Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

مشتاق مہدی کی افسانویت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 14, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
32 Min Read
SHARE
مشتاق مہدی کا تعلق جنت نشاں کشمیر سے ہے ۔ نہ جانے کیوں شمالی ہندوستان کے ناقدین شمالی ہند کے علاوہ ملک کی دوسری سمتوں پر نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں بھی کشمیر فکشن کے میدان میں کسی ریاست سے پیچھے نہیں ہے ۔ نور شاہ ، اشرف آثاری ، بلراج بخشی ، وحشی سعید کے ساتھ ساتھ مشتاق مہدی کا نام بھی فکشن کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ پچاس برسوں سے برابر لکھ رہے ہیں ۔ 
جب ہم مشتاق مہدی کے افسانوں کو پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے فکشن نگاروں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ احساس ہمیں فوراََ ہو جاتا ہے کہ مشتاق مہدی کا اندازِ بیان اپنے ہم عصروں سے جدا اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ اپنی بات کو قوتِ اظہار کے ذریعہ اس نوع سے صفحۂ قرطاس پر مرتسم کرتے ہیں کہ ایک نئے اسلوب کی اختراع ہو تی ہے ۔ زیادہ تر ان کا اسلوب ، بیانیہ پر منحصر ہو تا ہے ۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر بنی نوع کے بات کرنے کا ڈھنگ جد اہو تا ہے ۔ مگر بعض شخص عام بات کو بھی اتنے خوبصورت ڈھنگ سے پیش کرتا ہے کہ سننے والا اس کا قائل ہو جاتا ہے اور سامع کہہ اُٹھتا ہے کہ ’واہ ‘ کیا بات ہے ؟ ! جبکہ بات وہی ہوتی ہے جسے دوسرا شخص کہہ رہا تھا ۔ اب یہی کہنے اور پیش کرنے کا ڈھنگ اسلوب کو جنم دیتا ہے ۔ فنکار کی کیفیت بھی بالکل یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ڈکشن ، استنباطی عمل ، احساسِ تناسب، قوتِ مشاہدہ ، فہم و ادراک اور تجربات سے عام سی بات یا موضوع کو بھی صفحۂ قرطاس پر اس طرح اہباط کرتا ہے کہ وہ موضوع یا بات نئی ، انوکھی اور دلکش معلوم ہوتی ہے ۔ اور میَں سمجھتا ہوں کہ جب ایسی Situationپید اہو تو نئے اسلوب کا جنم ہوتا ہے ۔ مشتاق مہدی کے یہاں یہ صفت بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔ 
مشتاق مہدی کے یہاں کہانی بننے کا بالکل انوکھا ڈھنگ ہے ۔ اس انوکھے ڈھنگ میں ان کے یہاں سحر انگیزی بھی ہے ، اثر آفرینی بھی ہے ، جدت طرازی بھی ہے اور ان سب کے ساتھ اسراریت بھی ہے ۔ اگر میں یوں کہوں کہ ’اسراریت ‘ان کے افسانوں کا حسن بھی ہے اور مرکزیت بھی ، تو بے جا نہ ہو گا۔ اور جب فن پارہ میں اسراریت کا ظہور ہوتا ہے تو فلسفہ بھی وجود میں آتا ہے ، داخلیت بھی پیدا ہوتی ہے نیز فن پارہ وسعت و معنویت کا بھی حامل ہو جاتا ہے مگر ساتھ ہی مشتاق مہدی کے افسانوی تخلیق میں اسراریت بعض اوقات چیستاں بن جاتی ہے یا کہانی پن زائل ہو تادکھائی دیتاہے ۔ جس میں ساتھ ہی بے ربطی کا بھی احساس ہو تا ہے ۔ ان کے افسانہ بافی کاانداز زیادہ تر اسراریت کا ہی مرتکب ہے ۔ جس میں پوشیدہ رہتے ہیں بہت سے نفسیاتی عناصر ، جس میں قاری زندگی کے رازہائے سر بستہ سے ہم کنار ہو تا ہے اور جب قاری ’اسراریت ‘ میں غوطہ زن ہو کر زندگی کے رازوں سے ہم کنار ہونے لگے تو سمجھئے کہ فن پارے کے تئیں صحیح ترسیل و ابلاغ ہو رہا ہے ۔ لیکن اس اسراریت کی تفہیم کے لئے قاری کو دماغ پر زور دینا پڑتا ہے تب وہ سمجھتا ہے کہ مشتاق مہدی کا فن کن تقاضوں کا متحمل ہے ۔ 
