Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! مسلم اُمہ اور عالمی منظر:ایک جامع تجزیہ قسط۔۲

Towseef
Last updated: September 27, 2024 9:28 pm
Towseef
Share
11 Min Read
SHARE

مسعود محبوب خان

مسلم اُمہ اس وقت مختلف سماجی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے جو ان کے داخلی حالات کو متاثر کر رہے ہیںاور عالمی سطح پر ان کی پوزیشن و وقار پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان چیلنجز میں تعلیم اور تحقیق میں پسماندگی، اسلاموفوبیا ، امتیازی سلوک و مہاجرین کا بحران شامل ہیں،جو اسلامی دنیا کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

مسلم اُمہ کا ایک بڑا اور بنیادی چیلنج تعلیمی میدان میں پسماندگی ہے۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے دور میں مسلمان دنیا کے عظیم ترین علمی مراکز کے حامل تھے، جہاں سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی اور دیگر علوم میں تحقیقات کی جاتی تھیں۔ بغداد، قرطبہ، دمشق اور قاہرہ جیسے شہر علمی مراکز کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان مراکز میں ہونے والی تحقیقات نے مغربی دنیا پر بھی گہرا اثر ڈالا۔جبکہ عصرِ حاضر میں مسلم دنیا تعلیمی معیار میں پیچھے ہے۔ مسلم ممالک میں تعلیمی اداروں کا فقدان اور سائنسی تحقیق میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں وسائل کی کمی، سیاسی عدم استحکام اور غیر فعال تعلیمی نظام شامل ہیں۔ تحقیق
اور سائنس کی کمی مسلم دنیا کی معیشت، سماجی ترقی اور عالمی مقام کو متاثر کر رہی ہے۔ بیشتر مسلم ممالک اپنی معیشت کو مضبوط بنانے اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے لیے مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔

مسلم دنیا کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعلیمی نظام میں اصلاحات اور تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے مسلم اقوام کو تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔اسلاموفوبیا آج کے دور میں مسلم اقوام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، خاص طور پر مغربی دنیا میں۔ 9/11 کے واقعات کے بعد مسلمانوں کو عالمی سطح پر دہشت گردی اور تشدد کے ساتھ منسلک کیا گیا، جس کی وجہ سے مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ ہوا۔ اسلاموفوبیا صرف سیاسی یا میڈیا کے بیانیے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی روزمرہ زندگی پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ مسلمانوں کو مغربی ممالک میں امتیازی سلوک، ملازمتوں میں تعصب اور سماجی علیحدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغربی میڈیا اکثر مسلمانوں کو منفی کرداروں میں پیش کرتا ہے جو کہ معاشرتی تعصبات کو مزید بڑھاتا ہے۔

بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مساجد پر حملے، حجاب پہننے والی خواتین کو ہراساں کرنا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا عام ہوتا جا رہا ہے۔ یہ رویے مسلمانوں کے دل میں عدم تحفّظ اور تنہائی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین المذاہب مکالمہ، تعلیم اور شعور کی بیداری کی ضرورت ہے۔ مغربی دنیا کو مسلمانوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور ان کے مذہب کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی اوراسے مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے سفارتکاری اور بین الاقوامی فورمز کا استعمال کرنا چاہیے۔مسلم دنیا کو درپیش ایک بڑا چیلنج مہاجرین کا بحران بھی ہے جو سیاسی عدم استحکام، جنگ اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ شام، افغانستان، عراق، یمن اور لیبیا جیسے ممالک میں جاری جنگوں اور تنازعات کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور انہیں بین الاقوامی سطح پر پناہ گزین بننا پڑتا ہے۔شام میں جاری خانہ جنگی نے لاکھوں شامیوں کو بے گھر کر دیا ہے، وہ مختلف ممالک میں پناہ کے متلاشی ہیں۔ ترکی، اردن، لبنان اور یورپ میں شامی مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے، مگر انہیں اکثر غیر مناسب حالات اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مہاجرین کی مخالفت کی وجہ سے ان کے مسائل مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ پناہ گزینوں کو اکثر غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کی طرح دیکھا جاتا ہے اور انہیں سماجی خدمات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلم ممالک میں بھی مہاجرین کو مناسب سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی دیکھی گئی ہے۔ کئی ممالک کی معیشت اور سیاسی نظام پہلے سے ہی دباؤ میں ہیں، جس کی وجہ سے وہ مہاجرین کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ان سماجی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلم اقوام کو اندرونی طور پر مضبوطی کی ضرورت ہے، جس میں تعلیمی اصلاحات، معاشی ترقی اور بین الاقوامی سطح پر بہتر تعلقات شامل ہیں۔ عالمی سطح پر مسلم اقوام کو مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کو تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی اور علوم میں پیچھے نہ رہیں۔ اسلاموفوبیا اور تعصبات کا مقابلہ کرنے کے لیے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ مغربی دنیا مسلمانوں کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوں۔عالمی برادری کو مہاجرین کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ یہ لوگ اپنے وطن واپس جا سکیں یا ان کے لیے بہتر زندگی کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ مسلم اقوام کو عالمی سطح پر ایک متفقہ موقف اپنانا ہوگا تاکہ وہ اپنے مسائل کا بہتر طور پر حل نکال سکیں۔ اس کے لیے او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) جیسے پلیٹ فارمز کو مؤثر بنانا ضروری ہے۔ تعلیم میں پسماندگی، اسلاموفوبیا اور امتیازی سلوک اور مہاجرین کا بحران ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے منظم کوششوں اور عالمی سطح پر مشترکہ تعاون کی ضرورت ہے۔ مسلمان اقوام کو اندرونی طور پر مضبوط ہو کر ان مسائل کا سامنا کرنا ہوگا تاکہ وہ عالمی سطح پر ایک مؤثر اور مثبت کردار ادا کر سکیں۔

