سرینگر // حکومتی سطح پر مشروم کے شعبہ کو بڑھاوادینے کے سرکاری دعویٰ کے بیچ وادی میں مشروم کی پیداوار بھی دھیرے دھیرے دم توڑتی جا رہی ہے اورمحکمہ زراعت سے منسلک یہ شعبہ زوال پذیر ہوتا جارہا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1990سے قبل وادی میں 12ٹن مشروم کی پیداوار ہوتی تھی اور آج کل مشکل سے 4یا 5 ٹن مشروم پیدا کی جاتی ہے۔محکمہ ایگریکلچر کے مطابق مشروم کی فصل کو 2014کے سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ہوا اور تب سے اب تک یہ فصل بڑھنے کے بجائے گھٹتی ہی جا رہی ہے ۔وادی میں 1990سے قبل وادی میں مشروم شعبہ کے تین سیکٹر تھے جن میں ہرن بڈگام میں انڈو ڈچ پروجیکٹ ، باغات شورہ سرینگر میں وولڈ بنک پروجیکٹ ، اور لال منڈی سرینگر میں انٹی گریٹیڈ پروجیکٹ شامل ہیں ۔انڈو ڈچ اور وولڈ بنک پروجیکٹ جوں ہی قائم کئے گئے تو اُس کے بعد وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے یہ دونوں بند کر دیئے گئے۔انڈو ڈچ پروجیکٹ مکمل طور پر تباہ ہوا تاہم 32کنال اراضی پر پھیلے وولڈ بنک پروجیکٹ کی عمارات اور دیگر تعمیرات باغات شورہ میں ابھی بھی موجود ہیں جہاں اب سیکورٹی فورسز نے کیمپ قائم کیاہوا ہے ۔ یہاں 12عمارتیں بھی موجود ہیں۔ اس پروجیکٹ کی خصوصیات یہ تھی کہ اگر یہ کام کرتا تو ہر ایک سیزن میں 3سو ٹن کھاد تیار ہوتی جس سے 75000کلو گرام مشروم پیدا کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ 100افراد کو تربیت بھی دے سکتا تھا، لیکن افسوس کہ یہ پروجیکٹ تباہ ہو چکا ہے ۔راشٹریہ کریشی وکاس یوجنا کے تحت انٹی گریٹیڈ مشروم سنٹر لال منڈی میں 3.5کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہو چکا ہے ۔یہاں سے نہ صرف مشروم کے انڈے بلکہ اس کیلئے درکار مربوط کھاد سالانہ 2سو ٹن تیار کی جا سکتی ہے جس سے 30ٹن مشروم پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ مشروم سکیم کے تحت لال منڈی میں مشروم ریسرچ اور انڈے پیدا کرنے کی ونگ قائم کی گئی ہے ۔وادی میں کسانوں کو مشروم پیدا کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے 100ٹرے یونٹ قائم کرنے کیلئے 7500روپے کی مدد دی جاتی ہے ۔تاہم قومی سطح کی سکیم راشٹریہ کریشی وکاس یوجنا کے تحت 2009-10سے مشروم کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی گئی۔کشمیر میں پہلے سال 480.60کونٹل مشروم تیار کیا گیا۔ 2010-11میں پیداوار میں تھوڑی سی کمی آگئی اور 446کونٹل مشروم تیار کیا گیا لیکن 2011-12میں پیداوار گھٹ کر 188.25کونٹل رہ گئی اور اس کے اگلے سال 2012-13میں پیداوار میں پھر کمی ہوئی اور یہ 121.05کونٹل تک آگئی ۔تاہم2013-14میں مشروم کی پیداوار میں قدرے اضافہ ہوا اور یہ 156کونٹل تک جا پہنچی لیکن 2014-15میں سیلاب کی وجہ سے مشروم کی پیداوار صرف 75کونٹل تک محدود رہ گئی ۔2015اور 2016میں مشروم کی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر رہی ۔ مشروم عام لوگ بھی تیار کرتے ہیں ،نجی شعبہ میں مشروم پیداوار سے وابستہ وادی کے ہر ضلع میں لوگ موجود ہیں ۔لیکن یہاں صلاحیت ہونے کے باوجود بھی مشروم شعبہ سے زیادہ لوگ وابستہ نہیں ہو رہے ہیں ،البتہ حکومتی سطح پر بڈگام ، ٹنگمرگ اور سمبل میں مشروم یونٹ قائم کئے جا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو اس شعبہ کے ساتھ وابستہ کیا جا سکے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مشروم کیلئے درکار جو کھاد ہوتی ہے وہ کشمیر کے ہر حصہ میں باآسانی تیار کی جا سکتی ہے اور اس میں خرچہ بھی نہیں آئے گا ۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھان کے چھلکے ،اور دیگر عام استعمال ہونے والی چیزیں جن سے کھاد تیار کی جا سکتی ہے ،کسان گھر میں بھی تیار کر سکتے ہیں ۔ وادی میںمشروم کی مانگ روزبرروز بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہوٹلوں میں بلکہ شادی بیوہ کی تقریبات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ مشروم کی پیداوار کے جتنے مواقع کشمیر میں موجود ہیں اتنے جموں میں نہیں لیکن پھر بھی وادی کے مارکیٹ میں جموں کے مشروم ہی دستیاب رہتے ہیں ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست میں 2011-12کے دوران 6983.23کونٹل مشروم کی پیداوار ہوئی تھی جس میں سے صوبہ جموں میں 5442اور صوبہ کشمیر میں 1541.23کونٹل شامل ہیں ۔مشروم کی پیداوار کو بڑھاوادینے کے حوالے سے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایگریکلچر الطاف اندرابی نے بتایا کہ سرکار مشروم کے شعبہ کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1990سے قبل وادی میں مشروم کے شعبہ سے بڑے پیمانے پر لوگ وابستہ تھے جن کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن اب یہ تعداد مشکل سے 4سے 5 سو تک رہ گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1990سے قبل یہاںمشروم کی پیداوار 12ٹن تک پہنچ گئی تھی اور آج کل مشکل سے پیدار 4یا پانچ ٹن تک ایک سال میں ہوتی ہو گی ۔ڈائریکٹر نے کہا کہ نامساعد حالات کے شروع ہوتے ہی ہرن بڈگام اور باغات شورہ کے پوجیکٹ سنٹرہماچل اور مہاراسٹر میں منتقل کئے گئے ۔اُن کا کہنا تھا کہ جموں میں مشروم کیلئے درکار میٹریل کی قیمت کم ہے اس لئے وہاں لوگ آسانی کے ساتھ اس شعبہ سے وابستہ ہو رہے ہیں جبکہ وادی میں مشروم کیلئے درکار میٹریل کی قیمت بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ مشروم کی پیداواری صلاحیت نہیں بڑھ رہی ہے اور نہ ہی لوگ اس سے منسلک ہو رہے ہیں ۔تاہم انہوں نے کہا کہ لال منڈی میں ایک انٹراگریٹیڈ سنٹر قائم کیا گیا ہے جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے بلکہ اس سے مشروم کی پیداوار بھی بڑھائی جائے گی۔