خواجہ کریم جُو کے کارندے رسی اور آرا لے کر ایک بڑےچنار کے درخت کو کاٹنے کی تیاری میں تھے اور خواجہ صاحب دُور کرسی پر براجمان یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔ اُنہوں نے کھڑے ہوکر سگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر پیڑ کے سراپا کا جائزہ لیا۔ تنے سے ہوتے ہوئے ان کی نظر اوپر جاکر دفعتاً رُک گئی اور اُن کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔،، ٹھہروووووووووو۔۔۔۔! درخت کے تنے پر چلتا ہوا آرا یکدم تھم گیا۔ پھر ان کی نگاہیں تنے کے کھوکھلے حصے پر جم گئيں۔ اُنہیں محسوس ہوا کہ ضرور یہ کسی کی پناہ گا ہے وہ ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھتے ہوئے ماضی میں پہنچ گئی ۔۔۔،،
اُس دن صُبح کے ساڑھے دس بجے جب خواجہ صاحب کی آنکھ کھلی تو اُنہوں نے حسبِ معمول کھڑکی سے باہر کا نظارہ کیا، اُنہوں نے اپنی آنکھیں مل کر دوبارہ باہر جھانکا تو وہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ مکان کا پورا لان چنار کے ذرد پتوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگے رات کو جب وہ سوئے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اُن کے قدم کمرے کے فرش پر خراماں خراماں اُٹھنے لگے پھر سر کو جھٹک کر اُنہوں نے سوچا ہو سکتا ہے آدھی رات کے بعد زور کی آندھی چلی ہو اور چنار کے پتے اُڑ کر ادھر آ گئے ہوں اُنہوں نے کال بیل بجائی تو ملازم دروازے سے داخل ہوا ۔۔۔،، جی صاحب ؟
سنو ! . تم تو رات دیر تک موبائل پر مصروف رہتے ہو ، رات کو آندھی وغیرہ چلی تھی کیا ؟ صاحب جی! جب تک میں جاگ رہا تھا تب تک تو نہیں چلی اُس کے بعد چلی ہو تو پتہ نہیں ۔۔۔۔،،
ویسے رات کو کتنے بجے سوئے تھے تم ؟خواجہ صاحب نے موبائیل پر انگلی سے حرکت کرتے ہوئے دریافت کیا ،، جی یہی کوئی اڑھائی بجے ۔۔۔
کیا ؟؟؟ خواجہ صاحب کا منہ حیرت سے کُھلا رہ گیا ۔۔۔انہوں نے بالوں میں انگلیاں ڈالتے ہوئے کہا ، ٹھیک ہے تم چائے لے کر آؤ ۔ ملازم کمرے سے جب نکل گیا تو خواجہ صاحب ایک مرتبہ پھر کھڑکی کے پاس پہنچے تو باہر کی طرف دیکھ کر اُن کا ماتھا پھر ٹھنکا ،،یہ کیا جون کے مہینے میں ذرد پتے ؟؟؟
یہ معاملہ کیا ہے ؟ کہیں ہمسایہ نے تو نہیں……. نہیں نہیں وہ اتنے سارے ذرد پتے کہاں سے لائے گا ،،اتنے میں ملازم چائے لے کر آیا تو خواجہ صاحب اُس سے مخاطب ہوئے ، ہمارے لان میں یہ ذرد پتے کیسے آئے ؟ تمہیں کچھ معلوم ہے ؟ زدر پتے سُن کر ملازم نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو بولا۔۔۔ نہیں صاحب جی! میں تو پہلی بار بہار کے موسم میں ذرد پتے دیکھ رہا ہوں ،معلوم نہیں کہاں سے آئے اور پھر مکان کے آس پاس کوئی چنار بھی نہیں ہے ۔۔۔۔،اچھا ٹھیک ہے ایک آدمی کو لے آؤ اور ان کو سمیٹ کر سڑک پر رکھے کوڑے دان میں ڈال دو ۔۔۔،،ٹھیک ہے صاحب جی ،کہہ کر ملازم باہر نکل گیا تو خواجہ صاحب گہری سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے ۔۔۔۔،،
