فکروفہم
ڈاکٹر ریاض احمد
دنیا بھر کے تعلیمی نظام، خصوصاً بھارت کا تعلیمی ڈھانچہ، اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کے متعلق سنجیدہ مباحثے جاری ہیں کیونکہ یہ نظام معلومات کو رٹوانے پر زور دیتا ہے، بجائے اس کے کہ سیکھے گئے علم کو حقیقی زندگی کے مسائل کے حل میں استعمال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نکتہ نظر یہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ بچوں کو بہت کم عمر میں اسکول نہ بھیجا جائے بلکہ تعلیم اس وقت شروع ہو جب وہ خود شعوری فیصلے لینے کے قابل ہو جائیں۔
مصنوعی ذہانت (AI) کے اس ڈیجیٹل دور میں، یہ صرف تعلیمی موضوعات نہیں بلکہ مستقبل کی تعمیر کے لیے نہایت اہم سوالات بن چکے ہیں جن کے جوابات اب ناگزیر ہیں۔
موجودہ تعلیمی نظام کی افادیت کا بحران :
بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں رائج تعلیم کا ڈھانچہ صنعتی دور کی سوچ پر مبنی ہے۔ یہاں طلباء کو انفرادی صلاحیتوں کے بجائے ایک جیسے اصولوں کے تحت تیار کیا جاتا ہے۔ نصاب کا مرکز معلومات حفظ کروانا اور معیاری امتحانات میں نمبر حاصل کرنا ہے، نہ کہ طالب علموں کو اصل دنیا کے مسائل حل کرنے کے قابل بنانا۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈگری یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد تو ہے، مگر وہ عملی دنیا میں مسائل حل کرنے یا جدت لانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ابتدائی تعلیم ۔ بہت جلد یا بہت سخت؟ :
ایک اور اہم بحث یہ ہے کہ آیا بچوں کو کم عمری میں اسکول بھیجنا درست ہے؟ کچھ ممالک، جیسے فن لینڈ، میں تعلیم کا آغاز 7 سال کی عمر سے کیا جاتا ہے، اور نتائج نہایت مثبت دیکھے گئے ہیں۔ بھارت میں بچے 3 یا 4 سال کی عمر سے سخت تعلیمی نظم میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں کھیل، تخلیق اور فطری تجسس کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
تعلیم کا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ سیکھنے کی محبت پیدا کرنا ہونا چاہیے، خاص طور پر ابتدائی عمر میں جب بچہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو جاننے کا قدرتی جذبہ رکھتا ہے۔
بھارت میں کوچنگ کلچر۔ تخلیق نہیں، درجہ بندی کی دوڑ:
بھارت میں انجینئرنگ (IIT-JEE)، میڈیکل (NEET) اور سرکاری نوکریوں (UPSC، SSC، بینکنگ) کے لیے چلنے والے کوچنگ سینٹرز نے ایک الگ تعلیمی دنیا قائم کر دی ہے جہاں اصل سیکھنے کے بجائے صرف امتحانات پاس کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔نیشنل سیمپل سروے آفس (NSSO) کی ایک رپورٹ (2022) کے مطابق، بھارت میں 7 کروڑ سے زائد طلبہ نجی کوچنگ کا حصہ بنتے ہیں۔ صرف کوٹا، راجستھان میں ہر سال ہزاروں طالب علم کوچنگ لینے آتے ہیں، جہاں کوچنگ انڈسٹری کی مالیت 5,000 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس کے نقصانات: NCERT کی ایک تحقیق (2019) کے مطابق، 60 فیصد طلبہ کوچنگ کے دوران شدید ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔2023 میں کوٹا میں 25 طلبہ کی خودکشی کی خبریں سامنے آئیں، جو ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔کئی طلبہ 4 سے 6 سال تک صرف امتحانات پاس کرنے میں لگا دیتے ہیں، مگر ان میں نہ قائدانہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے، نہ کاروباری ذہن۔
