Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

مشتاق مہدی ؔکی افسانہ نگاری

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 8, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
10 Min Read
SHARE
کہانی کہنے کی روایت قدیم زمانے سے قائم ہے۔ہندوستان میں وید ،پران اور اپنشدوں میں بے شمار کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔دراصل یہی کہانی کی ابتدائی شکل تھی۔پھر رامائن اور مہا تھارت کی کہانیاں ،نیر کتھا ساگر ،پنچ تنتراور جاتک کتھائوں تک آتے آتے کہانی نے اپنی ایک الگ شناخت بنالی ۔آج ہم جسے مختصر افسانہ کہتے  ہیں یوں تو اس کا موجود فارم ہم نے مغرب سے لیا ہے تاہم ہندوسنانی افسانے کی جڑیں
اسی ابتدائی کہانی کی زمین سے پھوٹی ہیں جو ہزاروں برس پہلے سنسکرت اور پالی ادب میں جنم لے چکی تھیں۔جہاں تک افسانے کا تعلق ہے اس کے خمیر کو زرخیز بنانے میں مختلف ادبی دبستانوں نے اہم رول ادا کیا جن میں دبستان جموں وکشمیر بھی خاص اہمیت کا حامل ہیں۔یہاں کے جو افسانہ نگار اپنے خون جگر سے اس فن کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں،اُن میں جناب مشتاق مہدیؔ بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔جناب مشتاق مہدی ؔکشمیر کے علامتی افسانہ نگاروں میں ایک اہم مقام پر فائز ہیں۔ان کی پہلی کہانی ’’کمینہ ‘‘1974 میں بمبئی قلم سنسار میں شایع ہوئی تھی۔ان کے تخیل کا کنیوس بہت وسیع ہے اورکچھ الگ سا ہے ۔ یعنی وہ ہٹ کرسوچتے ہیں اور اسے افسانے کے کینوس پر اتار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک بہترین فن پارے کی تخلیق ہوجاتی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں ان کا ایک ایسا کہانیوں کا مجموعہ ’’آنگن میں وہ‘‘ کے عنوان منظر عام پر آچکا ہے۔کچھ تو قدرت کے ستم اور کچھ اپنوں کے کرم ہیں، جنہوں نے انہیں کہا نیاں بُننے کے لئے اچھا خاصا مواد  فراہم کیا ہے۔اس ستم وکرم کو مثبت پیرائے میں برتتے ہوئے وہ فکشن نگاری کی ایک نئی دنیا آباد کرتے ہیں۔
مشتاق مہدی ؔکے ابتدائی افسانوں میں سیاسی ،سماجی،تاریخی،ماحولیاتی اور اقتصادی موضوعات کے خدوخال جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کے افسانوں میں انسانی رشتے اور معاشترتی حالات کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔مہدیؔ صاحب مکھوٹوں کو ہٹانے میں مہارت رکھتے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ وہ کردار میں کوئی ایسا پہلو ضرو ر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی روشنی میں انسانی نفس کی مہین پرتوں کو سمجھنا زیادہ آسان ہوجاتا ۔ایسے افسانوں میں’’عبادت‘‘،’’کشمکش‘‘ اور ’’میرا لال‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔  مشتاق مہدیؔ باتوں کو ہمیشہ پوری طرح کھولے کے بجائے کچھ لطیف اشاروں میں اپنی بات کی گہرائی کو پیشکش کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے افسانوں میں ’’رنگ‘‘،’’سویچ بورڑ کے نمبر‘‘،’’ دیوتا‘‘ ،’’نروان ‘‘اور ’’مندر کے اندر کا رقص‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ان کے افسانوں میں خانگی اور معاشرتی رشتوں کے مختلف پہلو،سماجی و سیاسی صورت حال اور اس صورت حال کا افراد کی زندگیوں پر اثر کا ایک بھر پور رجحان ملتا ہے۔کئی افسانوں میں تہذیب و سیاست اور اقدارکے مسائل کو انھوں نے موضوع  بنایا ہے۔مشتاق مہدی ؔکی کہانیوں میں اساطیری اسلوب، جس کا افسانہ نگاریمیں اس وقت کافی چلن ہے ،کا فقدان پایا جاتا ہیں۔ان کی کہانیوں میں کردار کی زبان اور اس کی کلچر ل شناخت کا بہت پاس ولحاظ دکھائی دیتا ہے۔