مشتاق مہدی کے یہاں رچاؤ اور بساؤ ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ داخلی کیفیت ہے لیکن بعض افسانوں میں ان کے یہاں سپاٹ اور سادہ اندازِ بیان بھی پایا جاتا ہے تاہم اساسی پہلو اس سپاٹ لب و لہجہ میں بھی پیوست رہتا ہے ۔ واقعات و حادثات کو افسانوی رنگ دینا انھیں بخوی آتا ہے ۔ اس رنگ آمیزی اور افسانویت میں مشتاق مہدی کی فنکاری ، ہنر مندی ، اور چابک دستی نیز زندگی کی رمق موجود رہتی ہے ۔ موضوعات ومسائل کو بیان کرنا اور اس میں کرب و درد ، آہ و بکا ، چیخ و پکار اور بے بسی جیسے پہلوؤں کو فلسفیانہ انداز میں سمونے سے وہ بہ خوبی واقف ہیں ۔ ان کے افسانوں میںتضاد کا پہلو ایک نئے جہان کو جنم دیتا ہے ۔ ’رنگ ‘ افسانہ میں تضا دکا وصف جگہ جگہ نمایاں ہے اور یہ تضاد کا وصف علامتی انداز اختیار کر لیتا ہے جس میں افسانہ نگار کا نقطۂ نگاہ ایک ایسے محور پر آکر مرکوز ہو جاتا ہے جہاں سے سماجی ، معاشی اور کبھی کبھی رومانوی معنویت منکشف ہو تی ہے ۔ 
’’بزدل ‘‘ افسانہ میں مشتاق مہدی نے عصری حسیت کو اپنے قلم کی زد میں لیا ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ اس موضوع پر دوسرے افسانہ نگاروں نے قلم نہیں اُٹھا یا ہے مگر مشتاق مہدی نے اپنے قلم سے اس موضوع پرایسی تخلیقی توانائی ضم کر دی ہے کہ افسانہ جدت و ندرت کا حامل ہو گیا ہے ۔ ’اسلم ‘ افسانہ میں ہیرو کے طور پر نمودار ہو اہے اور زرینہ بطور ہیروئن ۔ اسلم ایک غریب ماں باپ کا لڑکا ہے اور زرینہ امیر گھرانے کی بگڑی ہوئی اولاد۔شروع میں تو اسلم پر زرینہ کی بدراہی اور کجروی کا انکشاف نہیں ہو تا مگر شادی کے بعد اسے سب کچھ پتا چل جا تا ہے کہ زرینہ مغربی طور طریقوں کی مرتکب ہے ۔ وہ منشیات جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ نرگسی وصف میں میں بھی گرفتار ہے ۔ جس باعث اس کے اندر زعم اور گھمنڈ کوٹ کوٹ بھرا ہو اہے ۔ اسلم اپنی بیوی کی وجہ سے اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کو بھی چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ نفسیاتی اعتبار سے اس قدر بزدل ہو جاتا ہے کہ بیوی کے سامنے لب کشائی تک نہیں کر سکتا۔ اندر سے وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر اس کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اور وہ بے بسی کے چنگل سے نکل نہیں پاتا نیز گھٹ گھٹ کر اپنے جذبات ، اپنی خود داری کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
