سرینگر //شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ میں کام کرنے والی ایک ہزار سے زائد نرسوں میں 30ایسی نرسیں بھی شامل ہیں جو تمام مشکلات اور مصائب کے بائوجود بھی کورونا وائرس میں مبتلا لوگوں کی جان بچانے میں جٹیں ہیں۔ پچھلے 6ماہ کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں کا علاج و معالجہ کرنے کے دوران نرسیں اور نیم طبی عملہ کے دیگر افراد بھی وائرس سے متاثر ہوئے تاہم انہیں نے اسپتال میں زیر علاج متاثرین کے علاج و معالجہ پر کوئی بھی اثر پڑنے نہیں دیا ۔سکمز صورہ میں متاثرین کیلئے بنائے گئے 5خصوصی وارڈوں میں 30نرسیں تعینات ہیں جن میں سے 6دوران ڈیوٹی وائرس سے متاثر ہوئیں۔کورونا وائرس کیلئے بنائے گئے وارڈوں میں تعینات نرسوں میں ہی شوپیان کی رہنے والی ایک نرس بھی شامل ہے جو صبح و شام 116کلومیٹر کا سفر طے کرکے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ شوپیان سے تعلق رکھنے والی سینئر نرس 58کلومیٹر کا سفر کرکے صبح 10بجے اسپتال پہنچتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دیہی کے بعد شام کو واپس پھر سے 58کلومیٹر کا سفر طے کرکے گھر پہنچتی ہے۔مذکورہ نرس کے دو کمسن بچے ہیں جن میں ایک 6سال اور ایک 2سال کا ہے۔ شوپیان کی سینئر نرس نے بتایا ’’ میرے 2بچے ہیں اور میں ان بچوں کو گھر میں چھوڑ کر اسپتال کیلئے صبح 6بجے نکلتی ہوں کیونکہ لاک ڈائون اور نامسائد حالات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ ملنا مشکل ہوتا ہے‘‘۔سینئر نرس نے بتایا ’’ ہر روزصبح و شام116کلومیٹر کا سفر طے کرنا اور پھر واپس گھر پہنچا درد ناک سفر بنتا ہے کیونکہ صبح گھر میں بچوں کو باپ کے حوالے کرنا اور شام کو بچوں کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ، ایک ماں کیلئے کافی تکلیف دہ ہوتا ہے‘‘۔سینئر نرس نے بتایا ’’ کئی دفعہ اسپتال میں ہوسٹل کیلئے درخواست دی ، ہر بار منتظمین نے واپس لوٹا دیا کیونکہ ہوسٹل حاصل کرنے کیلئے بھی ترجیحات کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اسپتال انتظامیہ کیلئے نیم طبی عملہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔سینئر نرس نے بتایا کہ اپنے لوگوں کیلئے پچھلے 6ماہ کے دوران کئی مرتبہ پیدل ہی سفر طے کرنا پڑا لیکن لوگوں کی جان بچانے کیلئے ہمیشہ اپنی جان دائو پر لگائی ہے۔ سینئر نرس نے بتایا کہ اپنے عزیز و عقارب کے کسی بھی غم یا خوشی میں شامل ہونا تو الگ بات ہے، اپنے بچوں کی پرورش کرنا بھی مشکل بن گیا ہے ،لیکن اس سب کیلئے اپنے لوگوں کی محبت ہی حمت دیتی ہے۔ سکمز صورہ میں کورونا وائرس مریضوں کے علاج و معالجہ کیلئے جڑی نرسیں ، کبھی پی پی ای کیٹ، کبھی ماسک اور کبھی دیگر سازوسامان کے بغیر بھی مریضوں کا علاج و معالجہ کرتی رہیں ۔ سکمز صورہ میں تعینات ایک سینئر نرس نے بتایا ’’16مار چ سے لیکر ابتک کوئی بھی چھٹی لینے کی اجازت نہیں ملی ، نہ اپنوں کے ساتھ عید منائی اور نہی ہی کسی رشتہ دار کے دکھ اور سکھ میں شامل ہونے کا موقع ملا ‘‘۔سینئر نرس نے بتایا ’’ عالمی وباء کے دوران لوگوں کی جان بچاناہی ہماری اولین ترجیح رہتی ہیں اور اس کیلئے اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے کا کوئی بھی افسوس نہیں ہوتا لیکن تکلیف تب ہوتی ہے جب اسپتال انتظامیہ اور لوگ ان تمام تکالیف کو فراموش کردیتے ہیں‘‘۔نرس نے بتایا ’’ میں پچھلے 6ماہ سے کورونا وائرس مریضوں کا علاج و معالجہ کررہی ہوں اور اس دوران کبھی پی پی ای ، کبھی ماسک اور کبھی دیگر سامان کی کمی رہی لیکن ہم نے کبھی بھی کسی مریض کو علاج کرنے سے انکار نہیں کیا ‘‘۔سینئر نرس نے بتایا ’’ 24گھنٹے ڈیوٹی دینے کے بعد جب گھر جاتے ہیں تو بچے، والدین اور دیگر اہلخانہ سے دور رہنا پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ ہم صرف اپنے لوگوں کیلئے برداشت کرتے ہیں‘‘۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والی نرس نے بتایا ’’مریضوں میں جب کوئی اپنا شامل ہوتا ہے تو کافی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہوتی ہے، ہم حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اپنے مریض کا خیال رکھیں، یا دیگر مریضوں کا ‘‘۔سینئر نرس نے بتایا ’’اپنے احساسات و فرائض کی اس لڑائی میں ہمیشہ سے ہی فرض جیتا ہے کیونکہ ہم اپنے رشتہ داروں کے حقوق کا خون کرکے عام لوگوں کا علاج کرتے ہیں کیونکہ اسپتال آنے والا مریض بھی ہمارے اپنوں کی طرح ہی انسان ہوتا ہے ‘‘۔