معاشرتی اثرات: یہ نظام کاروباری ذہنیت کو دباتا ہے اور نوجوانوں کو نوکری کے پیچھے بھاگنے والا بناتا ہے، نہ کہ نوکری دینے والا۔مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ صرف رٹے پر زور ہوتا ہے۔سماجی تفریق بڑھتی ہے، کیونکہ صرف وہی طلبہ آگے بڑھ پاتے ہیں جو مہنگی کوچنگ لے سکتے ہیں۔نیتی آیوگ کے مطابق، بھارت کے صرف 5 فیصد انجینئرنگ گریجویٹس ایسی نوکریوں کے قابل ہوتے ہیں جو اصل انجینئرنگ کی مہارت مانگتی ہیں — یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ ہمارا نظام کتابی کامیابی تو دے رہا ہے، مگر عملی زندگی میں ناکام ہو رہا ہے۔
AI کا چیلنج اور موقع : آج کے دور میں، جب علم کی فراہمی AI کے ذریعے باآسانی ہو رہی ہے، ہمیں سوال کرنا چاہیے: استاد کا کردار اب کیا ہے؟ جب AI مضامین لکھ سکتا ہے، کوڈنگ کر سکتا ہے، ترجمہ اور تجزیہ کر سکتا ہے، تو استاد کا کام کیا بچتا ہے؟جواب ہے: انسانی اقدار — ہمدردی، تخلیق، اخلاقیات، اور فیصلہ سازی جیسی خصوصیات جو مشین نہیں دے سکتی۔لہٰذا، تعلیم کا مقصد اب صرف علم دینا نہیں، بلکہ انسان بنانا ہے — ایسا انسان جو بدلتی دنیا میں خود کو ڈھال سکے اور دوسروں کی مدد کر سکے۔
حقیقت پسندانہ اور مستقبل بین اقدامات : (الف) نصاب میں اصلاحات۔کتابی علم کے بجائے بین المضامین منصوبوں پر مبنی نصاب بنایا جائے۔ہر مضمون میں حقیقی دنیا کے مسائل پر کام کروایا جائے۔طلبہ کو سیکھنا سکھایا جائے، نہ کہ صرف پڑھایا جائے۔(ب) امتحانی دباؤ میں کمی : ابتدائی عمر میں ہائی اسٹیک ٹیسٹنگ (جیسے بورڈ یا انٹری ٹیسٹ) کو کم کیا جائے۔پروجیکٹس، پریزنٹیشنز اور پورٹ فولیو کے ذریعے تشخیص کی جائے۔ناکامی کو سیکھنے کا حصہ بنایا جائے، نہ کہ سزا۔(ج) جذباتی اور اخلاقی تعلیم۔جذباتی ذہانت، اخلاقیات، ڈیجیٹل شعور جیسے موضوعات کو ابتدائی تعلیم سے شامل کیا جائے۔بحث و مباحثے کے ذریعے طلبہ کی سماجی آگہی بڑھائی جائے۔(د) AI کا مثبت استعمال
AI کے ذریعے ذاتی نوعیت کی تعلیم فراہم کی جائے۔اساتذہ کا وقت غیر تدریسی کاموں سے بچا کر رہنمائی اور تخلیق پر مرکوز کیا جائے۔(ہ) لچکدار تعلیمی راستے۔تخلیقی فنون، فنی تعلیم، کاروبار، یا اکیڈمک تحقیق — ہر شعبے کو برابر اہمیت دی جائے۔عمر بھر سیکھنے کا کلچر اپنایا جائے۔(و) والدین اور برادری کی شمولیت۔تعلیم کو صرف اسکول تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ سماجی تجربات، انٹرن شپس، رضاکارانہ کام، اور ڈیجیٹل شراکتوں سے تقویت دی جائے۔
نتیجہ: علم برائے زندگی، نہ صرف برائے نوکری: اب وقت آ گیا ہے کہ تعلیم کو صرف نوکری پانے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے، بلکہ زندگی گزارنے کا فن بنایا جائے۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی ماڈل چاہیے جو طلبہ کو صرف کامیاب نہیں بلکہ خوش، باشعور اور تخلیقی انسان بننے کی راہ دکھائے۔ہمیں تعلیم کو پھر سے خوشگوار، بامقصد اور انسانی اقدار سے بھرپور بنانے کی ضرورت ہے — اور AI کو معاون کے طور پر استعمال کرتے ہوئے۔مستقبل کا مالک وہی ہو گا جو سب سے زیادہ تجسس رکھنے والا، لچکدار، اور انسانیت سے قریب ہو گا — نہ کہ صرف وہ جو رٹا لگاتا ہو۔
reyaz.ahmad@skylineuniversity.ac.ae