غنی غیور
چہرہ چہرہ بہتا پانی
ایک جگہ کیا رہتا پانی
سب کی پیاس بجھانے والا
اپنی آگ میں جلتا پانی
مشتاق مہدی افسانہ نگار تو ہیں ہی۔آپ مدت مدید سے آزاد نظمیں بھی کہہ رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آزاد نظم میں تخیلاتی بہاؤ کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور نظمیں کلائمیکس کا تقاضا کرتی ہیں ۔ دراصل آزاد لکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ عروضی بندشیں ایک طرح سے اظہار کے راستے کی رکاوٹ سمجھی جاتی ہیں ۔اس سے نجات مل جاتی ہے اور لکھاری کُھل کر اظہار ِخیال کرتا ہے ۔
مشتاق مہدی کی نظموں میں گہرائی اور عمق بنیادی وصف ہے ۔مشتاق مہدی کی نظمیں ایک دم سمجھ میں نہیں آتی ہیں ۔البتہ قاری کی استعداد کے مطابق ممکن ہے بعض نظمیں کہیں دوسری تیسری قرأت میں کھل جائیں اور ان میں مخفی رموز و اشارات قاری کے دل و دماغ میں روشنی بکھیر دیں۔
مثلاً ایک نظم
بچپن/ بے فکر/ کھیلتا ہے/ جوانی / خواب میں/ سوچتی ہے/ بڑھاپا/ دھوپ میں /بدن سینکتا ہے۔
یہاں اوپر دی گئی نظم میں “بچپن بے فکر کھیلتا ہے ” فقط چار الفاظ میں زندگی کے بہترین اسٹیج جس میں ہر آدمی بادشاہ ہوتا ہے، کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے
“جوانی خواب میں سوچتی ہے”
بے شک جوانی میں ہر آدمی خواب دیکھتا ہے اور انہیں عملی جامے پہنانے کے منصوبہ تیار کرتا ہے۔گویا جوان آدمی کی نظر میں مستقبل کےخواب سہانے ہوتے ہیں جبکہ بڑھاپے میں انسان حزیمت خوردہ لشکر کی طرح دھوپ میں بیٹھ کر پرانی باتیں یاد کرتا ہے اور دوسروں کو اپنی جوانی کے قصے سناتا ہے ۔اسطرح عمر رسیدہ آدمی اپنی بوڑھی اور ٹھٹھری ہوئی ہڈیوں کو گرماتا ہے۔اس مختصر سی نظم سےنتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بچپن اور لڑکپن میں آدمی کا سب زور اور قوت انسان کی ٹانگوں میں ہوتا ہے، لہٰذاکھیل کود اسکی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے ۔جوانی میں یہ زور کمر سے ہوتا ہوا دماغ میں چلاآتا ہے اور ہر آدمی خواب ساکار کرنے کے درپے رہتا ہے ۔اور بڑھاپے میں برف زار جیسے بدن پر فکر کی دھوپ پڑتی ہے اور انسان اس سے مسرت اور قوت حاصل کرتا ہے ۔اس مختصر سی نظم میں زندگی کا فلسفہ بھردیا ہے۔ کیا کہنے۔ میرے خیال میں یہ نثری نظم کی خوبی نہیں تو اور کیا ہے ۔ فقط تین سطروں میں ایک جہانِ معانی قلمبند کردیا ہے۔ اگر ان تین سطور کی شرح کروں تو مزید کئی صفحات سیاہ ہوجائیں گے ۔
مشتاق مہدی کی نظمیں استعاروں سے بھری پُری ہیں
شہر در شہر سفر کتاب نظم
یہ۔۔۔۔/ وہ شہر نہیں/ کہ جس سے/ تم چھوٹ آئے ہو/ یہ شہرِ شعلہ ہے/کہ جہاں پاؤں پاؤں / آگ۔۔۔/ تمہیں پینی۔۔ چھونی اور چومنی ہے/ ایک بار پھر/ سورجوں سے خراج لینا ہے اپنا/ کہ/ تم / بھی ہو۔