’’رنگ ‘‘ افسانہ کو مشتاق مہدی نے بہت ہی اسراریت کے ساتھ رقم کیا ہے اور اس اسراریت میں شامل ہے مشتاق مہدی کا علامتی ، استعاراتی انداز ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ علامتوں اور استعاروں کے سہارے پید اکیا ہے اسراریت کا وصف ۔ بلکہ علامات و استعارات کی تہوں سے ہی پید اہوتا ہے اسراریت کا فن ۔ نیز یہ علامت ، استعارہ اور اسراریت لا زم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس افسانے میں مشتاق مہدی نے ایک بچے اور عورت کی نفسیاتی کشمکش اور رویوں کو بہت چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ لفظِ رنگ کو مشتاق مہدی نے جس خوش اسلوبی سے برتا ہے وہ اپنے آپ میں ایک طرۂ امتیاز ہے ۔ اس علامتی لفظِ رنگ سے افسانہ نگار نے ایسے گوشوں اور پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے جن کا راست اور براہِ راست تعلق انسان کی تخلیق ، کشمیر کے مسائل اور ساتھ ساتھ مغرب کے منفی اثرات جو مشرق پر غالب آ رہے ہیں اور جن سے رشتو ں میں شکست و ریخت کا سلسلہ وابستہ ہے ، کو افسانے میں پیش کیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’رنگ ‘ افسانہ میں زندگی کی قوسِ قزح کو بہت مؤثر اور ایمائی انداز میں مرتسم کیا گیا ہے ۔ افسانہ میں شاعرانہ حسن بھی جلوہ گرہے مگر ساتھ ہی مشتاق مہدی نے جس علامتی و استعاراتی اور اسراریت کے ساتھ افسانے کا تارو پود تیا رکیا ہے ۔ اس سے چیستاں کی کیفیت پید اہو گئی ہے جس سے ترسیل و ابلاغ میں دقت ہو تی ہے نیز عام قاری کی سمجھ بوجھ سے افسانہ با لا تر ہو جاتا ہے اور سر کے اوپر کو گزر جاتا ہے ۔ 
’’ تخلیق کے آنسو‘‘ افسانہ بھی ایک علامتی افسانہ ہے ۔ جس میں پتھر اور سنگِ تراش کو کہانی کا روپ دے کر افسانے کو ایسے دوراہے پر چھوڑدیا ہے جہاں پر سنگ تراش کا پتھرکے تئیں ایک جذباتی رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ کیوں کہ وہ بے کار پتھر جو سڑک پرپڑا ہوتا ہے ، اُٹھا کر لے آتا ہے اور اسے اپنی فنکاری سے ایسادلکش آکار دیتا ہے کہ وہ کسی شاہکار سے کم نہیں لگتا اور پھر اُسے اُسی سڑک پر جہاں سے اس نے اُسے اُٹھا یاتھا ایک بھاری رقم کے ساتھ نیلام کر دیتا ہے ۔ افسانہ کے یہ جملے ملاحظہ کریں جس سے سنگ تراش کے ایک جذباتی لگاؤ کا احساس ہوتاہے :
’ سنگ تراش نے پتھر کا حسین مجسمہ سودا گر کے حوالے کر دیا لیکن دوسرے ہی پل سنگ تراش کے سینے میں بائیں طرف درد کی ایک ٹیس ابھر آئی ۔ اُس نے اچانک اپنے اندر ایک خالی پن سامحسوس کیا ۔ ‘‘
’’ پیاسا‘‘ افسانہ خالص بیانہ پر مشتمل ہے مشتاق مہدی کی یہ اولین کہانی ہے جو بعنوان ’’ کمینہ‘‘ ۱۹۷۴ء کو بمبئی فلم سنسار میں شائع ہوئی تھی ۔ پیاسا افسانہ کی تھیم یا موضوع یہ ہے کہ متکلم یا کہانی کار ریشمی نام کی لڑکی سے پیار کرتا ہے جو بہت غریب گھر سے تعلق رکھتی ہے ۔ جس باعث متکلم کے والدین اسے قبول نہیں کر پاتے ہیں ۔ افسانہ کا ہیرو چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتا اور ریشمی کی شادی ایک غرب آدمی کے ساتھ ہو جاتی ہے ۔ متکلم کو ہمیشہ اس بات کا قلق و افسوس رہتا ہے کہ وہ ریشمی کو اپنی شریکِ حیات نہ بنا سکا ۔ وہ تا عمر اس کی یاد میں کنوارا رہتا ہے ۔ اس کے ماں باپ لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ وہ شادی کرلے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتے ۔ متکلم کی درون نفسی کیفیتیں افسانے میںدیکھنے لا ئق ہیں کہ کیسے وہ اپنی نفسی خواہشوں کو کچلتا ہے اور اپنی ریشمی کی خاطر تا عمر اکیلا رہتا ہے ۔ ریشمی کی یادیں اس کے ذہن اور لاشعوری خلیات سے حذف نہیں ہوتی ہیں ۔ وہ ایک ایک بات کو یاد کر کے دہراتا رہتا ہے ۔ زندگی اب اس کے لئے بے معنی ہے ۔ اس کے پاس سوائے پژمردگی اور افسردگی کے کچھ باقی نہیں ۔ ایسانہیں ہے کہ اس موضوع یا اس طرح کے افسانے ہمارے عہد کے افسانہ نگاروں نے نہیں لکھے ہیں ۔ لکھیں ہیں ، مگر مشتاق مہدی نے جس طرز، تکلم اور بیانیہ کے ساتھ یہ افسانہ صفحۂ کاغذ پر اہباط کیا ہے اس سے ایسالگتا ہے کہ ہم با لکل نئے موضوع پر افسانہ پڑھ رہے ہیں ۔ یہ مشتاق مہدی کا فنی اسلوب ہے کہ انھوں نے عام سے موضوع میں بھی جدت و ندرت کا وصف پید اکر دیا ہے ۔ جس کے بین السطور میں فلسفہ کا عنصر بھی در آیا ہے جو قاری کو آخری دم تک باندھے رکھتا ہے ۔ ’’ میرا لال ‘‘ افسانہ جذباتی بھی ہے ، درد انگیز بھی اور عبرت ناک بھی ، رخسانہ اس افسانے کی ہیروئن ہے اور دوسرا کردار خود کہانی کار ہے ۔ رخسانہ کنواری ہی ماں بن جاتی ہے ۔ لیکن اسے پتا نہیں ہے کہ کون میرے بچے کا باپ ہے ۔ کیوں کہ وہ اسکول ماسٹر کو اپنا دل دے بیٹھتی ہے اور اسکول ماسٹر اسے یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے کہ وہ اسے اپنی ماں اور بہن سے ملوانا چاہتا ہے اور پھر وہاں رخسانہ کے ساتھ چار افراد زنا بالجبر کرتے ہیں ۔ اب وہ کیسے کہے کہ وہ بچہ کس کا ہے ۔ گاؤں والے اسے گری ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ کسی نے بھی اس کے دُکھ درد اور اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ کہانی کار جب تھوڑا بڑا ہو تا ہے تو وہ ایک روز رخسانہ سے ملتا ہے اور اس کی روداد سنتا ہے ۔ لیکن کہانی کار کے پاس بھی اس کی بے بسی کا کوئی علاج نہیں ۔ وہ رخسانہ سے ہمدردی تو کرتا ہے مگر حالات کے تئیں وہ بھی مجبور ہے ۔ کہانی کارنے اس افسانے کے توسل سے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ رخسانہ کی طرح محبت کے نام پر نہ جانے کتنی رخسانہ ہوس کا شکار بن جاتی ہیں ۔ یہ ہمارے سماج کا المیہ نہیں تو کیا ہے کہ عورت آج بھی صدیوں کی طرح جنسی استحصال کا شکار ہے ۔ اسے گری ہوئی اور حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جیسے مرد کا کوئی قصور ہی نہیں ۔ وہ کھلے عام عزت دا ربنا گھومتا رہتا ہے ۔ اسے کوئی بد چلن ، آوارہ نہیں کہتا ۔ اس کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آتی ۔ 
