یو این آئی
نئی دہلی//آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل پرگزشتہ کئی روز سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج جاری ہے۔ اس ضمن میں مغربی بنگال، جھارکھنڈ، تریپورا جنوبی ہند کے متعدد اضلاع میں مسلمانوں نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔مرکزی حکومت کے وقف ترمیمی بل کے خلاف اقلیتی حقوق فورم کی قیادت میں آج جھارکھنڈ کے گڑھوا ضلع ہیڈکوارٹر پر ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مسلم کمیونٹی کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پرامن جلوس نکالکرمرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔ اس دوران سابق وزیر متھلیش ٹھاکر بھی مظاہرین کے ساتھ موجود تھے۔مظاہرین نے ماجھیاں موڑ سے ٹان ہال گرانڈ تک مارچ کیا، جہاں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اجلاس میں مقررین نے مرکزی حکومت پر اقلیتوں کے مذہبی اور تاریخی حقوق کو کچلنے کا الزام لگایا۔سابق وزیر متھلیش ٹھاکر نے زور دے کر کہا’’مسلم سماج کو وقف املاک پر آئینی حقوق حاصل ہیں۔ اس بل کے ذریعے حکومت آئین کے اصولوں کو تباہ کر رہی ہے‘‘۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بل واپس نہ لیا گیا تو تحریک ملک گیر شکل اختیار کر سکتی ہے۔مغربی بنگال میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مظا ہروں میں پرتشدد کارروائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی ممتا بنرجی نے ریاست کے شہریوں کو امن کا پیغام دیتے ہوئے آج ہفتہ کی سہ پہر سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ریاستی حکومت ‘اس قانون کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ یہ بنگال میں نافذنہیں ہوگا۔ پھر تشدد کیوں؟ ممتا بنرجی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ تشدد بھڑکانے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔وزیر اعلی نے اپنی پوسٹ میں لکھاکہ لیکن ہم نے وہ قانون نہیں بنایا۔ یہ قانون مرکزی حکومت نے بنایا تھا ۔لہذا جو جواب ہم چاہتے ہیں اسے مرکزی حکومت سے طلب کرنا پڑے گا۔” وزیراعلی نے سیاسی جماعتوں کی سازش کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے لکھا، کچھ سیاسی جماعتیں سیاسی فائدے کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ میرے خیال میں مذہب کا مطلب انسانیت، مہربانی، تہذیب اور ہم آہنگی ہے۔
سب لوگ، امن اور ہم آہنگی برقرار رکھیں- یہ میری اپیل ہے‘‘۔ممتا کا پیغام عام ہونے سے کچھ دیر قبل ریاستی پولیس کے ڈی جی راجیو کمار اور اے ڈی جی (قانون و نظم) جاوید شمیم نے بھی ریاست کے لوگوں سے افواہوں پر دھیان نہ دینے کی اپیل کی تھی۔ جاوید نے یہ بھی بتایا کہ مختلف جگہوں پر افواہیں پھیلائی جارہی رہی ہیں۔ وزیر اعلی کی طرح پولیس سربراہوں نے بھی کہا ہے کہ بھڑکانے والوں کی شناخت کر کے انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔کرشن نگر سے ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا بل کے قانون بننے کے بعد سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے والی پہلی غیر مسلم خاتون بن گئی ہیں۔دریں اثنا ترمیم شدہ وقف قوانین کے خلاف احتجاج اور تحریکوں نے مرشدآباد ضلع کے مختلف حصوں میں حالات کشیدہ کردئیے ہیں ۔ جمعہ (11اپریل 2025) کو سوتی اور شمشیر گنج میں تشدد کے واقعات میںبسوں اور ایمبولینسوں کو جلا دیا گیا تھا، اسی طرح مظاہرین کے ایک حصے پر ضلع میں ایک کے بعد ایک ریلوے اسٹیشن پر تباہی مچانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ریلوے کی جانب سے ان کی املاک کی توڑ پھوڑ کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے اس معاملے کی مذمت کرتے ہوئے آج سنیچر کو ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہاکہ وقف قوانین کے خلاف احتجاج کے نام پر ریلوے املاک کو تباہ کیا جانا قابل مذمت ہے۔ انہوں نیکہا کہ میں نے پہلے ہی وزیر ریلوے اشونی بشنوئی کو اس سلسلے میں ایک خط بھیجا ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریلوے املاک کو نقصان پہنچانے کے تمام معاملات کو ایک ساتھ لایا جائے اور قومی تحقیقاتی ایجنسی – این آئی اے سے تحقیقات کرائی جائیں۔ممتا بنرجی کے کابینہ وزیر فرہادحکیم نے آج متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ بنگال میں ترنمول کانگریس اقتدار میں نہیں آنے کی صورت میں وقف ایکٹ نافذ ہو جائے گا۔ مرکزی مداخلت بھی بڑھے گی۔ اس طرح کے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے تشدد زدہ علاقوں میں امن بحال کرنے کی اپیل کی۔ریاستی وزیر اور کلکتہ کے میئر فرہاد حکیم ہفتہ اسمبلی میں مرحوم سیاستدان رزاق مولا کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ وہاں ایک سوال کے جواب میں فرہاد نے کہا کہ اگر ترنمول نہیں ہے تو وقف موثر ہو جائے گا۔ اور اگر آپ بدامنی پھیلاتے ہیں تو مرکزی حکومت مداخلت کرے گی۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ اور وزیر اعلی نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ تو یہاں احتجاج کرنے کا کیا فائدہ؟” انہوں نے مزید کہا کہ بنگال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سرزمین ہے۔” یہاں کوئی بھی گولیاں نہیں چلاتا، اور بلڈوزر کی سیاست نہیں ہوتی ہے۔ یہاں ادھر ادھر کودنا بی جے پی کے اکسانے کے برابر ہے۔ جو لوگ بدامنی پھیلا رہے ہیں وہ دراصل بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔کلکتہ کے میئر نے خبردار کیا کہ یوگی کی ریاست میں جاکر احتجاج کریں۔ اگر ہم یہاں احتجاج کریں گے تو کیا ہوگا؟ مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔ ہم سب یہاں امن سے رہتے ہیں۔ یہاں کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں سڑکوں پر نکل کر کسی کو نقصان پہنچانے کا مطلب ہے بی جے پی کے ووٹوں میں اضافہ۔ سڑکوں پر نہ نکلیں اور غنڈے نہ بنیں۔” انہوں نے یہ بھی کہا، “مغربی بنگال حکومت اس بات کا خیال رکھے گی کہ ہر اس شخص کو معاوضہ ملے جس نے نقصان اٹھایا ہے۔” سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی بنگال میں امن برقرار رہنا چاہئے۔دریں اثنا کلکتہ ہائی کورٹ نے مرشد آباد واقعہ میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔ اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے ریاست کے کئی حصوں میں بدامنی کا الزام لگاتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ جسٹس سومین سین اور جسٹس راجہ باسو چودھری کی خصوصی ڈویژن بنچ نے ہفتہ کو اس کیس کی سماعت کی۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔شوبھندو ادھیکاری نے ریاست کے چار اضلاع (مرشد آباد، ہگلی، شمالی 24 پرگنہ اور کلکتہ) میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کی درخواست کی۔ ریاست کے وکیل نے شروع میں اعتراض کیا۔ ریاست نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ ڈی جی آف پولیس راجیو کمار پہلے ہی مرشد آباد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔تریپورہ میں ضلع انوکوٹی کے کیلاشہر قصبے کی سرحد سے متصل کبجھار گاں میں حالیہ منظور شدہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف مظاہرین کی ریلی میں ہفتہ کے روز مظاہرین پر لاٹھی چارج کے دوران دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔پولیس افسر نے کہا کہ ان کی ٹیم کو پرتشدد مظاہرین کے ایک گروپ پر اس وقت لاٹھی چارج کرنا پڑا جب انہوں نے کیلاشہر قصبے میں داخل ہونے کے لیے حفاظتی رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ مظاہرین نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کچھ دکانوں اور سرکاری املاک میں توڑ پھوڑ بھی کی۔واضح رہے کہ سینکڑوں مسلم مردوں اور عورتوں نے تلبازار سے مارچ کیا۔ پولیس نے کہا کہ مظاہرین نے فرقہ وارانہ نعرے لگائے اور وقف (ترمیمی) ایکٹ کو منسوخ کرنے اور ہندوستان میں مسلم برادری کو پرامن رہنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ریلی کے مقام کے نزدیک چوراہے پر پہنچنے کے بعد، مظاہرین کے ایک گروپ نے حفاظتی رکاوٹ کو توڑنے کی کوشش کی، اس دوران چند پرتشدد مظاہرین کی پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی ہوگئی۔ پولس نے بتایا کہ ایک جگہ پر انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر اینٹ پھینک دی جس سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے کہا، “صورتحال پر قابو پانے اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے، ہم نے ہلکی طاقت کا استعمال کیا اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، لیکن کوئی بھی شخص شدید زخمی نہیں ہوا۔ کشیدگی کو کم کرنے اور حالات کو پرسکون کرنے کے لیے علاقے میں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جنوبی ہند کے ساتھ متعدد ریاستوں میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