خواجہ صاحب جنگلات کے بہت بڑے ٹھیکیدار تھے۔ شہر میں کئی جگہوں پر اُن کے تعمیراتی لکڑی کے بڑے بڑے ڈیپو تھے۔ گزشتہ کئی روز سے اُن کے ساتھ عجیب وغریب واقعات پیش آ رہے تھے، شہر کے ایک ڈیپو میں اچانک آگ نمودار ہوئی اور آناً فاناً لاکھوں کی شہتیریں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ دوسرے ڈیپو میں موجود لکڑی سیلن لگنے سے مٹی کا ڈھیر بن گئی اور اب یہ عجیب واقعہ کہ اُن کے لان میں یہ ذرد پتے، اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔،،
ڈرائیور نے کار نکالی تو خواجہ صاحب اُس میں بیٹھ کر متعلقہ محکمہ کے آفس پہنچ گئے۔ آج انہیں وہاں سے اخروٹ کے درختوں کو کاٹنے کا اجازت نامہ حاصل کرنا تھا۔ بڑی کوششوں کے بعد وہ بڑے افسر کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوئے تھے، وہ بھی پورے دولاکھ دے کر ۔دولاکھ ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی بھی تو کروڑوں کی تھی ۔ انہوں نے پہلے ہی منصوبہ بنا رکھا تھا کہ سوکھے درختوں کے ساتھ ساتھ ہرے درختوں کو بھی آرا پروس دیں گے ۔۔۔،، شام کو گھر پہنچے تو دیکھا بیوی اور دونوں بچے بحرین سے چُھٹیاں گزارنے یہاں پہنچ گئے ہیں اور لان میں کرسیوں پر براجمان ہیں ۔انہوں نے شکر کیا کہ لان سے پتے اُٹھوا دیئے تھے کیونکہ اُن کی بیگم کافی صفائی پسند تھی۔ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سب اندر ڈائنگ ہال میں چلے آئے ،کھانے سے فارغ ہوکر سارے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ رات دیر تک ٹیلی ویژن پر ڈرامہ دیکھنے کے بعد سب اپنی اپنی خوابگاه میں سو گئے ۔۔۔،،
فجر کی اذان فضاء میں گونجتے ہی خواجہ صاحب نے کروٹ بدلی تو اُن کے کانوں میں چڑیوں کی دھیمی دھیمی چہچہاہٹ گونجنے لگی۔ وہ پریشانی کے عالم میں اُٹھ کر بیٹھ گئے اور ہمہ تن گوش سُننے لگے ،آواز مزید بڑھنے لگی اور پھر رفتہ رفتہ یہ آواز چیل، کوؤں اور چمگادڑوں کی آواز میں تبدیل ہو گئی اور اس شور سے اس کی بیوی بچے بھی جاگ گئے ۔جب سے خواجہ صاحب اس شہر میں آئے تھے اُنہوں نے تو کوئی چڑیا دیکھی بھی نہیں تھی، چہچہاہٹ کی تو بات ہی نہیں ۔شور سے ان سب کے کان پھٹنے لگے تو وہ اپنے کانوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر زور سے چلائے اُف۔۔۔۔او۔۔۔۔کیا مصیبت ہے ؟ یہ بلائیں کہاں سے ہمارے گھر میں داخل ہو گئیں ۔ یہ تمام پرندے جب پورے مکان میں اُڑانیں بھرنے لگے تو انہیں بہت زیادہ غصہ آنے لگا تھا۔چیل اور کوؤں کی کچھ چونچیں بچوں کے سروں پر پڑیں تو وہ زور زور سے چلانے لگے ۔ پھرملازم گارڈز اور وہ سب لوگ ہش ہش کر کے چڑیوں ،چیل اور کوؤں کو کھڑکیوں سے باہر نکالنے لگے۔ کافی مشقت کے بعد وہ انہیں باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے ۔۔۔،، سارا اندروں پرندوں کی بیٹوں سے بھر چکا تھا ۔۔۔۔،سنو جی یہ کیا ماجرا ہے ؟ بچے یہاں اینجوائے کرنے آئے تھے اور یہاں یہ تماشہ ؟ بیگم نے ناک کو دوپٹے سے ڈھکتے ہوئے کہا،،خواجہ صاحب جو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھے تھے بولے ،میری سمجھ میں خود نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ،پھر انہوں نے گزشتہ دنوں ہونے والے تمام واقعات سنائے تو بیوی خوفزدہ ہو کر بولی ،، نہیں نہیں ہم ایسے ماحول میں نہیں رہ سکتے، ہمارے واپس جانے کا بندوبست کردو۔۔۔۔اری بیگم ڈرنے والی کوئی بات نہیں میں آج ہی آفس سے دو گارڈ بلا لوں گا تم فکر مت کرو ۔۔۔۔،،