’’ شکر بابا ‘‘ افسانہ کے توسل سے افسانہ نگارنے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے تب تک سماج میں اچھے اور برے لوگ رہیں گے ۔ اچھائی کو پرکھنے اور تسلیم کرنے والے لوگ موجود رہیں گے ۔ شکر بابا جو شہر میں مفت شکر تقسیم کرتا ہے اس کا نام شکر بابا پڑجاتا ہے ۔ افسانہ نگار نے شکر بابا کی حر کات و سکنات اور اعمال و افعال کو بڑے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے ۔ وہ لوگوں کے لئے شروع شروع میں معمہ بن جاتا ہے ۔ لوگوں کے درمیان کیوں اور کیا جیسے سولات شکر بابا کے تئیں زبان پر آجاتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ لوگ شکر بابا کے تئیں محبت و احترام کا جذبہ رکھنے لگتے ہیں ۔ مشتا ق مہدی نے لوگوں کے بدلتے ہوئے نظریات کو بڑی ہوش مندی ، فلسفیانہ انداز اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ آپ بھی ان جملوں پر غور فرمائیں : 
’’ سیاست کاروں نے یک زبان ہو کر کہا۔۔۔
’’شکر بابا ۔ انسانیت کا دوست ہے ۔ محبت کا علمبردار ہے ۔ ‘‘
دانشوروں نے اپنے رائے بدل ڈالی تھی ۔۔۔
’’ ایک نیک روح ۔۔۔ ایک مہمان انسان ۔۔۔ ایک دوست ۔۔۔‘‘
بزرگوں نے اپنی آواز ملائی 
’’ ماضی میں بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جو نام کما گئے ہیں ۔ جو سخی تھے سب کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے اور کسی سے کچھ نہ لیتے تھے ۔ ‘‘
جوان حسیناؤں اور عورتوں نے ایک زبان میں کہا
’’ ایک مہربان جوگی ۔۔۔نہ معلوم کس جوگن کا خواب ہے ۔ ‘‘ 
’’ آنگن میں وہ ‘‘ یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں مشتاق مہدی نے علامات و استعارات اور کنایات کے ساتھ پورے انسانی سفر کو افسانے کے روپ میں پیش کر دیا ہے ۔ آدم سے لے کر دورِ حاضر تک کا انسانی تخلیق و سفر کا احاطہ اس شاندار طور سے کیا ہے کہ جس میں سائنسی نقطۂ نظریہ ، شاعرانہ حسن ، افسانویت ، ادبیت اور اسراریت جیسے فنی اوصاف ایک مرکز پر آکر مجتمع ہو گئے ہیں ۔ مشتاق مہدی نے لفظوں کی تہوں میں اسراریت کے ساتھ ڈرامائی انداز بھی اپنایا ہے جس باعث افسانے میں تجسس و تحیر بھی قائم ہو گیا ہے ۔ اگر اس افسانے کو نثری نظم سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ 
’’ مندر کے اندر کا رقص ، کشمکش اور سوچ بورڈ کے نمبر‘‘ یہ تینوں افسانے مشتاق مہدی نے علامتی و استعاراتی انداز میں لکھے ہیں ۔ علامتوں اور استعاروں کے ذریعہ انھوں نے عصری حسیت اور اپنے اندر کی نفسی کشمکش ، اعصابی خلل اور مجادلوں کو پُر اثر انداز میں صفحۂ قرطاس پر متشکل کر دیا ہے ۔ جس میں تجسس و متحیر کن فضا  متضاد Twistنیز متوازن زندگی کے تجربات او رگہرا سیاسی و سماجی شعور بدر جۂ اتم موجود ہے ۔ ساتھ ہی مشتاق مہدی نے اپنے فنی شعور و بصیرت اور دور بینی سے لفظوں ، علامتوں اور استعاروں کی تہوں میں اپنے کرب و درد، رنج و الم ، اور کئی دہائیوں سے ہونے والے ظلم و جبر کو تحلیل کر دیا ہے ۔ متذکرہ تینوں افسانوں میں یہ کیفیت دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہے جس میں مشتاق مہدی کے قلم کی جامعیت ، اسراریت اور معنویت جلوہ گر ہے ۔’ سوچ بورڈ ‘ افسانہ میں تو افسانہ نگار کی وہمی ، خبطی اور التباسی کیفیت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کے پسِ پشت پوشیدہ ہے ایک انجانہ سا خوف ۔ 
