پرویز مانوس
شام کے دھندلکے پھیلنے لگے تھے اور تمام چرند پرند اپنی اپنی منزل کی جانب اُڑان بھر رہے تھے، ُدور فضاؤں میں کہیں اذان کی صدا گونج رہی تھی اور وہ کھڑکی پر بیٹھ کر ڈوبتے سورج کا عکس جھیل میں دیکھ کر گہری سوچ ڈوب ہوا تھا کہ مصور کی زندگی میں ہر لمحہ ایک نیا تجربہ ہوتا ہے، اور ہر رنگ، ہر لکیر اس کے خوابوں اور حقیقتوں کی تلاش کا حصہ بنتی ہے۔ طلحہ کی زندگی، ایک تجریدی کینوس کی مانند، رنگوں کے ملاپ اور تضاد میں اپنی حقیقت کو تلاش کر رہی تھی۔
شہر کی گلیوں میں، جہاں راستے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور دیواریں اپنے سروں کو چھپاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے مکان میں طلحہ نے اپنی دنیا بسائی ہوئی تھی۔ طلحہ کی زندگی میں رنگوں کی باتیں ہی سب کچھ تھیں۔
اُس کے پاس ایک پرانا کینوس تھا، جو برسوں سے اس کے ساتھ تھا۔ یہ کینوس اس کے خوابوں کا عکاس تھا لیکن وہ کبھی بھی اسے مکمل نہیں کرپاتا تھا۔ وہ ہر روز اسے چمکانے کی کوشش کرتا لیکن ہر بار کچھ کمی رہ جاتی۔
ایک دن، جب شام کا سورج شہر کی بلند عمارتوں کے پیچھے چھپ رہا تھا طلحہ نے محسوس کیا کہ اس کے رنگ بدلنے لگے ہیں۔ سورج کی آخری شعاعوں نے اس کے کمرے کو ایک سنہری چمک دی۔ اس کے کینوس پر رنگ بکھر گئے، جیسے کوئی خواب جو کبھی مکمل نہ ہو۔
اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے لگا۔ اس کے بچپن کی یادیں، جہاں وہ اپنے باپ کے ساتھ گیلی مٹی کے برتن اور کھلونے بناتا تھا اور پھر ماں کے ساتھ بیٹھ کر کھلونوں میں رنگ بھرتا تھا۔ اُس دن جب وہ گاؤں کے ڈاک بنگلو میں ایک سیاح کے لئے صُراحی لے کر گیا تو اُس نے دیکھا کہ وہ صاحب لکڑی کے ایک بورڈ پر رنگوں سے کچھ بنا رہا تھا، وہ دروازے پر ہی کھڑا ہوکر ایک ٹک اُسے دیکھنے لگا _۔
اندر آجاؤ. ۔۔! صاحب نے بورڈ سے نظر ہٹائے بغیر اُسے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ صراحی لے کر اندر داخل ہوگیا _،،
بابو جی یہ کیا ہے؟ اُس نے معصومیت سے سوال کیا _
یہ۔۔۔۔! اسے کینواس کہتے ہیں اس پر رنگو ں سے زندگی کی کوئی بھی تصویر بناسکتے ہیں _ ۔
بابو جی میں بھی کھلونوں میں رنگ بھرتا ہوں _ اُس نے شرماتے ہوئے کہا _۔
او گُڈ ۔۔۔۔۔! تم اس کینواس پر کچھ بناسکتے ہو؟
ہاں بابو جی میں بناسکتا ہوں، اُس نے آگے بڑھ کر کہا تو صاحب نے برش اُس کے ہاتھ میں نے تھما تے ہوئے کہا” لو جو جی میں آئے بناؤ‘‘۔
صاحب اُسے دھیان لگاکر دیکھنے لگا! _۔
کچھ دیر بعد اُس نے کینواس پر ایک شکستہ جھونپڑی بنائی تو صاحب نے اُس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا،، ونڈر فُل، غُربت کی مُنہ بولتی تصویر ۔۔!