پھر خواجہ کریم جُو کے ٹمبر لینڈ سے دو گارڈ اُن کے عالیشان بنگلے پر تعینات کردیئے گئے ،بیوی بچے خوش تھے کہ اب وہ یہاں چُھٹیاں آرام سے گزار سکیں گے اور کئی روز آرام سے گزرے۔ وہ صبح صحت افزاء مقامات کے لئے نکل جاتے اور رات گئے واپس آتے ،گارڈ بنگلے کے ادر گردمُسلسل گشت لگاتے رہتے۔ ایک صبح جب وہ دیر تک نہیں جاگے تو ملازم پریشانی کے عالم میں اُن کے بیڈ روم کا دروازہ زور زور سے پیٹنے لگا۔ خواجہ صاحب کی آنکھ تو کھلی لیکن اُن کے جسم میں کھڑا ہونے کی سکت نہیں تھی۔ انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے ان کی زبردست پٹائی کی ہے بدن پر بظاہر کوئی چوٹ تو نہیں تھی لیکن جسم بُری طرح ٹوٹ رہا تھا۔ انہوں نے بیوی کو ہلا کر جگایا تو اس کی بھی یہی حالت تھی۔ بمشکل انہوں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور لڑکھڑاتے ہوئے بچوں کے کمروں کے دروازوں پر دستک دینے لگے۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا تو وہ بھی یہی شکایت کرنے لگے۔ خواجہ صاحب نے گارڈز سے اس بابت پوچھ تاچھ کی لیکن بےسود ۔۔۔انہوں نے پوری طرح حواس سنبھلالے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں سے چنار کے درخت کی بڑی بڑی شاخیں اند داخل ہو گئیں ہیں۔۔۔یہ کیا ہمارے صحن میں تو چنار کا کوئی درخت تھا ہی نہیں پھر یہ شاخیں ؟؟؟؟ خوف سے اُن کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے ۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ضرور اس مکان پر کسی آسیب کا سایہ ہے کیونکہ زیادہ تر یہ مکان بند ہی رہتا تھا۔ گھر کے باقی افراد نے تو جیسے بہت شراب پی رکھی تھی، وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے تو لڑکھڑا کر گر جاتے۔۔۔،ابھی وہ اس کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کیا جائے اچانک ایک بہت بڑی شاخ دھڑام سے مکان کی چھت پر آگری، جس سے چھت دھنس گئی اُن کی چیخیں نکل گئیں اور وہ دور بھاگ گئے ۔۔۔۔۔کون ہے کون ہے ؟ گارڈز گارڈز ،وہ زور زور سے چلانے لگا،،
ہاہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔بلاؤ کس کو بلانا ہے ؟
ایک پُراسرار آواز اُن کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔۔
کون ہو ۔۔۔۔کون ہو تم وہ تھر تھر کانپتے ہوئے بولے۔۔۔۔،،
مجھے بے گھر کر کے خود سکون سے اس عالیشان بنگلے میں بس رہے ہو، میں تمہارا چین اور سکون چھین لوں گی۔۔۔!
کون ۔۔۔۔۔کون۔۔۔کون ہو تم؟؟؟
میں نے تمہیں بے گھر کیسے کیا؟
یاد کرو وہ ڈیڑھ سو سالہ چنار جس کو تم نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے کارخانے میں پہنچا دیا ۔۔۔۔اُس میں میرے آباو اجداد پچھلی کئی دہائیوں سے رہتے تھے اور تم نے ایک ہی دن میں اس کا کام تمام کردیا ۔۔۔۔تمہارے گھر کو معمولی سی زک کیا پہنچی تو تم تلملا اُٹھے ،میرے جسم پر تمہارے کارندوں سے برسائے جانے والے کلہاڑے کے وار یاد کرو۔۔۔ ہو ہوہو ہاہا۔۔۔،،
ذرا آہستہ بولو میرے بچے ڈرجائیں گے! تمہارے بچے! ہا ہا ہاہا……..
