اردو نہ صرف آپ کی زبان ہے،نہ صرف میری ،یہ ہماری زبان ہے ۔ اردو کے لفظی معنٰی پر غور کریں تو اس زبان کی دو اہم خصوصیات ہم پر واضح ہوتی ہیں۔اول یہ کہ جس طرح چھاونی میں رہنے والے مختلف علاقوں کے مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں ،ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں ،اسی طرح اردو میں بھی یہ خوبی ہے کہ اس میں مختلف زبانوں اور بولیوں کے الفاظ مدغم ہیں اور اس کے ذریعے ہندوستان کے کسی بھی حصے میں آسانی سے گفتگو کی جاسکتی ہے ۔دوسرے یہ کہ چونکہ اردو سے روزمرہ کی زندگی میں ترسیل ِ جذبات آسان ہوگئی تھی،اس لئے ہندوستانی عوام نے اسے بلا تامَل اور بلا تاخیر اپنالیا تھا ۔غرض یہ کہ اردو کو کسی ایک قوم یا کسی ایک فرقے نے پیدا نہیں کیا بلکہ اس کی پیدائش اور اس کی پرورش میں ان تمام افراد کی شعوری یا غیر شعوری کوششیں شامل رہی ہیں جو اس زمانے میں حیات تھے۔
بعض علماء کا خیال ہے کہ وسط ساتویں صدی میں جن عربوں نے ہندوستان آکر مالا بار ؔکے علاقے میں بود و باش اختیار کی تھی ،ان کی زبان نے دکنیؔ زبانوں کے ساتھ مل کر ایک نئی زبان کو جنم دیا، جس کا نام اردو ہے ۔بقول سر تیج بہادر سپروؔ’’اردو سرتا پا ایک ہندوستانی زبان ہے جو دکن ؔمیں پیدا ہوئی ،دلی ؔمیں پروان چڑھی ۔اس کی مٹھاس اور ترقی میں شمالی ہندوستان اور دکنؔ نے قابل قدر حصہ لیا ‘‘۔سدھیشور ورما بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ اردو کا جنم دکن میں ہوا تھا ۔وہ اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ عرب مسلمانوں کی آمد ہی سے اردو زبان وجود میں آئی بلکہ ان کا خیال ہے کہ جب دلیؔ سے حملہ آور یکے بعد دیگرے دکنؔ پہنچے توان کی زبان اردو کہلائی ۔محی الدین قادری زوؔر ،جو دکن کے رہنے والے تھے ،رقم طراز ہیں کہ’’یہ خیال کچھ قابل لحاظ نہیں کیونکہ اردو ایک آریائی زبان ہے اور ان قدیم عرب مہاجرین نے ایسی سر زمین کو اپنایا جہاں دراوڑی زبانیں بولی جاتی تھیں ۔اس کے علاوہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان میں سے بعضوں نے مہاراشٹر میں قیام کیا تو اس قسم کے میل جول کا نتیجہ ایک ایسی زبان ہوتی جو محض عربی اور مہاراشٹری عناصر پر مبنی ہوتی ،حالانکہ اردو زیادہ تر فارسی سے متاثر ہوئی ہے نہ کہ عربی سے‘‘۔
بعض علماء اردو کی ابتدا کو سندھی زبان سے وابستہ کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے سندھ فتح کیا اور وہ وہاں پر آباد ہوگئے ،تب وہاں کے عوام کے میل جول سے ایک مشترکہ زبان وجود میں آئی ،جس کو اردو کہتے ہیں۔یہاں پر بھی وہی سوال موجود ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو اردو میں سندھی الفاظ بہ کثرت موجود کیوں نہیں ہیں۔تاریخ کی روشنی میں بھی اس خیال کی صحت مشکوک ہے ۔آٹھویں صدی میں سندھ میں بغاوت ہوئی تھی اور مسلم حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا ۔سید احتشام حسین کے مطابق صوفیاے کرام کو یہ دقت پیش آئی کہ وہ مذہب اور عبادت کے پیچیدہ مسائل کو آسانی سے بیان کرنے کے لئے کس زبان کا استعمال کریں تاکہ ان کے خیالات عوام تک پہنچ سکیں ۔اس لیے مجبوراً انہوں نے عربی اور فارسی کے الفاظ کو اپنی زبان میں شامل کرلیا اور یہی زبان آگے چل کر اردو کہلائی ۔تو کیا اتنا بھر ہی اردو زبان وجود میں آگئی ہوگی؟شاید نہیں ۔عربی اور فارسی کے الفاظ تو چند بردائی ،کبیر ،تلسی داس ،سور داس ،نانک اور دیگر بھگت شعراء کے ہاں بھی موجود ہیں تو ان کی ہندی یا سدھکُڑی زبان اردو کیوں نہیں بن گئی؟
