ہر دور میں اسلام دشمن طاقتیں ہمارے یہاں بھی ملی اتحاد کو کمزور کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ بابری مسجد کی تحریک عروج پر تھی۔ ہندوستان کے تمام مسلمان متحد تھے۔ اجتماعی قیادت تھی جن کی ایک آواز پر کروڑوں مسلمان ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار تھے مگر کیا ہوا! بابری مسجد تحریک کو رابطہ کمیٹی اور ایکشن کمیٹی میں تقسیم کردیا گیا۔ قیادت منتشر اور قوم بے سمت‘ اور پھر یونہی 26برس گذر گئے۔ بابری مسجد تحریک کیوں ٹوٹی؟ کیوں تقسیم ہوئی؟ اس کا جواب کون دے گا؟ بیشتر تو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور یقینا ان سے اس کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث اور عملی طور پر خدمات انجام دینے والے ہر اُس ادارہ اور جماعت کو کمزور کرنے کے لئے اُسی ادارہ اور جماعت کے کمزور مگر فتنہ پرور اور مفاد پرست عناصر کو اپنا آلہ کار بناتی رہی ہیں۔ اس کی مثال جمعیۃ العلمائے ہند ہے جو ایک ہی خاندان کے دو افراد میں تقسیم ہوگئی۔ جب یہ جماعتیں ملی اتحاد کا دعویٰ کرتی ہیں تو ہمارے مخالفین ہمارا مذاق اڑاتے ہوئے ہم سے سوال کرتے ہیں کہ بھلا ایک خاندان اپنے آپ کو متحد نہیں رکھ سکا تو یہ خاندان ملت کو متحد کیسے رکھ سکے گا؟ ہمارے پاس فی ا لحال اس کا کوئی جواب نہیں ہے ہم یہی سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں کہ بھلے ہی جمعیۃ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تاہم دونوں گروہ اپنے اپنے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کم از کم یہ آپس میں ایک دوسرے کی کردارکشی یا ہجو میں مشغول نہیں ہیں۔ ایک اور مثال تبلیغی جماعت کی ہے۔ حالیہ عرصہ تک تبلیغی جماعت بے لوث خدمت گذاران دین کی جماعت تصور کی جاتی تھی جو ایک امیر کے تحت مقامی صوبائی اور قومی اور بعض اوقات بیرونی ممالک میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لئے دین حق کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ گائوں گائوں، چپہ چپہ ان کی خدمات کا گواہ ہے۔ منکران ختم نبوت ہو یا مسلمانوں کی شدھی کرن کا معاملہ‘ تبلیغی جماعت نے صرف اللہ کی رضا کے لئے جو کام کیا اس کا ثبوت دیہی علاقوں میں مساجد، مدارس اور وہاں کا تھوڑا بہت ہی سہی دینی ماحول ہے۔ تاہم تبلیغی جماعت کو بھی اسلام دشمن طاقتوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ جماعت میں امارت کی جگہ خاندانی جانشینی آگئی۔ جس طرح خلافت کو بادشاہت نے ختم کیا اور جس کے ساتھ مسلمانوں کا زوال شروع ہوا ،اسی طرح تبلیغی جماعت کے داخلی انتشار اور گروپ بندیوں کی وجہ سے اس جماعت کا وقار اور ملی ا عتماد آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے۔ عام مسلمان یہ سمجھ نہیں پارہا ہے کہ یہ انتشار دراصل اُن طاقتوں کا پیدا کیا ہوا ہے جو مسلمانوں کو منظم، متحد دیکھنا نہیں چاہتی ہیں۔ مسلم اداروں میں انتشار پیدا کرنے کی سازشوں کی‘ اب مسلم پرسنل لاء بورڈ کو توڑنے کی کوشش بھی کی گئی اور کی جاری ہے۔ افسوس کہ انہیں بڑی آسانی سے اس کے لئے ایک آلہ کار مل گیا۔ نقوی، رضوی جیسے عناصر کو چوں کہ مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک یا فرقہ سے کیوں نہ ہوں‘ خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی انہیں اپنی صف میں شامل سمجھتے ہیں۔ اس لئے اسلام دشمن طاقتوں نے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا جس کا مسلمانوں کے طبقے میں مقام بھی ہو۔ وہ کامیاب ہوئے کیوں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے موقع پر جبکہ ساری دنیا ارباب اقتدار بلکہ عدلیہ کی نظر اور توجہ بورڈ کے اجلاس اور اس پر ہونے والے فیصلوں پر مرکوز تھی، مولانا سلمان ندوی کی وساطت سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم فیصلوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ وقتی طور پر ہی سہی بورڈ کے ارکان میں بے چینی‘ انتشار پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت سبھی نے متحدہ اور متفقہ طور پر ایک فیصلہ کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہزاروں ندوی شریعت کے لئے قربان کئے جاسکتے ہیں‘ اور انہیں اپنی صف سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اگر بابری مسجد سے متعلق کسی قسم کے سمجھوتے پر بات چیت کی بھی جاتی تو اس کے لئے وقت کا انتخاب غلط تھا اور اس کے علاوہ بات چیت جس سے کی جارہی ہے‘ وہ نہ تو بابری مسجد مقدمہ کا فریق ہے نہ ہی حکومت سے اس کا کوئی تعلق ہے ۔بلاشبہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کا ترجمان ادارہ ہے۔ یہ متحدہ مسلمانوں کی آواز ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں کچھ ارکان ایسے بھی ہیں جن کے سیاسی عزائم ہیں‘ جو بورڈ کے سہارے مسلمانوں کی آواز کے طور پر راجیہ سبھا میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بے عیب صرف اللہ کی ذات ہے‘ جو دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔ ہم نے اشارتاً اس لئے تذکرہ کردیا ہے کہ یہ حضرات بھی اپنی اصلاح پر توجہ دیںگے‘ انشاء اللہ۔حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس کامیاب رہا اس کا صد فیصد کریڈٹ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کے سر جاتا ہے جنہوں نے اویسی ہاسپٹل کے احاطہ میں بورڈ کے اجلاس کے دوران میڈیا کو دور رکھتے ہوئے مزید انتشار سے محفوظ رکھا۔ اس کے باوجود بورڈ کے بعض ارکان نے اپنے شخصی تعلقات کی بناء پر اجلاس کی اندرونی بات چیت کو اپنے صحافی دوستوں سے واقف کروایا۔ ورنہ میڈیا سنٹر میں جو بات ہوتی وہی میڈیا تک پہنچ پاتی۔ دارالسلام میں منعقد ہونے والا مجلس کا ہر جلسہ کامیابی کا نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں میں اتحاد، اتفاق کا سویا ہوا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ چاہے وہ بیت المقدس کی بازیابی کا جلسہ ہو یا شریعت کے تحفظ کا۔ 11؍فروری کو ایک بار پھر دارالسلام کے دامن میں ہندوستانی علماء مشائخ اور اکابرین کی کہکشاں اُتر آئی تھی۔ ایک بار پھر ملی اتحاد کا جذبہ بیدار ہوا۔ نئے حوصلوں اور ولولوں کے ساتھ جینے اور حالات کا مقابلہ کرنے اُمنگ پیدا ہوئی جو وقت کا تقاضہ ہے۔ اللہ رب العزت اس جذبہ کو دائم و قائم رکھے۔ آمین۔
نوٹ : مضمون نگارایڈیٹر ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد ہیں
فون9395381226