پلوامہ فدائین حملہ پر15فروری کو جموں بند کے دوران بلوائیوں کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں پریم نگر، جوگی گیٹ ، گوجر نگر،وزارت روڈ، شہیدی چوک ، گمٹ ،بس اڈہ اور دیگر مقامات پر توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے اور اس کے بعد 16اور17فروری کوجانی پور، مٹھی ، توپ شیرخان آباد و دیگر علاقوں میں پتھرائو اور پٹرول بموں کے ذریعہ حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے خائف کشمیری و مقامی مسلم آبادی کیلئے مسجد کمیٹیوں او ردیگر سماجیتنظیموں کا سامنے آناواضح ثبوت ہے کہ ہمارے سماج میں انسانیت کے اقدار کا علم بلند رکھنے والے موجود ہیں اور اگر یہ کمیٹیاں اس مشکل وقت پر حالات کے ماروں کو پناہ نہ دیتی تویقینی طور پر مسائل بڑھ جاتے ۔اگرچہ پولیس نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجمیر شریف اور ملک کے دیگر مقامات سے واپس آنے والے مسافروں کو بلوائیوں کے نشانہ سے بچانے کیلئے نروال اور دیگر علاقوں سے بٹھنڈی منتقل کرنے میں مدد فراہم کی لیکن اس کے آگے ان کی حفاظت اور کشمیر منتقلی کیلئے انتظامیہ کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیاگیااور انہیں مکمل طور پر اپنے ہی حال پر چھوڑ دیاگیا۔ ایسے حالات میں بھلا ہو بٹھنڈی، تالاب کھٹیکاں اور گوجر نگر و دیگر علاقوں کے مقامی لوگوں اور مسجد کمیٹیوں کا جنہوں نے نہ صرف جموں کے مختلف علاقوں میں شرپسندوں سے خائف ہونے والوں اور بیرون ریاست سے آنے والے مسافروں کو پناہ دے کر قیام و طعام کا انتظام کیا بلکہ ان کیلئے سرینگر، راجوری پونچھ اور ڈوڈہ و کشتواڑ وغیرہ جانے کیلئے گاڑیوں کا انتظام بھی کروایا ۔موجودہ حالات میں مقامی مسلمانوں کا رول تو قابل ستائش ہے ہی لیکن کئی جگہوں پر غیر مسلموں نے بھی کشمیریوں کی حفاظت کے تمام ترممکنہ اقدامات کئے اور انہیں گردواروں و دیگر مقامات پر ٹھہرایاگیا، جسے جس قدر بھی سراہاجائے وہ کم ہے ۔ اسی طرح سے بیرون ریاست سے واپس لوٹ رہے کشمیری طلباء ، پروفیشنل اورتاجروں ودیگر افراد کو پنجاب کے لوگوں کی طرف سے ہر ممکن مدد فراہم کی گئی اوران کیلئے جموں تک کیلئے بسوں کا انتظام بھی کیاگیا جس کے سبب وہ آسانی سے جموں پہنچنے میں کامیاب ہوسکے اوران کے ساتھ راستے میں کسی طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیںہوا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پلوامہ فدائین حملے کے بعد جہاں جموں میں بلوائیوں نے پولیس کی افسوسناک بے عملی اور لاپرواہی کافائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر تباہی مچاکر املاک کو نقصان پہنچایا وہیں ملک کی کئی ریاستوں میں کشمیریوں کا قافیہ حیات تنگ کیاگیا اور انہیں علاقے چھوڑ کر واپس اپنی ریاست کی راہ اختیا رکرنے پر مجبور کیاگیا۔شرپسند عناصر کی مذموم کارروائیوں اوراس پر انتظامیہ و پولیس کی خاموشی نے جموں میں سنگین صورتحال برپاکردی تھی اور یہاں رہ رہا ہر ایک مسلم خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگاتھا مگر اس مشکل مرحلے میں بلا مذہب و ملت کئی تنظیموں کا آگے آکرمددکرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ شرپسند جتنی بھی کوششیں کیوں نہ کرلیں ، انہیں تب تک کامیابی نہیں مل سکتی جب تک امن پسند قوتیں زندہ اور سرگرم ہیں۔ انسانیت اور فرقہ وارانہ یکانگت پر یقین رکھنے والے جموں کے وہ سیاسی و سماجی حلقے اور تنظیمیں ،جو ابھی تک فرقہ پرستوں کے خوف کی وجہ سے خاموش ہیں ،پر بھی یہ لازم آتاہے کہ وہ لوٹ مار و تباہی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بننے والوں کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے میں بھر پور تعاون فراہم کرنے کے ساتھ اس کے لئے انتظامیہ پر بھی دبائو ڈالیں۔انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی بنیادوں پرہی سہی مگر درماندگان کی مدد کے فوری اور مؤثر اقدامات کئے جائیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کے بجائے سرینگر اور دیگر علاقوں میں منتقلی کیلئے ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات کی مؤثر فراہمی کی جائے ۔اس طرح انتظامیہ کے ماتھے سے غیر ذمہ داری اور لاپرواہی برتنے کا داغ اگر چہ مٹے گا نہیں لیکن یہ حقیقت سامنے آسکتی ہے کہ دیر سے ہی سہی حکومت خواب خرگوش سےبیدار ہوئی ہے اورانتظامیہ کے تئیں عوامی اعتماد کی بحالی کی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