ان کے افسانوں میں پایا جانے والا احساس عدم تحفظ ،ان سے مخصوص اسلوب بیان کے سبب خوف ،نفرت اور تشکیک کی چہرہ نمائی کرتا ہے اور یوں مشتاق مہدی ؔکے یہاں جانے پہچانے کردار تجریدی اور ماورائی فضا میں سانس لیتے ہوئے زندگی کے وسیع ترتناظر میں سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔افسانہ ’’آنگن میں وہ ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:’’اس کے چہرے کی داڑھی، جو سیاہ تھی۔۔۔سفید ہوتی جارہی ہے۔۔۔اس کا چہرہ، جو زرد تھا۔۔۔گہر ا زرد ہوتا ہوا سوکھا پتا ہوجاتا ہے۔۔۔ اور پھر پتا شاخ سے ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔مٹی میں گم ہوجاتا ہے۔۔۔۔مرجاتا ہے۔۔۔فنا ہوجاتا ہے تو پھر زندہ رہنے والا کون ہے۔۔۔کون ہے؟‘‘(آنگن میں وہ ۔ص نمبر۷۹)۔علاوہ ازیںان کو انسانی رشتوں اور نازک احساسات اور جذبات کوگرفت میں لینے اور موثر انداز میں اپنے افسانوں کے وسیلے سے پیش کرنے کے معاملے میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔نئی شہری زندگی کے مسائل کا انتخاب بھی ان کے یہاں عام افسانہ نگاروں کی طرح کبھی فیشن نہیں بنتا بلکہ تجربے کا حصہ بنا رہتا ہے۔انھوں نے اپنے کہانی ’’پیاسا‘‘میں جس طرح نچلے طبقے کے بعض کرداروں کی نفسیات اور چھوٹی چھوٹی تمنائوں اور خواہشات کی گرہیں کھولی ہیں وہ کسی ناپختہ افسانہ  نگار کے بس کی بات نہیں معلوم ہوتی۔ان کے افسانوں میں اعلی متوسط طبقے کی زندگی کی پیش کش جس طرح ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل معلوم ہوتا ہے،بالکل  اسی طرح ادنی طبقے کے بعض نمائندوں کے  مزاج ،افتاد طبع اور نفسیات کے نازک ترین ارتعاشات کو وہ ایک جنبش قلم سے لسانی گرفت میں لینے کا ہنر جانتے ہیں۔افسانہ ’’پیاسا ‘‘دیکھیں؛’’ابا کی غصیلی طبعیت سے میں بہت ڈرتا ہوں تھا۔ خاندانی وقار اور ذات برادری کے فسانے وہ روز ہی مجھے سمجھاتا رہتا  تھا۔۔اْن کی ان باتوں سے میرا خون کھول اٹھتا تھا۔لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ابا کی کسی ایک بات کا جواب دے سکوں ۔۔ہاں ماں کبھی کبھی میری طرف داری میں ان سے لڑنے بیٹھتی مگر نتیجہ صفر۔۔۔۔‘‘(آنگن میں وہ ۔۔افسانہ۔پیاسا۔ص۔۳۷)۔
نئی صدی کے افسانہ نگاروں نے بالکل نئے مسائل  پر توجہ مرتکز کی ہے۔آج کے ترقی یافتہ عہد میں آلودگی ایک بڑے عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ہوا،پانی اور جنگل دن بہ دن آلودہ ہوتے جاتے رہے ہیں۔ ارضیاتی خصوصیات، جو انسان کی شخصی، معیشی ، تہذیبی اور سائنسی ترقی کی بنیاد رہی ہیں، تیزی کے ساتھ اپنے کوائف تبدیل کررہی ہیں۔ اس آلودگی کے اسباب انسان ساختہ ہیں اور یہی دنیا کی ترقی کو گرہن لگا رہا ہے۔ہمارے افسانہ گاروںنے اس مسئلے کی طرف خاص توجہ مرکز کی ہے، اُن میں مشتاق مہدی ؔبھی شامل ہیں۔افسانہ ’’جنگل کے قیدے ‘‘میں مشتاق مہدی ؔنے جنگلاتکی تباہی کے توسط سے ماحولیات کی تباہی پر بحث کی ہے۔ کہانی میں ایک بزرگ اور ایک محافظ یعنی دو کردار ہیں۔کہانی علامتی انداز میں بیان کی گئی ہے۔