یہان پر میرا مقصد نہ تو تاریخ ِ زبان ِ اردو بیان کرنا ہے اور نہ ہی اردو کی ابتدا سے متعلق کسی بحث میں پڑنا ۔مقصود یہ ہے کہ اردو خواہ ملک کے کسی بھی حصے میں پیدا ہوئی ہو ،کسی بھی حصے میں پروان چڑھی ہو ،یہ خالص ہندوستانی زبان ہے اور اس کا وجود میں آنا تب تک ممکن نہیں تھا جب تک ہندوئوں نے شعور ی یا غیر شعوری طور پر اس کو جنم دینے کی کوشش نہ کی ہوتی۔خود ہی ایک زبان کو جنم دے کر اگر ہندوئوں نے اس کی پرورش کی ہے تو انہوں نے کسی پر احسان نہیں کیا ہے ،چوں کہ ترسیل ِ جذبات کے لئے ہندئوں کو بھی اس زبان کی اتنی ضرورت تھی جتنی مسلمانوں کو تھی۔یہ تسلیم کرنے میں بھی ہم کو تامل نہیں ہونا چاہئے کہ دیس کی یہ شائستہ و خوب صورت بیٹی جب جوان ہوئی تو ہندوئوں نے اسے گھر سے بے گھر کردیا ۔ اس کو مسلمانوں کی زبان کہہ کر سرکاری دفتروں اور تعلیمی اداروں سے باہر کا راستہ دکھادیا ۔معلوم نہیں ایسا کرتے وقت وہ لوگ کیسے بھول گئے کہ اس زبان کا پہلا شاعر چندر بھان برہمن نام کا ایک ہندو تھا ۔ منشی نول کشور ،رتن ناتھ سرشار ،برج نرائن چکبست ،دیا شنکر نسیم،منشی پریم چند ،کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور رگھو پتی سہائے فراق کی زبان کو کیا سوچ کر مسلمانوں کی زبان قرار دے دیا ۔
میرے نزدیک اردو ایک زبان ہی نہیں،ایک تہذیب بھی ہے ،جس کو گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا ہے ۔اردو کو کسی دفتر یا کسی تعلیمی ادارے میں تیار نہیں کیا گیا تھا ،وقت کی ضرورت نے اس کو از خود پیدا کیا تھا ۔عرب ، ایران ،ترکی،افغانستان وغیرہ ممالک سے آئے ہوئے مسلمان جب اس دیس کی مٹی میں رچنے بسنے لگے تو یہاں کے ہندوئوں کے ساتھ ان کے مراسم کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل تھا۔خیالات و جذبات کی ترسیل کے لئے دونوں قوموں کی الگ الگ زبانوں نے مل کر یا آپس میں ٹکراکر ایک نئی زبان کو جنم دیا جسے بولنے یا سمجھنے میں دونوں کو دشواری محسوس نہیں ہوئی ۔اسی مشترکہ زبان کو کبھی ہندوی،کبھی ہندی ،کبھی ریختہ اور کبھی اردو کہا گیا ۔
ملک کے آزاد ہونے تک ہندوستان کی شناخت اپنی گنگا جمنی تہذیب ہی کے ذریعے سے تھی ۔آزادی وطن سے قبل فرقہ پرستی کی جو لہر اس ملک میں اٹھی اس نے ایک ہندوستانی قوم کو ہندو اور مسلمان نام کی دو قوموں میں تقسیم کردیا ۔ملک کے ٹکڑے ہوئے اور پاکستان وجود میں آگیا ۔ملک کی تقسیم چونکہ مسلم لیگ کی جدو جہد کا نتیجہ تھی ،اس لئے غیر مسلم ہندوستانیوں نے مسلمان اور مسلمانوں سے متعلق ہر چیز سے نفرت کرنا شروع کردیا ۔اردو زبان میں عربی اور فارسی الفاظ کی کثرت کی وجہ سے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا گیا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جانے لگا جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا تھا ۔نفرت کے اس جذبے نے کسی کو یہ سوچنے سمجھنے نہیں دیا کہ پاکستان بن جانے کے باوجود کروڑوں مسلمانوں نے اس ملک کی مٹی سے اپنا رشتہ قائم رکھا اور مذہب کی بنا پر بنے ملک پر آغوش ِمادر ِ وطن کو ترجیح دی۔
اردو کو مسلمانوں کی زبان تصور کرنا نا مناسب ہی نہیں ،بے بنیاد بھی ہے ۔ اردو نہ اسلام کی زبان ہے اور نہ ملک کے تمام مسلمان اردو بولتے ہیں ۔ اس زبان کا نہ کوئی تعلق قیام پاکستان سے تھا ،نہ محمد علی جناح کی زبان تھی۔مجھے اپنے ہندو ہونے پر فخر ہے لیکن میں ہرگز یہ پسند نہیں کروں گا کہ مجھے ہندو ادیب کہا جائے ۔اسی طرح میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ کسی دوسرے ادیب کو مسلمان ادیب یا عیسائی ادیب کہا جائے۔اور پھر غیر مسلم کی ترکیب تو کسی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں ہے ۔غیر لفظ کا استعمال اقلیتوں کے لئے ہوتا ہے ،اکثریت کے لئے نہیں۔پاکستان کا کوئی ہندو خود کو غیر مسلم کہے تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔ہندوستان کے ہندو اپنے کو غیر مسلم کہیں ، یہ بات سراسر غلط ہے ۔اس پر بھی ہم کو 1972ء میں خود کو غیر مسلم کہنا پڑا تھا ۔ تب اس کا سبب یہ تھا کہ ہماری وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اردو اگر صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے تو باقی لو گ کہتے کیوں نہیں کہ یہ ان کی زبان ہے ۔ان کے اس بیان کے جواب میں ہم نے مجبوراً خود کو غیر مسلم کہہ کر اور بہت بڑی تعداد میں جمع ہوکر یہ اعلان کیا تھا کہ اردو نہ صرف مسلمانوں کی زبان ،نہ صرف ہندوئوں کی ،یہ ہم سب کی مشترکہ زبان ہے ۔