مائی ڈیر۔۔! یو آر بورن آرٹسٹ ۔۔۔۔ایک دن تم بہت بڑے مصور بنو گے، لیکن ایک بات تو بتاؤ تم نے جھونپڑی ہی کیوں چُنی تم باغ بھی تو بنا سکتے تھے _،،
بابو جی ۔۔۔! میں نے ایسی جھونپڑیوں کو کافی نزدیک سے دیکھا ہے باغ کو کبھی دیکھا نہیں _۔
ارے میرے بھولے آرٹسٹ ۔۔۔! زندگی کو نزدیک سے دیکھو یہ بہت خوبصورت ہے۔ _صاحب نے اُس کے دونوں کاندھوں کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا،،
مجھے دیکھو ۔۔۔! ایک دن میں بھی تم جیسا شرمیلا سیدھا سادہ لڑکا تھا اور آج مُلک کا ایک نامور مصور _میرے ساتھ ممئی چلو پھر دیکھو دُنیا کیا ہے۔ وہ دن اُسے آج بھی یاد تھا جب وہ اپنے گاؤں کی مٹی کو چھوڑ کر اُس کے ساتھ ممبئی آگیا تھا _۔
اس کے دل میں تمام یادیں زندہ ہوگئیں۔ وہ یادیں اس کے دل کے کینوس پر اپنی شکل بدلتی چلی گئیں۔ ہر رنگ، ہر خط، ایک نیا پیغام بن گیا۔ طلحہ نے دیکھا کہ ان کے خواب اس کے کینوس پر نمودار ہو رہے ہیں۔
لیکن، جیسے ہی رات نے اپنی تاریکی پھیلائی طلحہ نے محسوس کیا کہ وہ ایک اور حقیقت سے روبرو ہو رہا ہے۔ وہ خواب جو وہ اپنی آنکھوں میں دیکھتا تھا، ان کا کوئی حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ وہ رنگ، جو کبھی اس کی زندگی کے لئے خوشیوں کا پیغام تھے، اب ایک سوال بن گئے تھے۔
رات کا سکوت اُس کی سوچ کو بکھیر رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ رنگوں میں ایک ماضی کو تلاش کر رہا تھا جو شاید کبھی اس کی زندگی میں مکمل نہیں ہوا۔ اس کی ہر پینٹنگ ایک تلاش تھی، ایک کشمکش تھی کہ وہ اپنی حقیقت کو کیسے جان سکے۔
صبح کی پہلی روشنی کے ساتھ، اُس نے اپنے کینوس پر نظر ڈالی۔ اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی، جیسے وہ رنگوں کے درمیان ایک نیا راستہ تلاش کر رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ زندگی ایک مسلسل پینٹنگ ہے، اور ہر دن ایک نیا رنگ لاتا ہے۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پینٹنگز کو مکمل کرنے کی بجائے، ان کی تلاش میں رہے گا۔ ہر رنگ، ہر لائن، اس کی زندگی کا ایک حصہ ہے جو اس کے اندر کے جوہر کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اسی طرح طلحہ نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو ایک نیا رنگ دے کر اپنی حقیقت کو دریافت کرنے کا سفر جاری رکھا۔اُس نے رنگ سے بھرا ہوا برش اُٹھایا اور کینواس پر پھیرنے لگا چند لمحوں بعد وہاں دو خوبصورت آنکھیں نمودار ہوئیں لیکن ان سے وہ درد نہیں جھانک رہا تھا جو اُس کے اندر بسا ہوا تھا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے تھرتھراتے ہاتھوں سے پھر ایک بار رنگ بھرا برش کینواس پر پھیرا تو اُس کے لرزتے ہونٹوں سے فقط اتنا نکلا۔،،
خون؟؟؟؟؟
دونوں آنکھوں سے لہو کے قطرے ٹپکتے صاف دکھائی دے رہے تھے اور برش اُس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پر تڑپ رہا تھا _،،
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142