افسانہ ’’جنگل کے قیدے ‘‘سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:’’موسم دن بہ دن بے ڈھڑکن ہورہے ہیں۔خوشبو ئیں کوئی چور چرارہا ہے ،ہوائیں زہریلی ہوگئی ہیں۔اور سارے پھول ،سارے پتے اپنا رنگ کھو چکے ہیں‘‘۔تو ہم کیا کریں؟بزرگ نے روکھی ہوئی آواز میں کہا ’’ہونی ہو کر رہتی ہے’’۔۔۔’’ہمیں اس جنگل کو تباہی سے بچانا چاہے‘‘ (آنگن میں وہ ۔۔افسانہ۔جنگل کے قیدے۔ص۔ ۱۲۲)۔آج کا دور عجیب بے حسی کا دور ہے۔بے مروتی اور ابن الوقتی کا طوطی سر چڑھ کربول رہا ہے۔چاروں طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔صنعتی انقلاب کے باعث جہاں بے شمار ترقی کے در کھلے ہیں وہیں روایات اور اعلی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ایک ہی شہر اور ایک ہی گائوں میں رہتے ہوئے فرد جس تنہائی اور گھٹن کا شکار ہو رہے ہیں اس کی نہایت سفاک عکاسی مشتاق مہدی کا افسانہ ’’شکر بابا‘‘کرتا ہے۔بظاہر ترقی کی ساری منزلیں طے ہوگئیں ،آرام و آسائش کے سارے وسیلے حاصل ہو گئے ،لیکن انسان ،انسان سے دور ہوگیا۔افسانہ ’’شکر بابا‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:’’اور بچے۔۔۔جو پہلے ڈرتے تھے اس سے ۔۔اب اس کے قریب ہی ہنستے مسکراتے اپنے لڑکپن کے کھیل(کاٹ شاہی بم۔۔بم شاہی کاٹ )کھیلتے ہوئے نظر آتے۔۔او ر شکر بابا بھی ان کے ساتھ گھل مل جاتا تھا۔ان کی سنتااور پھر اپنا وہی مخصوص گیت گنگنا اٹھتا۔۔۔لے لو شکر میٹھی شکر‘‘۔(آنگن میں وہ ۔۔افسانہ۔شکر بابا۔ص۔۴۸)  
الغرض  زبان وبیان کی خوبصورتی بھی ان کی افسانہ نگاری کا ایک خاص وصف ہے۔بقول پروفیسر حامدی کشمیری : وہ (مشتاق مہدی) افسانوی دنیا میں اپنے فائدے کی باریکی ،نفسیاتی کوائف اور فضا سازی میں کسی گراں باری سے نہیں بلکہ برجستگی سے نموپزیر ہوتے ہیں یعنی اپنے اسلوب گفتار اور عمل اور رد عمل کو مربوط،رواں اور منضبط ارتقائی صورت میں پیش ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے تجربات کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں سریلے انداز میں  رمزدے کرہی ابھارتے ہیں ۔اسی طرح سے ان کے افسانے پامال شدہ حقیت کی نذر ہوتے ‘‘(آنگن میں وہ ۔۔ص۔۶)  ۔خصوصا 1990 کے بعد لکھئے گئے ان کے افسانے خوبصورت زبان کے افسانے بن گئے ہیں اور بیان کا لہجہ بے حد رومانی ہوگیا ہے، جس کے باعث افسانوں کے مطالعاتی وصف میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی مثال ان کے افسانوں ،کہانی،میرے دوست اورکواّ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مختصرً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے موضوعات اور اسالیب کی رنگارنگی سے دبستان جموں و کشمیر میںمشتاق مہدی ؔاپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔
رابطہ ؛ رعناواری سرینگر: نمبر:9103654553
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

فیفا کلب ورلڈ کپ پیڈرو کے ڈبل سے چیلسی فائنل میں
سپورٹس
شبھمن گل کی ٹیسٹ رینکنگ میں بڑی چھلانگ
سپورٹس
کپواڑہ میں حزب کمانڈر کی جائیداد قرق: پولیس
تازہ ترین
صدرِ جمہوریہ نے لداخ ایل جی کو ’گروپ اے‘سول سروس عہدوں پرتقرری کا اختیار دیا چیف سیکرٹری اور ڈی جی پی کی تقرری کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری بدستور لازمی
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?