ہمارا خیال تھا کہ ہمارے اس اعلان کے بعد حکومتِ ہند پر یہ واضح ہوجائے گا کہ غیر مسلم ہندوستانیوں کو بھی اردو سے اتنی ہی محبت ہے ،جتنی مسلمانوں کو ہے اور یہ کہ یہاں کے ہندو،سکھ ،عیسائی ،پارسی سب لوگ چاہتے ہیں کہ اردو کو ملک میں اس کا جائز مقام دیا جائے لیکن ہمارا یہ اعلان اور اردو سے متعلق ہمارے مطالبات جنگل کی صدا ہوکر رہ گئے۔لہٰذا 1980میں ہم ایک بار پھر خود کو غیر مسلم کہہ کر اسی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے،چونکہ ہم محسوس کررہے تھے کہ اردو کے تئیں حکومت کا رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے بلکہ اردو کو الیکشن کے دائو پیچ کا ذریعہ بناکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہم چاہتے تھے اور چاہتے ہیں کہ یہ حقیقت نہ صرف واضح ہو بلکہ اسے تسلیم کیا جائے کہ اردو کی بقا اور ارتقا سے ہندی زبان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ہندی کے نام پر اردو کی مخالفت بغض وحسد ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہندی اور اردو دونوں کا تعلق نہ کسی خاص فرقے سے ہے ،نہ کسی مذہب سے ،نہ قرآن کی زبان اردو ہے ،نہ ویدوں یا گیتا کی زبان ہندی ہے ۔تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہوکر ہم نے ہندو اور مسلم کے باہمی تنفر کو ہندی اور اردو کا نام دے دیا حالانکہ یہ دونوں زبانیںکسی بھی علاقے کی زبانیں نہیں ہیں ۔ہمارے ملک میں جن ریاستوں کو ’ہندی بھاشی راجیہ ‘قرار دیا گیا ہے، وہاں پر بھی لوگوں کو مادری زبان ہندی نہیں ہے ۔مثال کے طور پر ہریانہ کو لے لیجئے ،پورے ہریانہ میں ہریانوی زبان بولی جاتی ہے ،یو پی اور بہار کو لے لیجئے ،ان دونوں ریاستوں میں اودھی،برج ،بھوجپوری اور میتھلی وغیرہ علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کو ’اردو بھاشی راجیہ‘قرار دیا گیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جموں میں ڈوگری بولی جاتی ہے ،لداخ میں لداخی اور کشمیر میں کشمیری ۔غرض یہ کہ ہندی اور اردو علاقائی زبانیں نہیں ہیں ملک کی تمدنی زبانیں ہیں۔
اب جب کہ ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جاچکا ہے تو یہ ضروری ہے کہ قومی سطح پر اردو کو بھی اس کا مناسب مقام دیا جائے ۔ہمیں نہ تو ہندی کی مخالفت کرنا مقصود ہے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہندی کی قیمت پر اردو کو کوئی فیض پہنچایا جائے ۔ہندی کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے بغیر بھی اردو کو اس کا حق دیا جاسکتا ہے ۔ملک کی جن ریاستوں کو ہندی بھاشی ریاستیں قرار دیا جاچکا ہے ،اُن ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔اس سے ہندی کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ،اردو کے ساتھ کی گئی ناانصافی کا ازالہ ہوجائے گا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اردو کے ساتھ ہمارا کیا رشتہ ہے تو عرض کروں گا کہ اردو کے ساتھ ہمارا عاشق اور محبوب کا رشتہ ہے ،اس لئے کہ یہ صرف اور صرف ہندوستانی زبان ہے ،اس لئے کہ باشعور قومیں اپنی زبان کو قتل نہیں کرتی ہیں ۔اس لئے کہ اس زبان نے ہم کو مہذب گفتگو کرنا سکھایا ہے ،اخوت اور رواداری کا درس دیا ہے ،’’با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام ‘‘کہنا سکھایا ہے،ہم کو سیکولر زم کی وہ سوغات عطا کی ہے ،جو نصیب والوں ہی کے حصے میں آتی ہے۔