وادیٔ کشمیر میں قرآنیات کے حوالے سے’’ قرآنِ کریم : قرآنی آیات اور احادیث نبوی ؐ کی روشنی میں‘‘ میں ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ یہ کتاب جس کو جدید اضافوں، نئی تدوین اور ترتیب کے ساتھ منظر عام پر لانے کی سعادت کشمیر کے نامور عالم دین اور سرکردہ مفتی شرع متین جناب مفتی ضیاء الحق صاحب ناظمی ،رُکن اساسی متحدہ مجلس علماء جموںوکشمیر کو حاصل ہوئی ہے۔اس کتاب کی ہفتہ عشرہ قبل تاریخی اسلامیہ ہائی اسکول بجبہاڑہ کشمیرکے ہال میں ایک پُروقار تقریب میں نامور ماہر اقبالیات جناب پروفیسر بشیر احمد نحوی کے ہمراہ راقم الحروف کے ہاتھوں رسم رونمائی انجام پائی ۔ تقریب میں اساتذہ ، طلبہ ، شائقین ِ قرآن خواص اور دانشوروں کی ایک کہکشاں موجود تھی ۔ ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل خوبصورت Getup کے ساتھ شعبہ نشر و اشاعت دارالافتاء والقضاء شریعت ِاسلامی بجبہاڑہ کشمیر کے اہتمام سے چھاپی گئی یہ کتاب دینی بصائر کے تعلق سے ایک انتہائی مفید معلوماتی اور علمی کاوش ہے ۔
کتا ب کے آغاز میں خود فاضل مرتب کا فکر انگیز پیش لفظ اور بطور تمہید و تعارف راقم الحروف کے تاثرات درج ہیں ۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا تعارف اور اس کی عظمت و بڑائی پر قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قرآن کریم ہر لحاظ سے تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا اور عدیم النظیر معجزہ ہے ، یہ بے شک قرآن کریم علمی معجزہ ہے ، فکری معجزہ ہے ، ہدایاتِ الہٰیہ کا معجزہ ہے اور انسانی عقل وفہم کی گتھیاں سلجھانے کا معجزہ ہے ۔ قرآن کریم کے اعجاز کے بے شمار پہلو ہیں اور یہ اتنے ہمہ جہت ہیں کہ کسی ایک پہلو پر بھی گفتگو کرنا حقیقت میں کسی فرد بشر کے بس کاروگ نہیں کیونکہ یہ کلام اللہ ہے جو مفاہیم اور معانیوں کاوہ بحر بیکراں ہے جس میں گم ہوکر بھی انسان کی پیاس ہل من مزید کی مسلسل پکار سے بڑھتی ہی جاتی ہے ۔ قرآن کریم کے اعجاز و ایجاز کے حوالے سے ہر دور میں ہمارے علمائے قرآن ، عاملین بالقرآن محققین اور اہل و فکر و دانش اپنے اپنے ظرف اور بساط کے مطابق اس کی تشریحات میں اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاقیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔بقول مرشدی مفکر اسلام علامہ سید ابوالحسن علی ندویؒ قرآن کا سب سے بڑا معجزہ اسلام ہے۔
قرآن کا دوسرا معجزہ اس کے وہ بے پایاں علوم و معارف ہیں جن میں سے ہر ایک مستقل بالذات معجزہ ہے ۔ انسانی علم جتنا ترقی کرے گااور اس کی آنکھوں سے فہم قرآن سے جتنے پردے اُٹھتے جائیں گے، کتاب اللہ کا جمال اس پر اتناآشکارا ہوتا جائے گا۔درحقیقت انسانی فہم کا ظرف تنگ ہے اور یہ قرآن کی وسعتوں اور پہنائیوںکا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے جو کچھ اس کے حصے میں آئے غنیمت ہے ۔ ارشاد باری ہے :ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا پھر پرنالے (بھرکر) اپنی مقدار کے موافق چلنے لگے ۔(الرعد)
قرآن کریم نے حقائق اور حکمت کی باتیں انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کردی ہیں ، اختصار بھی ایسا کہ بات تفصیلاً واضح ہوکر چمک دار ہیرے کی طرح اجالا بن کر سامنے آجاتی ہے ۔ بہر کیف زیر مطالعہ کتاب کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر جناب محمد یونس ٹاک صاحب نے قرآن کریم اور اسوئہ حسنہ ؐ پر مفصل روشنی ڈالی، جب کہ جناب پروفسیر بشیر احمد نحوی صاحب نے کلام اقبال کی روشنی میںپیغام ِقرآن، عظمت ِقرآن اور اُمت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی پر تفصیل سے اظہار خیال فرمایا ۔راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں قرآن کریم کے بے مثال اعجازی پہلوئوں اور اس کی شوکت و رفعت کو علمی اور عملی مثالوں سے نمایاں کرکے خاص طور پر یہ دو واقعات عرض کئے: پہلا واقعہ مصر کے مشہور عالم و مفسر علامہ علی طنطاوی جوہریؒ نے اپنی تفسیر ’’جواہر القرآن‘‘ میں بیان کیا ہے ، لکھتے ہیں: ’’ میں جرمنی میں تھا، ایک دن وہاں کے چند مستشرقین( یعنی عربی زبان اور اسلامی علوم سے دلچسپی رکھنے والے غیر مسلم )دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک ممتاز فاضل نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی عام مسلمانوں کی طرح قرآن کے بارے یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عربیت اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے؟میں نے کہا ہاں، میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ا س نے بڑی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم جیسا صاحب علم اور روشن خیال آدمی بھی ایسا عامیانہ خیال رکھتا ہوگا۔ میں نے کہا اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ یہ تو ایک علمی مسئلہ ہے اور ابھی اس کا امتحان ہو سکتا ہے ۔ میں ایک بات کہتا ہوں، آپ سب حضرات خوب غور وفکر کرکے اس کو فصیح و بلیغ عربی میں ادا کریں ۔ لیجئے وہ بات یہ ہے ’’ جہنم بے حد وسیع ہے‘‘ ان سب نے دیر تک غور و فکر کرکے چند جملے بنائے:ان جہنم لوسیعۃ۔ ان جہنم لفسیحۃ۔۔۔اور اس سے ملتے جلتے چند اور جملے میرے سامنے رکھ دئے۔ میں نے کہا اور محنت کر لیجئے اور جتنا جی چاہیں وقت لے لیجئے لیکن انہو ں نے کہا کہ ہم اپنی محنت اور غو رو فکر کو ختم کر چکے، اس کے بعد میں نے کہا کہ اب ذرا دیکھئے کہ قرآن مجید نے اسی مضمون کو کس طرح ادا کیا ہے ،ارشاد باری ہے:اور اس دن جب کہ ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی اور وہ کہے گی کیا اور کچھ بھی ہے؟