’’آخری کتاب ‘‘ مشتاق مہدی کا بہت خوبصورت افسانہ ہے جس میں کتاب کو علامت کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کتاب کو انھوں نے ہندو مسلم نیز مختلف قسم کے طبقات و فرقوں کے طور پر مستعار لیا ہے ۔ جو کوئی بھی شخص کہانی کار سے ملتا ہے وہ اس کو اسی کتاب کا فرد بتاتا ہے جس کا اس کتاب سے تعلق ہے ۔ ایک روز بلوائی اسے گھیر لیتے ہیں اور کہانی کار کو مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ لہذا کہانی کارمختلف فرقوں کے لوگوں کے درمیان گھر جاتا ہے ۔ کہانی کار پر خوف بھی طاری ہے لیکن وہ بڑے شعور و ادراک سے کام لیتا ہے اور جو جملے کہانی کار ادا کرتا ہے ، وہ افسانہ کا نقطۂ عروج بھی ہے، افسانے کی کامیابی کی ضمانت بھی اور مشتاق مہدی کی دور اندیشی اور انسانیت پرستی کاکمال بھی ۔ جملے ملاحظہ فرمائیں: 
’’ ہماری کتاب آدم کی ہے ۔ انسان کی ہے ۔۔۔اور انسان ایک ہے ۔ جیسے ہمارے سر کے اوپر چمکتا ، بھاگتا ہو اوہ سورج ۔۔۔بتاؤ کس ایک کا وہ نہیں ہے ۔ بتاؤ کس ایک کا وہ نہیں ۔۔۔؟ ‘‘
میں کچھ دیر چیختا ۔۔۔چلّا تا رہا ۔ 
کچھ نظریں آسمان کی طرف اُٹھیں پھر یک بیک جھک گئیں ۔ 
کوئی کچھ نہ بولا ۔۔۔ایک ایک کرکے چل دئے !‘‘
فسادات کے اوپر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں مجھے یہاں احمد رشید کا افسانہ ’’ سہما ہو اآدمی ‘‘کی یاد تازہ ہو گئی ہے جس پر حال ہی میں میَں نے گفتگو کی ہے وہی جملے میں یہاں بحوالہ پیش کر رہا ہوں :
’’ احمد رشید نے اپنے اسلوب اور ساختیات سے افسانہ کا تارو پود اس فنی تکنیک سے تیار کیا ہے اور کردار کو اس طرح پیش کیا ہے کہ آخر تک قاری کو یہ پتا نہیںچلتا کہ مرنے والا کس مذہب کا ہے اور مارنے والے ہندو ہیں یا مسلمان ۔۔۔اور قاری افسانہ نویس کی افسانہ بافی ، متوازن فنی رویے ، شعوری دور اندیشی اور متناسب مذہبی رواداری کا قائل ہو جاتا ہے نیز احمد رشید کہانی کو یک رُخی اور مذہبی رنگ میں محلل ہونے سے بچا لیتے ہیں اور افسانہ بلندی کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔‘‘
بالکل یہی کیفیت مشتاق مہدی کی ہے کہ انھوں نے بھی افسانے کو مذہبی رنگ میں محلل ہونے سے بچا لیا ہے ۔ بس فرق اگر ہے تو مشتاق مہدی کے اسلوب اور استنباطی عمل کا ہے کہ انھوں نے بھی’ کتاب ‘استعارہ کے ذریعہ یہ وضاحت نہیں کی کہ کہانی کار اور بلوائی کس دھرم کے تھے میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ فنی وصف ہے کہ جس باعث افسانہ مزید معنویت و اہمیت کا حامل ہو گیا ہے ۔
