مسلم وقف بورڈ ایک ایسا ملّی ادارہ ہے جس کے شانوں پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ ہے مگر افسوس کہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی بورڈ میں صلاحیت ہے نہ کو ئی شوق۔ یہ ادارہ سات دہائیاں قبل اوقاف اسلا میہ کے نام سے معرضِ وجود میںآیا اورپھر مسلم اوقاف ٹرسٹ کہلایا۔ ادارے کو پی ڈی پی کے دور حکومت میںمسلم وقف بورڈ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ادارے کے ناموں میںتبدیلی کی گتھی کیا ہے ، اس سے صرفِ نظر کر تے ہوئے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس ادارے پر روز اول سے سیاسی رہنما ؤں کا غلبہ رہا، اس لئے اس کے مقاصد و اہداف اور کام کاج بھی وقتاًفوقتاً سیاست کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ ادارے چونکہ وادی ٔکشمیر کے بقعہ جات، روضہ جات، زیارت گاہوں اور مساجد کے علاوہ وقف جائیدادوں کی دیکھ ریکھ کے لئے قائم تھا ،اس لئے مسلمانوں نے ہمیشہ اس کی مالی اعانت دل کھول کر کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا مگر اس آمدنی کا مصرف کیا بنا،وہ ایک کھلی کتاب کی مانندتما م با ہوش مسلمانوں پر واضح ہے۔ ادارے کے ناقدین کا گلہ یہ ہے کہ تعمیر فنڈ، خیرات وصدقات، چندہ پیٹاںاور ادارے کے آمدن بخش اثاثوں سے حاصل شدہ رقومات کبھی ملّی فلاح وبہبود یا پیدواری امور پر خرچ نہ کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں اوقاف کشمیری مسلمانوں کے لئے محض ایک علامتی ادارہ ہے جس سے کسی قابل تعریف کام کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ بلاشبہ ادارے نے ابتداء میں چند ایک اسکول کھولے مگر ان کا معیار تعلیم کیا ہے ، اس پر کچھ کہناسمع خراشی کا باعث ہوگا۔ آج بھی ان گھسے پٹے اسکولوں میں وہی نادارلوگ اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لئے داخلہ دلاتے ہیںجو غیرسرکاری اسکولوں کے بھاری اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں۔ بظاہر اوقاف نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر انگلش میڈیم طرز کا سلطان العارفین پبلک اسکول سری نگر میں بڑے طمطراق سے قائم کیا مگر ہنوز یہ تعلیمی میدان میں کوئی قابل ِ ذکر کار کردگی دکھا نے سے قاصر نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سری نگر میں ادارے نے ایک عدد پبلک سکول کو جدید خطوط پر قائم کیا تو کیا باقی اضلاع میں ا س نوع کے جدید اسکول قائم کر نا شجر ممنوعہ تھا ؟ اسی طرح مسلم اوقاف کے پرچم تلے بی بی حلیمہ نرسنگ ٹریننگ اسکول سری نگر کا قیام عمل میں لایا گیامگر یہ بھی طبی تعلیم میں کوئی نام کما نہ سکا۔ اس کے مدمقابل جب ماتا وشنو دیوی یونیورسٹی کی بات آتی ہے تو جدید طرز کی ا س یونیورسٹی کے انتظام وانصرام اور اس کی نصابی سرگرمیوں پر عش عش ہو تا ہے ۔اس یونیورسٹی نے چند ہی برسوں میں وہ کمال کر دکھایا کہ آج اس میں تعلیم وتدریس کا موزانہ ملک کی کسی بھی یونیورسٹی سے کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس دانش کدے کے مصارف وشنو دیوی کے استھا پن کے دان دکشنا سے ہی پو رے ہوتے ہیں۔ بہر صورت اگر سات دہائیوں کی مدت ِدراز میں وقف بورڈ کچھ اور زیادہ نہ بھی کرتا تو بھی کم ازکم اس نے ہر ضلع صدرمقام پر ایک ایک ڈگری کالج ، مر کزی سطح پر میڈیکل وانجینٔرنگ کالج اور پالی ٹیکنک کالجوں کا قیام لاکر ریاستی مسلمانوں کا بیڑہ پار کیا ہوتا۔ اس نوع کے تعلیمی وتکنیکی کام تو الگ بات ، اس نے آج تک کہیں ایک پالی کلینک یا فیئر پرائس میڈیکل شاپ تک نہ کھولاجب کہ بر بر شاہ سری نگر میں ایک مقبول عام ڈائیگناسٹک سنٹر قائم ہے اور سرائے بالا سری نگرمیںزیارت دستگیر صاحب کے زیرانتظام افادہ ٔ عام کے لئے اسی طرز کا تشخیصی مر کز چل رہاہے ۔ان سے غریب مریضوں کا کچھ نہ کچھ بھلا ہورہا ہے۔ بہرصورت اس میں دورائے نہیںاوقاف نے عصری تعلیم اور جدید طب کے وسیع وعریض میدان سے ایسے منہ موڑ لیا ہوا ہے جیسے یہ اس کے لئے شجر ممنوعہ ہوں۔ اس کے پہلو بہ پہلو جب سماجی شعبے میں ادارے کی کارکردگیوں کا سر سری جائزہ لیا جائے تو یقیناً کلیجہ منہ کو آتاہے۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ نوے میںوادی ٔکشمیرا ور جموں کامسلم خطہ پُر آشوب حا لات کے بھنور میں پھنساہے۔ یہاں لو گوں کی ہلاکتیں ہوئیں ، گھر بار اور کام دھندھے تباہ ہوئے، بستیاں خاکستر ہوئیں ،اسیران ِ زندان کی لمبی قطاریں جا بجاکھڑی ہوئیں ، یتیم بچوں اور بچیوں کی فوج معرض ِ وجود میںآئی، بیواؤں اور نیم بیواؤں کا ایک لشکر نمودار ہوا۔ ان نامساعد حالات میں سیاست سے بالاتر ہو کر محض انسانیت کے ناطے ستم رسیدہ مستحقین کی تھوڑی بہت مالی امداد کر نا وقف بورڈ کا ایک دینی فریضہ اور قومی مطالبہ تھا مگر اس معاملے میں اس کی عدم کار کردگی قابل صد تاسف ہے۔ کسی مکمل یتیم خانے کی تاسیس تو کجا، اس نے پھول چہرہ بچوں اور بچیوں کی خیر وعافیت تک نہ پوچھی جیسے وہ کسی اور ہی سیارے کے مخلوق ہوں ، اس نے کسی ایک نادار بیوہ کے لئے اپنے رحم وکرم کی بند تجوری کھولنا گوارا نہ کیا ، کسی ستم رسیدہ ماں باپ کی طرف بہ چشم ترحم نہ دیکھا۔ حالانکہ یہاں درد دل رکھنے والے بعض لوگوں کی مساعیٔ جمیلہ آج دارالخیرات، سخاوت سنٹر، دار المواسات، ہیلپ پور، شہجار،یتیم خانہ بمنہ، بیت الہلال، یتیم ٹرسٹ ریڈکراس ورڑ سری نگر وغیرہ کی صورت میں نظر آتی ہے جو ناداروں ، یتیموں اور محتاجوں کے لئے مرکز اُمید ہے ۔ بدقسمتی سے سماجی خد مت کے شعبے میں بعض ایسے خود غرض عناصر اور لٹیرے قسم کے لوگ بھی اُمڈ آئے ہیں جو یتیموں بیواؤںکے نام پر چندہ جمع کر کے اسے خود اینٹھ لیتے ہیں۔ اور تو اور یہاں آرمی والوں نے بھی سری نگر میں ایک یتیم خانہ کھولا ہوا ہے اور کبھی کبھار آپرویشن گڈول کے تحت کوئی کوئی آرمی افسر یتیم بچوں کے ہونٹوں سے چھینی گئیں مسکراہٹیں لو ٹانے کے لئے تحفے تحائف لے کر ان خیراتی اداروں میں حاضری بھی دیتا ہے۔ اس کے پیچھے ان کی جو بھی نیت ہو وہ اپنی جگہ مگر فی نفسہٖ یہ ایک انسانی خصلت ہے جس سے عاری ہونا کسی بھی حساس انسان کے شایان ِ شان نہیں۔ اوقاف کے اربا ِب ِ اختیار سے سوال ہے کہ کیا کبھی انہوں نے ایسی کوئی انسانی مثال قائم کی ؟ کیا انہوں نے ایک بار بھی عیدین کے مواقع پر کسی یتیم خانے میں یتیم ویسیر بچوں کے ساتھ چند منٹ گزارنے کی تکلیف اٹھائی؟ اصل میں خیر وشرف کے ان کاموں کی انجام دہی کے لئے عالی ظرف وژن،اخلاقی شعور اور سماجی کمٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کا فقدان اوقاف میں اوپر سے نیچے تک موجود ہے۔ ضرورت ہے کہ اس ملّی ادارے کو ریٹائرڈ ملازمین کی وقت گزاری کی آ ماج گاہ نہ بنا یا جائے بلکہ اسے انسانیت کے بہی خواہوں، وسیع ا لفکر سماجی کارکنوں اور خوف ِ خدا رکھنے والے مخلص لوگوں کی تحویل میں دیا جائے ۔