تمہارے بچے فرشتے ہیں اور ہمارے بچے کیڑے مکوڑے ؟ تمہیں اس بات کا احساس ہے کہ اُس چنار پہ کتنے پرندوں کے مسکن تھے،جنہیں تم نے بے گھر کردیا۔۔۔،، اب وہ کہاں رہیں گے ؟ نہ جانے تم نے دولت کی لالچ میں ایسے کتنے چنار کاٹ ڈالے ہیں، میری طرح کتنوں کو بے گھر کر دیا ہے،،، اُس چنار نے تمہارا کیا بگاڑا تھا وہ تو تمہارے شہر کی رونق تھا، شان تھا ،، تمہاری میراث تھا،وہ فقط ایک چنار کا درخت نہیں ایک تاریخ تھا ،ایک شاخت،ایک پہچان تھا،.، پھر بھی تمہیں اُس پر ترس نہیں آیا؟
وہ وہ چنار اب بہت پرانا اور بوسیدہ ہو چکا تھا اسی لئے متعلقہ محکمہ نے اُسے کاٹنے کے لئے کہا _،، نہیں ……تم نے رشوت کے دم پر ایسا کروایا _اگر تمہارے والدین معمر اور ناتواں ہو جائیں توکیا تم اُن کوبھی زندہ قبر میں اتار دو گے؟ جواب دو…! گرجدار آواز پر اُسے زور دار جھٹکا لگا…. لیکن. ……..!
لیکن ویکن کچھ نہیں ، اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔۔۔۔،آواز کمرے میں گونج رہی تھی، وہ دونوں ہاتھ جوڑے آواز کے آگے گڑ گڑا رہا تھا،، مجھے معاف کر دو ۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔!
نہیں اس جرم کی کوئی معافی نہیں ہے، کیا تم مجھے میرا مسکن واپس دے سکتے ہو؟
کیا تم ان پرندوں کو اُن کے آشیانے واپس لوٹا سکتے ہو؟
کیا تم اُس چنار کے ساتھ جڑے میرے جذبات واپس دے سکتے ہو ؟
انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ تمہیں بھی بے گھر کردیا جائے تاکہ تمہیں بے گھر وں کی تکلیفوں کا احساس ہو ۔
مجھ پر رحم کرو …! میں بہت شرمندہ ہوں خواجہ صاحب کی گھگھی بندھ گئی۔۔۔۔،،
فکر مت کرو میں اتنی بے رحم نہیں ہوں،میں تمہیں زندہ رہنے کا موقعہ ضرور دونگی ۔۔۔،، سنو! اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنے عیال کو لے کر اس مکان سے باہر نکل جاؤ،،،، نہیں نہیں ایسا ظلم مت کرو! میں نے پائی پائی جوڑ کر یہ بنگلہ بنایا ہے۔
اُن پرندوں نے بھی تو تنکا تنکا جوڑ کر آشیانے بنائے تھے، تم نے اُن کا خیال کیا ؟ تمہارے اندر ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔تم بے حس لالچی اور خود غرض شخص ہو۔۔۔۔! چلو جلدی کرو نکل جاؤ یہاں سے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
اب یہی بنگلہ میرا اور ان بے گھر پرندوں کا مسکن ہوگا ۔۔۔۔۔۔ہُو ہُو ہا ہا ہا ہا ہا
پرندوں کی بات تو سمجھ میں آئی لیکن تم کون ہو؟ جو تم اُس چنار میں رہتے تھے ؟ اُس نے ہانپتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
میں۔۔۔!
ہاہاہا ہا …..میں اُس چنار کی روح ہوں جس کو بے گھر کرنے میں تم نے ذرا بھی ترس نہیں کھایا۔۔۔،،
روح کا نام سُن کر اُس کے ہوش اُڑ گئے اب اُسے یقین ہوگیا تھا کہ گزشتہ دنوں پیش آنے والے تمام واقعات کی وجہ یہی روح ہے۔۔۔۔۔۔جلدی کرو جلدی ۔۔۔۔۔۔۔! نکل جاؤ ۔۔۔۔!
میں اس وقت عیال کو لے کر کہاں جاؤں گا؟ مجھے کچھ معلوم نہیں ۔۔۔۔،، چنار کو کاٹتے وقت تم نے ہم سے پوچھا تھا کیا ؟ مجھے میرا گھر چاہئے بس۔۔۔۔ پھر کڑکڑاہٹ کی ایک زبردست آواز فضا میں گونجی اور دیکھتے ہی دیکھتے بنگلے کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا چنار نمودار ہو گیا اور تمام پرندے اُس کی ٹہنیوں پر چہچہانے لگے اور پھر ایک زور دار دھماکے کے ساتھ بنگلہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ۔۔۔اور فضا میں دیر تک آواز گونجتی رہی ہُو ہُو ہاہاہاہا۔۔۔۔‘‘
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر :- 9622937142