واقعی زندگی آگ کا دریا پار کرنا ہے۔یہاں پہلے شہر سے مراد باغ بہشت یا باغ عدن ہے جو ہم سے چھوٹ گیا ۔ دوسرے شہرِشعلہ سے مراد یہ رنج ومحن بھری دنیا ہے ، جس پر مشقتوں اور حدتوں کے غلاف اور پردے چڑھے ہوئے ہیں۔ اس کا اصلی راز یہی ہے کہ سورج کی طرح حرارتوں میں جلنا ہے اور دنیا کو فروزاں کرکے اپنی ہمت کا لوہا منوانا ہے۔
قرآن میں جھاگ کی مثال دی گئی ہے کہ جو چیز مفید نہیں ہوتی وہ جھاگ کی طرح مٹ جاتی ہے اور جو چیز مفید ہوتی ہے وہ دنیا میں رہ جاتی ہے۔ میرے نزدیک بقائے اصل اور بقائے نسل یا بقائے حیات کی تھیوری عین قرآن کے مطابق بلکہ اسی سے مستخرج ہے ۔
“كما يبقى ما ينفع الناس في الأرض. ” الحدید
مشتاق مہدی کی شاعری عام لوگوں کی غذا نہیں ہے بلکہ اس شاعری کو مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں البتہ مشتاق مہدی کی زبان نہایت سادہ مگر نظمیں پرپیچ اور تہہ دار ہیں اور یہ زباں نثری نظم کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔
سوار ایک علامتی نظم ہے
یہاں گھوڑا انسانی نفس ہے جس پر حیات کا دار و مدار ہے۔ گھوڑا بغیر لالچ کے کوئی کام نہیں کرتا ہے انسانی فطرت کی بھرپو عکاسی کی گئی ہے انسان فطری طور پر avoidant تن آساں اور سہل پسند easygoing واقع ہوا ہے ۔ قدرت نے اسے لالچ دے کر اس سے کام لیا ہے نظم پڑھ کر مجھے
the God gene by Dean Hamer
کی معرکۃ الاراء کتاب کا لب لباب یاد آگیا ۔
مشتاق مہدی کی نظم میں سوار کا استعارہ زندگی کے متعدد کرداروں پر منطبق کیا سکتا ہے اور شاندار نظم ہے۔ مشتاق مہدی خاموش طبع شخص ہیں لیکن انکا مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ منفرد معلوم ہوتا ہے اور غیر معمولی بھی ۔
سوار
جب سوار اچھا ہوتو/ گھوڑے کو چلنا اچھا لگتا ہے/ آنکھ کے سامنے کا نظارہ/ بھلا لگتا ہے/ طائر اُڑان بھرتے ہیں۔۔۔/
پھر اچانک ہی/وہ۔۔۔ خاموشی کا روناشروع کردیتا ہے/ میں اسے تھپکیاں دیتا ہوں/کچھ میٹھے انگور تھما دیتا ہوں/ اور۔۔۔ منزل آجاتی ہے سوار اترجاتا ہے۔
چہرہ چہرہ بہتا پانی
ایک جگہ کیا رہتا پانی
راز یگوں کے جانے مانے
ایک تجھی میں رہتا پانی
سب کی پیاس بجھانے والا
اپنی آگ میں جلتا پانی
مشتاق مہدی غزلیں بھی کہتے۔ حال ہی میں انہوں نے مجھے ایک شعری مجموعہ ” بات پو پھولوں کی ” بھیجا جس میں زائد از پچاس نظموں کے علاوہ ایک آدھ گیت اور کوئی بیس غزلیں بھی شامل ہیں۔ یہاں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشتاق مہدی کا اصل میدان نظم ہے لیکن وہ غزل کہنے کی بھی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں ۔ابھی انکا سفر غزل جاری ہے ۔
چھوٹی چھوٹی بحروں میں اچھے اشعار کہے ہیں ۔
مشتاق مہدی کے بعض اشعار میں رمز و ایما کے علاوہ الفاظ کی نشست و برخاست میں بے ساختگی اور سادگی دیدنی ہے ۔
ستارے ہیں خود رقص زنجیر میں
خبر انکو میری کہاں دوستو!
مشتاق مہدی
���
غازی آباد کالونی، سنجواں جموں
موبائل نمبر؛7889837758