’’ کوّا‘‘ افسانہ مشتاق مہدی کا خالص نفسیاتی افسانہ ہے ۔ افسانہ کا موضوع تو وہی معمولی سا اور روایتی فکر و تخیل کا نتیجہ ہے مگر مشتاق مہدی نے جس اسلوب اور استعاراتی عمل سے افسانہ کا تا رو پود تیار کیا ہے اس سے افسانہ کی تکنیک اور ہیئت میں تجد دکا وصف نکھر آیا ہے اور انوکھے پن کا بھی احساس ہوتاہے ۔ افسانہ کا موضوع ایک لڑکی ہے اور ایک لڑکا ۔ لڑکی ایک استانی ہے اور لڑکا ایک ڈاکٹر ۔ دونوں کی آنکھ لڑ جاتی ہے ۔ دونوں آنکھوں کی باتوں اور جذبات کو پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں ۔ لیکن یہ قربت صرف ملاقات تک ہی محدود رہتی ہے ۔ بظاہر تو افسانہ معمولی سا دکھائی دیتا ہے مگر مشتاق مہدی نے بین السطور میں جس خوب صورتی اور معنویت کے ساتھ ’کوا ‘ استعارہ کو بظور ’نفسِ امارہ‘ استعمال کیا ہے اس سے افسانہ الگ نوعیت و موضوعیت کا متحمل ہو گیا ہے ۔ ذرا افسانہ کے ان جملوں پر غور فرمائیں : 
’’پہلے پہل میَں نے سوچا ۔۔۔میرا وہم ہے ۔ بھلا مجھ میں ایک آدمی میں کوّے کی کائیں کائیں کیا معنی ۔۔۔لیکن پھر دھیرے دھرے مجھے یقین ہو چلا کہ کہیںنہ کہیں پر کوئی کوّا مجھ میں موجود ہے ضرور ۔۔۔‘‘
اور جب کہانی کار ماضی کے اوراق سے ان پرانے واقعات کویاد کرتا ہے جو اس کے لاشعور ی نہاںخا نوں میں پیوست ہیں جن کا تعلق اُس لڑکی سے تھاجو کبھی اس کے دل پر دستک دے بیٹھی تھی ۔ اب افسانے کے آخری جملے بھی ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ ’کوّا ‘ کس طرح کہانی کار کے آب و گل میں تحلیل ہے :  
’’وہ اُٹھ کے چلی جاتی ہے ۔
کوّے کے شور میں کچھ کمی سی آجا تی ہے ۔۔۔میَں حیران ساہوں۔۔۔یہ کوّا ۔۔۔کون ہے آخر یہ کوّا ۔۔۔‘‘’’یہ کائیں کائیں کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔۔۔تب بھی ایساہی تھا ۔ اب بھی ایساہی ہے ۔۔۔سامنے میرے کوّا خاموشی سے مجھے ٹک ٹک گھو رے جا رہا ہے ۔ ۔۔!‘‘
کہانی کارکوّے کے توسل سے جسے مشتاق مہدی نے اسے بطور ’نفسِ امارہ ‘ مستعار لیا ہے ، یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک کوّا موجود رہتا ہے جو اسے ہر وقت پریشان رکھتا ہے ۔ اس کے نفسی درون بینی عضلات میں سدا ہلچل مچاتا رہتا ہے ۔ جو اپنے گرد و نواح سے مہیج وصول کرتا ہے اور حرام مغز اور نخاع کو متأثر کرتارہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی عام ہوتے ہوئے بھی ’ کوّا ‘ استعارے کے موجب معنی خیز اور خالص نفسیاتی ہو گئی ہے ۔ 
’’جنگل کے قیدی ‘‘ غیر علامتی و استعاراتی افسانہ ہے ۔ مگر کنایتی انداز پورے افسانے میں جلوہ گر ہے ۔ افسانہ نگار نے اشاروں کے سہارے کشمیر کے دردِ نہاں کو بہت جامع انداز میں افسانوی سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔وہ درد جوکئی دہائیوں سے وہ بر داشت کر رہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نویس کے درون اعصابی نظام میں ایک ایسی لہر رواں دواں ہے جو اسے ہر وقت پریشان ، متفکر ، مضمحل ، افسردہ ، اور پژمر دہ رکھتی ہے ۔ جس سے افسانہ نگار کی نفسی کشمکش کا پتا چلتا ہے ۔ افسانہ کا ہیرو ضمیر غائب کے طور پر نمودار ہو اہے جو اور کوئی نہیں خود کہانی کاربہ نفسِ نفیس موجود ہے ۔ ان سب نفسی بحران کے باوجود افسانے کے ہیرو کو یہ کامل یقین ہے کہ وہ ایک دن ضرور آزاد ہوگا ۔ وہ جدھر بھی جاتا ہے چاروں سمتوں میں اسے سرحد کے محافظ دیوار کے اس پار جانے نہیں دیتے ہیں ۔ وہ سرحدوں کو عبور کرنا چاہتا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہو پاتا ۔ 
