرف علم کا ذخیرہ ہیں بلکہ ماضی کی عظیم شخصیات سے مکالمہ کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ان تمام ارشادات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کتابیں ہمارے علمی اور فکری ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو کتاب بینی کی طرف راغب کرنے اور انہیں اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینی چاہئے تاکہ وہ معاشرے کا کارآمد اور باشعور فرد بن سکیں۔
کُتب بینی کی اہمیت پر مختلف مشہور شخصیات کی آراء اور ان کے نظریات ہمارے لیے بہت ہی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ، رے بریڈ بیوری، اور جارج مارٹن کے خیالات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مطالعہ کُتب انسانی ذہن کو طاقتور اور معاشرتی تبدیلی کا ذریعہ بناتا ہے۔نپولین بونا پارٹ کے مطابق:’’آپ مجھے قارئین کا خاندان دکھائیں اور میں آپ کو ایسے لوگ دکھاؤں گا جو دنیا تبدیل کرسکتے ہیں۔‘‘یہ بیان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، ان کے خیالات اور ذہنی صلاحیتیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ وہ دنیا کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
امریکی مصنف رے بریڈ بیوری کا کہنا ہے:’’کسی ثقافت کو ختم کرنے کے لیے آپ کو کتابیں جلانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کتاب پڑھنے والوں کو کتاب پڑھنے سے روک دیں۔‘‘یہ قول اس بات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ ایک ثقافت کی بقاء اور ترقی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔امریکی ناول نگار جارج مارٹن کتابوں کے مطالعے کے بارے میں لکھتے ہیں:’’جو شخص کتابیں پڑھتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے جب کہ نہ پڑھنے والا شخص صرف ایک زندگی جیتا ہے۔‘‘یہ بیان کتابوں کے مطالعے کی اہمیت اور اس سے ملنے والے مختلف تجربات اور زندگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
نوجوانوں کی کُتب بینی سے دوری کے اسباب :۔ کتابوں کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی کئی نوجوان کُتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ کتابیں خریدنا عام انسان کی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ کتابوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے مطالعہ کی عادت متاثر ہو رہی ہے۔موبائل فونز، کمپیوٹرز اور سوشل میڈیا کی بدولت نوجوانوں کی توجہ کُتب کی بجائے ڈیجیٹل مواد کی طرف زیادہ ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے مقصد اور زیادہ استعمال آج کی نوجوان نسل کو کتابوں سے دور کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا میں مشغولیت نے کتابوں کی طرف رغبت کم کر دی ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور انتظامیہ کا کُتب بینی پر زور نہ دینا بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اساتذہ کی خود کتابوں سے کم رغبت بھی طلبہ کو کُتب خانوں سے دور رکھتی ہے۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں نصابی کتابوں کی سختی اور رٹنے پر زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلباء میں کُتب بینی کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔گھروں میں کتابوں، رسالوں، اور اخباروں کے مطالعے کا رواج نہ ہونا بھی نوجوانوں پر برا اثر ڈالتا ہے۔ کچھ نوجوانوں میں بچپن سے ہی کُتب بینی کا شوق نہیں پیدا ہو پاتا جس کی وجہ سے بڑے ہو کر بھی ان میں یہ عادت نہیں ہوتی۔ جب والدین خود مطالعہ نہیں کرتے تو بچے بھی اس عادت کو نہیں اپناتے۔ بعض اوقات معاشرتی اور خاندانی دباؤ کے باعث نوجوانوں پر تعلیمی یا پیشہ ورانہ کامیابی حاصل کرنے کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کُتب بینی کے لیے وقت نہیں بچتا۔ بہت سے علاقوں میں لائبریریوں کی کمی ہے اور جہاں ہیں وہاں بھی جدید کُتب کا فقدان ہوتا ہے۔ ٹی وی، فلمیں، ویڈیو گیمز اور دیگر تفریحی ذرائع نوجوانوں کی دلچسپی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ان تمام اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے، کُتب بینی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ جدید اور دلچسپ مواد فراہم کرنا، لائبریریوں کی حالت بہتر بنانا، اور ڈیجیٹل کُتب بینی کی سہولتیں فراہم کرنا وغیرہ۔
کیا کتاب کا کوئی نعم البدل ہے؟
کتاب کی اہمیت اور اس کے نعم البدل کے بارے میں مختلف رائے موجود ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب کا کوئی حقیقی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ذرائع نے معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، مگر ان کے کچھ نقصانات بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انٹرنیٹ بمقابلہ کتاب : انٹرنیٹ پر معلومات کی دستیابی فوری ہے لیکن ان معلومات کی درستگی اور صداقت کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ بہت ساری ویب سائٹس پر غیر مستند اور غلط معلومات بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، کتابیں مختلف مراحل سے گزر کر شائع ہوتی ہیں اور مصنف کی جانب سے ان کی تصدیق اور تحقیق کی جاتی ہے۔
تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کاغذ پر لکھی گئی معلومات کو انسانی ذہن زیادہ بہتر طریقے سے محفوظ رکھتا ہے۔ صفحات کا الٹنا اور کاغذ کی مہک انسان کی یادداشت اور یکسوئی کو بہتر کرتی ہے جب کہ اسکرین پر پڑھنے سے آنکھوں پر دباؤ زیادہ ہوتا ہے اور توجہ میں کمی آتی ہے۔اگرچہ ای۔بکس اور ڈیجیٹل لائبریری نے کتابوں تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کاغذ کی کتابوں کا نعم البدل ہیں۔ ای۔بکس کا مطالعہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا تجربہ کاغذ کی کتاب کے مقابلے میں مختلف ہوتا ہے۔
کتاب کا نعم البدل تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ جدید دور میں کتابیں اسکرین میں بند کر دی گئی ہیں اور انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن کتاب کا مطالعہ کرنے کا تجربہ اور اس کی افادیت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کی سنّت پر عمل کرکے اپنے معاشرے کو بہتر انداز میں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ علم و آگہی کے مرکز یعنی کتاب کو اپنا رفیق بنا کر ہم دنیائے علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر کئی اہم اور بیش بہا موتیوں کو اخذ کرسکتے ہیں۔(ختم شد)
(رابطہ۔09422724040)
[email protected]