جس کا ڈر تھا ،بالآخر وہی ہوا۔کشمیر عظمیٰ گزشتہ کافی عرصہ سے مسلسل اپنے صفحہ اول اور ادارتی صفحہ پر شہر سرینگر سمیت وادی میں پینے کے پانی کے معیار پر خبریں اور ادارئے شائع کرتا رہا اور ارباب بست و کشاد پر یہ بار کرانے کی کوشش کی گئی جو پانی سپلائی کیاجارہا ہے ،وہ مکمل طور قابل استعمال نہیں ہے اور پینے کیلئے محفوظ نہیں ہےتاہم ہر بار محکمہ نے اپنی تاویلات پیش کرکے ہماری خبروں کو سرسری لیا اوراصلاح احوال کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جونہی گرمیاں بڑھیں تو شہرو گام میں ہسپتالوں میں اپنے مریضوںکا ہجوم امڈ آیا جنکا غلیظ پانی پینے کی وجہ سے پیٹ خراب ہوچکا تھا۔اب تو اس بات کی باضابطہ تصدیق ہوچکی ہے کہ سرینگر شہرکے لوگوں کو ناقابل استعمال پینے کے پانی کی فراہمی کی جارہی ہے۔سرینگر شہر میں 60فیصد علاقوں میں لوگوں کو پکھری بل واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔ حق اطلاعات قانون کے تحت محکمہ جل شکتی کی جانب سے فراہم کی گئی جانکاری میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔اس میں بتایا گیا ہے کہ سرینگر کے لوگوں کو جو پانی فراہم کیا جاتا ہے ، وہ پانی ناقابل استعمال ہے کیونکہ اس میں T.coliformاور E.coliبیکٹیریاموجود ہوتے ہیں۔محکمہ جل شکتی کی جانب سے پانی کیلئے اپنائے گئے قومی قوائد و ضوابط کے تحت پانی میں T.coliform اور E.coliبیکٹیریا موجود نہیں ہونے چاہئیں۔ محکمہ کی جانب سے فراہم کئے گئے ٹیسٹ رپورٹوں کے 27دستاویزات میں سے کسی بھی رپورٹ میں پانی کا E.coliچیک نہیں کیا گیا ہے جبکہ T.coliformصرف 4رپورٹوں میں نتائج منفی دکھائے گئے ہیں۔اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ پانی کے نمونوں میں T.coliformموجود نہیں تھا لیکن E.coliبیکٹیریا کیلئے کوئی بھی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔حالانکہ محکمہ جل شکتی کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ پانی سپلائی کرنے سے پہلے تین اقسام کے ٹیسٹ کریں جن میں فیزیکل ٹیسٹ، کیمیکل ٹیسٹ اور Microbail ٹیسٹ لازمی ہےلیکن سرینگر شہر کو سپلائی کئے جانے والے پانی میں کبھی بھی جراثیم اور بیکٹیریا کی موجودگی کی جانچ نہیں کی جاتی ہے۔
یہاں یہ بتانا لازمی ہے کہ E.coliاور T.coliformبیکٹیریا انسانوں اور جانوروں کے معدے میں ہوتا ہے ۔ انسانوں اور جانوروں کے فضلہ کے ساتھ نکلنے والے یہ بیکٹیریا اور جراثیم پانی کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ E.coliاور T.coliformبیکٹیریا کی پانی میں موجودگی سے لوگ مختلف بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں قے، دست، آنتوں کا انفکیشن اور پیٹ درد شامل ہیں۔ یہ بیکٹیریا ہیپاٹائٹس اے اور دیگر بیماریوں کیلئے بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
اس کے باوجود محکمہ آب رنی کہے گا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور کہیں کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ صدر ہسپتال سرینگر کے ایمر جنسی وارڈ کا ایک چکر یہ جاننے کیلئے کافی ہے کہ شہر میں پانی کا حال کیسا ہے اور لوگ مضر صحت پانی کے استعمال سے کس حد تک بیمار ہوچکے ہیں۔خود صدر ہسپتال کے ڈاکٹر مانتے ہیں کہ دست و قے کی بیماریوں کے ساتھ جو مریض ہسپتال آرہے ہیں ،وہ مضر صحت پانی کے پینے سے بیمار ہوچکے ہوتے ہیں لیکن محکمہ قطعی یہ حقیقت تسلیم نہیں کرے بلکہ اپنی الگ ہی دلیلیں پیش کرے گا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرے گا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیںہے بلکہ یقینی طور پر محکمہ کے ساتھ بہت کچھ غلط ہورہا ہے ۔جل جیون مشن کے تحت جن پانی کے معیار کی جانچ کی لیبارٹریوںکا قیام ہونا تھا ،وہ کہاں ہیں؟،کیوں آج کے دور میں بھی لوگوں کو بغیر جانچ پانی فراہم کیاجارہا ہے؟ اور کیوں بیشتر معاملات میں آج بھی دیہی علاقوں میں فلٹریشن کے بغیر لوگوںکو برا ہ راست حوضوں سے پانی سپلائی کیاجاتا ہے ۔آخر جل جیون مشن کی تکمیل کے نام پر یہ کیا ڈرامہ رچایا جارہاہے۔اسمبلی کی ہائوس کمیٹی بلا شبہ اس سارے معاملہ کی تحقیقات کررہی ہے اور کرنی بھی چاہئے کیونکہ یہ حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹا لہ ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جل جیون مشن کی تحقیقات کسی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے کرائی جانی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے ورنہ لوگوںکو پانی کے نام پر یونہی مضر صحت پانی سپلائی کیاجاتا رہے گا اور لوگ بیمار پڑتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