افسانہ نگار نے اپنی فنی بصیرت ، منضبط قوتِ مشاہدہ ، فہم و ادراک اور توجہ و احساس سے کشمیر میں پیدا شدہ مسائل کو آفاقی نوعیت کا بنا دیا ہے اور شاید اقوامِ متحدہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے بنیادی حقوق کو کب سمجھایا جائے گا ۔نیز اس سیاسی چکر ویوہ سے کب نجات ملے گی ۔ ’’ کہانی ‘‘ افسانہ میں بھی کشمیر کے درد کو افسانے کے فارم میں پیش کیا گیا ہے ۔ کہانی کار دو آدمیوں کی کہانی سناتا ہے ، ووستا اور فاروق احمد کی ۔ووستا اپنی موت مر جاتا ہے مگر فاروق احمد کو فوجی اہل کار بغیر کسی جرم کے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔ جس بے دردی سے اہل کار فاروق احمد کا خون کرتے ہیں اس سے کہانی کار کا دل دہل اُٹھتا ہے ، روح کانپ جاتی ہے ۔ نیز کہانی کار وہ دل دوز، دل سوز اور کربناک منظر تا عمر بھلا نہیں پاتا اور صرف ایک سوال اس کے ذہن پر نقش کر جاتا ہے : 
’’ اس کا قصور کیا تھا۔۔۔؟
کوئی کچھ نہیں کہتا ہے ۔۔۔‘‘
اور پھر ایک معنی خیز اور عالم گیر سطح پر افسانہ ان مختصر جملوں کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے :
’’ ہم سب ۔۔۔کہانیاں ہیں ۔۔۔‘‘
لہٰذا اس مذکورہ جملے میں پوری انسانیت ، پورے کشمیر کا درد سمودیا ہے ۔ بہر کیف قاری ، کہانی کار کی طرح ہکا بکا ششدر و حیران ، سراسیمہ اور پاگل سا ہوجاتا ہے جیساکہ اس کے سوچنے کی طاقت کسی نے سلب کر لی ہو ۔   
مشتاق مہدی کی افسانوی کائنات کو پڑھنے کے بعد یہ تجزیہ کرنے میں دیر نہیں لگتی ہے کہ ان کے افسانہ بافی کا انداز جدت و ندرت کا حامل ہے ۔ وہ عام موضوع کو بھی اپنی سوجھ بوجھ اور تفحص ِ الفاظ ، کنایتی و استعاراتی اور علامتی فکرِ رسا ، تخیل کی پرواز جس میں حقیقی عنصر زیادہ ہوتا ہے کو بھی معنی خیز ، پُر اثر اور سحر انگیز بنا دیتے ہیں ۔ جس میں شامل ہوتی ہے ان کی متجسس و متحیر کن تخلیقی توانائی ، لاشعوری محرکات اور خارجی وداخلی مشاہدہ جو فن پارہ کو اسراریت کی طرف لے جاتا ہے ۔ اور اس اسراریت میں محلل ہوتے ہیں وہ عصری عناصر و مسائل جو مشتاق مہدی کو مضطرب اور نفسی بحران میں مبتلا رکھتے ہیں نیز یہ نفسی بحران فنکار کی ذات سے ایساپیوست ہوتا ہے جس میں آفاقی گونج شامل ہوتی ہے ۔ 
Mob-9023746092
Email- mohdmustamir @gmail.com
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ٹرمپ کے ٹیرف کے سامنے مودی کا جھکنا یقینی: راہل
تازہ ترین
سری نگر پولیس نے ’یو اے پی اے ‘کے تحت 1.5 کروڑ روپے کی جائیداد ضبط کی
تازہ ترین
شری امرناتھ یاترا: بھگوتی نگر بیس کیمپ سے قریب 7 ہزار یاتریوں کا چوتھا قافلہ روانہ
تازہ ترین
گرمائی تعطیلات میں توسیع کی جائے ،پی ڈی پی لیڈر عارف لائیگوروکا مطالبہ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?