Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

مصنوعی اتحاد یا شائستہ اختلاف؟! | عقل سے ہی انسان آفاق و انفس کا علم پاتے ہیں تجلیات ادراک

Towseef
Last updated: February 24, 2025 11:11 pm
Towseef
Share
15 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

رب تعالی نے ہر انسان کو منفرد پیدا فرمایا ہے۔ انسان کی یہ انفرادیت اس کے مختلف رویوں سے سامنے آتی ہے۔ رویوں کے اختلاف سے حیات انسانی کی رنگارنگی برقرار رہتی ہے۔ یہی رنگارنگی انسانی زندگی کو فطرت سے ہم آہنگ کرتی ہے، جہاں اختلاف مختلف اکائیوں میں حسن پیدا کرتا ہے۔ فطرت سے اس اختلاف کو ختم کیا جائے تو دنیا کا سارا حسن جاتا رہے گا۔ یہی اختلاف انسانوں کے اٹھنے بیٹھنے، طرز تکلم، بودوباش اور نشست و برخاست میں موجود رہتا ہے، جسے ختم کرنا فطرت کے تقاضوں سے بغاوت کے ہم معنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رب تعالی نے اس اختلاف میں کئی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس خدائے رحمٰن نے انسان کو بولنا (بیان) سکھایا (الرحمٰن، ۱-۲) اور انسانوں کو مختلف رنگ عطا فرمائے، اسی رحمت والے خدا نے اس اختلاف کو اپنی نشانوں میں ایک نشانی قرار دیا ہے۔ قرآن کی رو سے، ’’اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے۔‘‘ (الروم، ۲۲)

اب ظاہر ہے کہ انسان کو عطا کی گئی یہ سب سے بڑی انفرادیت ہے کہ اسے عقل سے نوازا کیا۔ یہی عقل انسان کو نہ صرف ایک امتیاز عطا کرتی ہےبلکہ اسی سے باقی مخلوقات پر انسان کا تفوق ثابت ہوتا ہے۔ اسی عقل سے انسان آفاق و انفس کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے، جس سے وہ دنیا میں اپنے مقصد وجود کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ اسی عقل سے انسان دنیا میں اپنی حیثیت طے کرتا ہے ، اسی سے وہ کائنات کو سمجھتا ہے اور اپنے اور کائنات کے درمیان ایک تعلق دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مخلوق کے بارے میں یہی سمجھ اسے خالق کے متعلق سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یعنی انسان خالق کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر انسان مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کے خدوخال خود قائم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ہر انسان کا نتیجہ الگ ہوسکتا ہے، جس سے انسانی زندگی کے اس اہم دائرے میں بھی اختلاف قائم رہتا ہے، تاہم ہر انسان اپنے فہم و فراست اور اپنی معاشرتی سطح کے مطابق ہی نتائج برآمد کرتا ہے۔ نتیجتاً یہاں پر کسی کا نتیجہ بالکل سطحی ہوتا ہے ، کسی کا نتیجہ بڑے اعلیٰ پایہ کا ہوتا ہے اور کسی کا نتیجہ درمیانی درجے کا ہوتا ہے۔ نتائج کے اس اختلاف سے انسان کا مذہب کے بارے میں اختلاف قائم رہتا ہے اور یہ اختلاف کبھی کبھی انسانی معاشرے میں افتراق کا باعث بھی بنتا ہے۔

مذہبی رائے کے بارے میں اس اختلاف جو کبھی کبھی انتشار کا باعث بنتا ہے، کے بارے قرآن یوں بات کرتا ہے: ’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے، اللہ تعالی نے نبیوں کو خوش خبریاں دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۳) اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبران کرام علیھم السلام کے ذریعے انسانیت کو ملنے والا دین سیدنا آدمؑ سے لیکر ،محمدؐ تک ایک ہی رہا ہے اور اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں رکھی گئی، کیونکہ اس کا سرچشمہ ربانی ہے، یعنی یہ بلاواسطہ رب کائنات نے رسولوں کے توسط سے انسانیت کو عطا کیا۔ تاہم اس دین کی تاویل اور تشریح میں اختلاف ہوسکتا ہے، یعنی اس کو سمجھنے سمجھانے کے مختلف زاویے اور مختلف امور کا اطلاق اور انطباق مختلف ہوسکتا ہے، یعنی دین کے مبادیات کو چھوڑ کر فروعات میں اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