علامہ طنطاوی لکھتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے سورہ’’ ق‘‘ کی یہ آیت پڑھی، چونکہ وہ عربی داں اور سخن شناس تھے، اُچھل پڑے ، عش عش کر نے لگے، اپنی رانیں پیٹ پیٹ کر اقرار کیا کہ بے شک ہم عاجز رہے(بحوالہ دین و شریعت از حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ)
آپ نے محسوس کیا کہ جہنم کی وسعت کو قرآن کریم نے کس بلاغت اور ایجاز کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عربی زبان و ادب کے نامی گرامی ماہرین کی زبانیں اس کے سامنے گنگ ہو گئیں ۔ دوسرا واقعہ علامہ عنایت اللہ مشرقی کا لکھا ہوا ہے، کہتے ہیں : یہ۱۹۰۹ء کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھااور زور کی بارش ہو رہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس پر نظر پڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے۔ میں نے قریب ہوکر سلام کیا ۔انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: دو باتیں اول یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ۔ سر جیمز اپنی بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرئہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لئے جارہا ہے ، یہ کیا؟ میرے سوال پر پروفیسر جیمز لمحہ بھر کیلئے رُک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ آج شام کو چائے میرے ساتھ پیو۔ چنانچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، ٹھیک چار بجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں ۔ سر جیمز تمہارے منتظر ہیں۔ اندر گیا، ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب اپنے تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے تمہارا سوال کیا تھا اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر اجرامِ ِآسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستان کبریا و جبروت پر دہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگنا کیفیتیں عیاں تھیں ، اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی، فرمانے لگے عنایت اللہ خان ! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں’’ تو بہت بڑا ہے‘‘ تو میری ہستی کا ہر ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے ، مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے ، مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے ، کہو عنایت اللہ خان! تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں؟
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کیا ، میں نے کہا جناب والا! میں آپ کی روح افروز تفصیلات سے بے پناہ متاثر ہوا ہوں ، اس سلسلے میں قرآن پاک کی ایک آیت یاد آگئی اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔ فرمایا ضرور۔چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔ترجمہ:پہاڑوں میںخطے ہیں سفید اور سرخ اور طرح طرح کے رنگ کے اور کالے اور آدمیوں میں اور کیڑوں میں اور چوپایوں میں اسی طرح مختلف رنگ ہیں۔ اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں سے جو علم رکھتے ہیں۔( سورہ فاطر)
یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ، حیرت انگیز ، بہت عجیب ، یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمد ﷺ کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ۔ محمد ﷺ ناخواندہ تھے ،اُنہیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہوسکتی ، آپ ؐ کو یقینا اللہ تعالیٰ نے بتائی تھی، بہت خوب ، بہت خوب عجیب ، (بحوالہ نقوش شخصیات نمبر)
جہاں پہلا واقعہ قرآن کے عمومی اعجاز کے ساتھ لفظی اعجاز کو نہایت نمایاں طریقے پر بتاتا ہے ، وہاں دوسرا واقعہ اسی حقیقت کو معنوی پہلو سے ا ُجاگر کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کریم از اول تا آخر ایک معجز نما کتاب اللہ ہے ۔ آخر میں قارئین وشائقین کو یہ بات گوش گزار کر نا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کتاب کے فاضل مرتب قبلہ مفتی صاحب نے کتاب کی مفت اشاعت و طباعت اور تقسیم کی خاطر اپنے مخلص معاونین، مندوبین، شرکاء اور بجبہاڑہ کے اہل دل حضرات کا من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ کے فرمان رسول ﷺ کی روشنی میں ہدیہ تشکر ادا کیا ، اسی اظہار تشکر پر تقریب اختتام کو پہنچی۔ یہ کتاب طلبائے قرآن اور سنجیدہ وسلیم العقل قارئین کلام اللہ کے لئے مفید ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس علمی کاوش کو شرف ِ قبولیت عطاکرے۔ آمین۔