ممکنہ حل اور راہیں :مسلم اُمہ کو اس وقت کئی سماجی، سیاسی، اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات اور مؤثر حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم اُمہ کے پاس چند بنیادی اصولوں اور حل کی راہیں ہیں جو انہیں ترقی کی جانب گامزن کر سکتی ہیں۔ ان میں اتحاد اور اتفاق، تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری، اقتصادی خود انحصاری اور عالمی سفارت کاری میں مؤثر کردار شامل ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کر کے مسلم دنیا اپنے چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہے اور عالمی سطح پر ایک طاقتور کردار ادا کر سکتی ہے۔مسلم اُمہ کی سب سے بڑی طاقت اس کا اتحاد ہو سکتا ہے، لیکن موجودہ دور میں یہ عنصر کمزور ہو چکا ہے۔ داخلی فرقہ واریت، سیاسی اختلافات اور قومی مفادات نے امت مسلمہ کو تقسیم کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے ان کی عالمی سطح پر کوئی مؤثر حیثیت نہیں بن پائی ہے۔ مسلم دنیا کو سب سے پہلے فرقہ واریت اور داخلی تنازعات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ اور سنی مسالک اور دیگر فرقوں کے مابین اختلافات کو کم کرکے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے۔مسلم ممالک کو اپنے سیاسی اختلافات اور قومی مفادات کو عالمی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اندرونی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں کو روکنے کے لیے مصالحتی کوششیں اور مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو صرف اجلاس کرنے والے ادارے کی حیثیت سے ہٹا کر ایک عالمی فورم کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو مسلم اقوام کے مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرے اور ان کے لیے مشترکہ پالیسیز بنائے۔مسلم دنیا کی ترقی کا راستہ تعلیم اور تحقیق میں پسماندگی سے نکلنے سے ہوسکتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے علمی میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، وہ آج کی دنیا میں دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مسلم ممالک تعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کریںاور اپنے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق بہتر بنائیں۔ تعلیمی اداروں کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا اور ان میں جدید ٹیکنالوجی، سائنس اور تحقیق کو شامل کرنا ضروری ہے۔

تحقیق اور ترقی پر سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا تاکہ مسلم اقوام جدید ٹیکنالوجی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ جامعات اور تحقیقی اداروں کو بین الاقوامی سطح پر قابلِ قبول بنایا جائے تاکہ وہ جدید دنیا کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ نوجوان نسل کو جدید علوم اور ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار اور تعلیمات سے بھی روشناس کرانا ہوگا تاکہ وہ ایک مضبوط اور خودمختار قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ مسلم اُمہ کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقتصادی ترقی اور خود انحصاری کی راہ اپنانا ضروری ہے۔ بیشتر مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن ان کے بہتر استعمال کے بغیر وہ عالمی اقتصادی نظام میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتے۔ مسلم ممالک کو عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مؤثر بنانا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کو بہتر بنانا اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ضروری ہے۔

رابطہ۔09422724040
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
چاند نگر جموںکی گلی گندگی و بیماریوں کا مرکز، انتظامیہ کی غفلت سے عوام پریشان پینے کے پانی میں سیوریج کا رساؤ
جموں
وزیرا علیٰ عمر عبداللہ سے جموں میں متعدد وفود کی ملاقات
جموں
کانگریس کی 22جولائی کو دہلی چلو کال، پارلیمنٹ کاگھیرائوکرینگے ۔19کو سری نگر اور 20جولائی کو جموں میں راج بھون تک احتجاجی مارچ ہوگا
جموں
بھلا کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی پر حکام کی سرزنش بی جے پی پر جموں کے لوگوں کو دھوکہ دینے کا الزام
جموں

Related

مضامین

ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی مقدس فصل ہے روشنی

July 17, 2025
مضامین

انسان کی بے ثباتی اور اس کی غفلت فہم و فراست

July 17, 2025
مضامین

حسد کا جذبہ زندگی تباہ کردیتا ہے فکر وفہم

July 17, 2025

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دورِ حاضر میں انسان کی حُرمت دیدو شنید

July 17, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?