اب جہاں تک رائے کا اختلاف ہے تو کیا یہ فتنہ و فساد اور افتراق و انتشار پر منتج ہونا چاہئے؟ یا اس سے بچنے کے لئے کو ایسا طریقۂ کار اختیار کرنا چاہئے جو اس اختلاف کو سرے سے ختم ہی کر ڈالے؟ کیا اس کا سد باب اتحاد کا نعرہ لگاکر کیا جاسکتا ہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ رائے کا اختلاف لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہونا ہی نہیں چاہئے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اختلاف انسانی سرشت میں ہی شامل ہے، اس لئے اس کا مکمل خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ تیسرے سوال کا جواب یہ ہے اتحاد اتحاد کی مالا جپنے سے زمینی صورت حال میں کوئی بھی تبدیل رونما نہیں ہوسکتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مصنوعی اتحاد کی مجلسوں میں ’’اختلاف کی چنگاری‘‘ سینوں میں دبی رہتی ہے، کیونکہ ان مجالس میں اکثر اوقات ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوئی کوشش ہوتی ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے یا سر عام ایک دوسرے کی رائے کے خلاف زبان بند رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نجی محفلوں میں ایک دوسرے پر نہ صرف تنقید کی جاتی ہے بلکہ ایک دوسرے کی تنقیص، تعییب اور تحقیر ہوتی رہتی ہے، پھر کچھ وقت کے بعد کسی طرف سے’’حسد و بغض‘‘ کا لاوا باہر آ ہی جاتا ہے اور مختلف مکاتب فکر پھر سے دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔

اس لئے اس صورت حال کا ازالہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں برداشت (ٹالرنس) اور ہم آہنگی (ہارمنی) کی قدروں کو فروغ دیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اقدار گوشہ ہائے تنہائی میں بیٹھ کر پیدا نہیں ہوسکتیں، ان اقدار کوچُپ سادھ کر بھی پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اس لئے مکالمہ اور گفتگو جس میں سنجیدہ اور شائستہ اختلاف موجود ہو، ہی اس کا واحد علاج ہے۔ واضح رہے جب اللہ تعالیٰ نے جھوٹے خداؤں کے خلاف ’’زبان درازی‘‘ سے روکا ہے (الانعام، ۱۰۸)، تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مد مقابل یا فریق مخالف کے نقطۂ نظر، اگرچہ وہ موہوم ہی ہو، کا مقابلہ طعن و تشنیع سے کریں۔ اس لئے شائستہ اختلاف کی شاہ کلید استدال ہے، کیونکہ استدلال کے میدان میں تہی دامن شخص ہی فریق ثانی کی تحقیر اور استہزاء پر اتر آتا ہے۔

دلیل کی زبان اور شائستہ انداز میں بات کرنے والا کبھی بھی مداہنت اور مصلحت پرستی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے موقف پر قائم رہتا ہے اور اس کے حق میں استدلال کرتا ہے۔ تاہم وہ اپنی بات کسی پر نہیں ٹھونستا۔ اصل میں وہ کسی کو خوش کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کو ناراض۔ وہ فقط اپنا نقطۂ نظر دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے اور بس۔ یعنی وہ اتحاد اتحاد کی رٹ لگاکر اتحاد کا کوئی جھوٹا قصر تعمیر نہیں کرنا چاہتا۔ یاد رہے کہ ایسا ماحول قائم کرنے کے لئے بہت بڑی قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ ایسی روایت قائم کرنے کے لئے شخص پرستی اور ’’جھوٹی عقیدت ‘‘کے سحر سے بھی باہر آنا پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم علماء اور مفکرین کس طرح اپنی رائے دینے کے بعد ’’واللہ اعلم بالصواب‘‘ کا درس دیتے آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فقط کتاب و سنت سے ہی اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ باقی تمام آراء سے اختلاف کی گنجائش موجود رہنی چاہئے۔ انسانوں سے اختلاف کرنے کے اسی حق کو ارسطو نے یوں بیان کیا ہے: ’’افلاطون ہمیں عزیز ہے، لیکن سچائی افلاطون سے عزیز تر ہے!‘‘

اپنے موقف پر ڈٹے رہنا اور مدمقابل کی حیثیت کو واضح کرکے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا خود اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح سکھایا ہے: ’’آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کروں گا اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں پرستش کروں گا جس کی تم نے پرستش کی۔ اور نہ تم اس کی پرستش کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔‘‘ (الکافرون، ۱-۶) اگرچہ دین حق پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کے متعلق الہٰی فیصلے کو عام انسانی موقف یا رائے پر محمول نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس کے مطابق حق کے نام لیوا کو اپنے موقف کے ماضی، حال اور مستقبل کو واضح کرنا چاہئے۔ یہاں پر اس بات کا اعادہ ضروی معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنا موقف کسی کے اوپر لادنا ہے اور نا ہی کسی کی ہاں میں ہاں ملاکر اپنے موقف کو مشتبہ بنانے کا سامان کرنا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات مد نظر رہنی چاہئے کہ اگر فکر کے معاملے میں کسی جاہل سے بھی سابقہ پڑے، اس سے صرف علیحدہ ہونا چاہئے، اس کی جہالت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (الفرقان، ۶۳)

تاہم معاشرتی معاملات میں ’’کم سے کم مشترکہ لائحۂ عمل‘‘ (کامن منیمم پروگرام) کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قرآن نہ صرف ’’نیکی اور پرہیزگاری‘‘ کے کاموں میں اشتراک (تعاون) کا حکم دیتا ہے (المائدہ، ۲) بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ’’عفو و درگزر کو شعار بنانے اور بھلائی کے کاموں پر ابھارنے کا حکم بھی دیتا ہے۔‘‘ (الاعراف، ۱۹۹) تاہم معاشرتی تعاون کی اعلی ترین مثال قائم کرتے کرتے مؤمن کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں وہ اصولوں اور بنیادی حقائق یا اعلیٰ ترین حقیقت پر سمجھوتہ نہ کر بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی ہر حال میں خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیکر قرآن واضح کرتا ہے: ’’ہاں اگر وہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ کسی کو شریک کرلیں، جس کا آپ کو علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مانیں۔‘‘ (العنکبوت، ۸)

واضح ہوا کہ اگر اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ کارہائے زندگی کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے، تو ایسا کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ تاہم اگر اتحاد کے معنی یہ لیے جائیں کہ ہر کسی کی فکر اور رائے ایک جیسی ہوجائے تو اس سے انسان کا تعقل اور تفکر جمود کا شکار ہوجائے گا۔ یا بالفاظ دیگر یہی کہا جاسکتا ہے کہ انسان ایک مشینی انسان (روبوٹ) میں تبدیل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمود اس ذہنی عمل کو غارت کرے گا جس کے تحت انسان کو خود ہدایت اور گمراہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’ہدایت گمراہی سے ممتاز اور روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط سہارا تھام لیا۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۶) اس طرح سے خدا کی مشیت کے مطابق انسان کی فکری کشمکش جاری رہنی چاہئے۔ (ھود، ۱۱۸) اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت، حق کے لئے مواعظ، حق کے لئے بہترین طریقے سے مجادلہ اور مباحثہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔ (النحل، ۱۲۵)

اسی سنجیدہ اور شائستہ اختلاف کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے دل اور دماغ کے دریچے کھلے رہتے ہیں۔ یہی دل اور دماغ فکر کی تازہ لہروں اور تجدید کے فرحت بخش سوتوں سے تازہ دم ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی دل اور دماغ شخص پرستی کے طوق سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ یہی دل اور دماغ والے مؤمن، حدیث کی رو سے، ’’کبھی غطلی پر متحد نہیں ہوتے!‘‘ (الترمذی) اس کے برعکس اتحاد اتحاد کے مصنوعی نعروں پر یقین کرنے والے لوگوں کا حال ان ادیبوں اور شاعروں کا سا ہوتا ہے جو کہنہ مشق نقادوں کی تنقید کے ذریعے اپنے فن کو سنوارنے کے بجائے اسے مشاعروں اور ادبی محفلوں میں بلند ہونے والی واہ واہ کی نذر کرتے ہیں!
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ9858471965)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
منفی بیانیے دم توڑ چکے ہیں ، جموں و کشمیر میں اب خودمختاری کی نئی صبح کا آغاز: منوج سنہا
تازہ ترین
تمام اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مشاورت کے بعد اسکولوں کے اوقات کار تبدیل کیے گئے: سکینہ ایتو
تازہ ترین
وادی کشمیر میں آلو بخارے کی کاشت جوبن پر، لیکن نرخوں میں گراوٹ سے کسان پریشان
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 6 ہزار 6 سو 39 یاتریوں کا گیارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?