مسلم امہ کی غفلتیں!

Kashmir Uzma News Desk
8 Min Read
عالمِ اسلام پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمان اسلام پر بوجھ بن چکے ہیں اور جب ہم قرآن و سنت کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اور اپنی جہالت اور فکری انتشار ختم نہیں کرتے ،ہمیں  سکھ چین سے زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہوسکتا ۔قرآن و سنت پر صحیح ڈھنگ سے عمل پیرا ہونے کا جذبہ قابل احترام ہے ، نہ کہ آباء پرستی ،اندھی تقلید ، بے سند روجات وروایات۔احترام کے لائق صرف حق ہے اور حق فقط قرآن و سنت ہی کی روشنی میں ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ آج  بہت سارے چلینج اور مسائل اہل ِاسلام کو درپیش ہیںلیکن بیرونی چیلنجوں سے زیادہ اندرونی چیلنج مہلک ثابت ہورہے ہیں ۔ملت آج ناقابل علاج امراض میں مبتلا ہے اور ان کے لئے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔دنیا کے مختلف نظام ایسے سیاسی و اقتصادی پروگرام پیش کررہے ہیں جو انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ،شخصی ظلم و سِتم کے رجحانات کی روک تھام کرنے والے اور معاشرے کے لئے عام نفع کا ذریعہ ہیںلیکن ہم مسلمان دنیا کے سامنے کیا پیش کررہے ہیں ؟شورائیت کا تصور صرف کتابوں کی زینت ہے،آپسی رحم و محبت صرف تقریروں کی چیز بن کر رہ گئی ہے اور ہم نے ایسے طور طریقے اختیار کر رکھے ہیں جن سے نہ تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی مخلوق پر شفقت کا ۔بے شک موروثی طور پرہم مسلمان ہیں لیکن عملی و فکری اعتبار سے اسلام سے دور دور نظر آتے ہیں ۔تاریخ اسلام کے اوراق اُلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ حکمران اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتے رہے اور کبھی کبھی دوسرا پہلو بھی غالب نظر آتا ہے لیکن بعد میں رفتہ رفتہ صرف ذاتی اغراض اور اُمنگوں کی تکمیل ہی مقصد بن کر رہ گیا ،سبحان اللہ !خدا کے رسول ؐ  تو فرماتے ہیںکہ ’’مجھے اپنے کمزور غریب لوگوں میں تلاش کرو کہ اُن ہی کی بدولت تمہیں رزق اور کامیابی ملتی ہے۔‘‘اور اُن کے نام پرایسے نظام قائم ہوئے جنہوں نے عوام کا گلا گھونٹا،ہر صاحب رائے کو کُچلا ،یہاں تک کہ ائمہ کرام کو اس طرح قتل کیا اور قید و بند سے دوچار کیا جیسے مجرموں اور قاتلوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔
     ہماری دینی و دنیاوی تعلیم الگ الگ خانوں میں بٹی ہوئی ہے ،دنیا وی تعلیم میں بھی ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے بجائے صرف انسانیت تک بڑی حد تک محدود ہیں اور دینی تعلیم بھی انتشار کا شکار ہے ،فقہا الگ چیزہیںاور صوفیہ الگ۔صوفیہ کے اپنے الگ الگ جھنڈے بلند ہیں اور فقہا چار مسلکوں میں منقسم ہیں،جب اندورونی طور پر یہ صورتحال ہوتو دعوت ِاسلامی کیسے پنپ سکتی ہے؟صلیبی طاقتوں کی وجہ سے اندلس مالا مال نہیں ہوا ،وہاں اسلامی جھنڈا سرنگوں کرنے والے عیش پرست اور خود غرض حکمران ٹولے تھے جنہیں طارق بن زیاد کے حقیقی فرزند قرار نہیں دیا جاسکتا ،بغداد کی خلافت ختم کرنے کے لئے تاتاریوں کو ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا کہ اُسے تو پہلے ہی حرام لذت کوشیوں کی آماج گاہ محلوں نے گِرا رکھا تھا ۔ اپنے اور اللہ کے پسندیدہ دین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں ، روایتی دشمنوں سے کہیں زیادہ اندرونی چیلنج ہماری ہلاکت کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ایک حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اے محمدؐ۔میرے فیصلے کو بدلا نہیں جاسکتا ،میں نے تمہاری یہ درخواست قبول کرلی کہ تمہاری اُمت کو قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا،نہ اُس پر دوسروں کو مُسلط کروں گا چاہے پوری دنیا کے دشمن اکٹھا ہوکر حملہ آورہوں،یہاں تک کہ اُمت کے لوگ خود ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرنے لگیں۔‘‘اس حدیث کے آخر میں رسول اللہ ؐ  فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اپنی گمراہ کُن بد عنوان حکمرانوں کا خوف ہے۔‘‘
      آج دیکھ لیجئے کہ روئے زمین پر مسلم ملکوں میں امن و امان کا کیا حال ہے ، شام، ، عراق ،فلسطین ،افغانستان ،کشمیر اور ہندوستان میں مسلمانوں پر کیا گذر رہی ہے اور اس کے برعکس مغربی ممالک میں کیسے پُر سکون حالات ہیں ۔ہم عالمی دعوت کے علمبردار ہیںلیکن اپنی حدود سے آگے نگاہ دوڑانے کی زحمت ہی نہیں کرتے ،نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی دیگر قومیں زندگی کیسے گذار رہی ہیں ،کیا انداز فکر اختیار کررہے ہیں اور کن ذہنی و معاشرتی حالات سے گزر رہی ہیں ۔صدیوں سے دوسری قومیں ہمارے ماضی کی چھان بین کررہی ہیں اور ہمارے حال و مستقبل پر غور و فکر کررہی ہیں ،یہاں تک کہ ہماری ایک ایک چیز سے واقف ہیں اور ہم جہالت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں ۔یورپ و امریکہ میں کیا ہورہا ہے ،دنیا کے مختلف حصوں میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی ہیں،ہم بالکل بے خبر ہیں،ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہودی اپنے اور دنیا کے مستقبل کے لئے کیا کیا منصوبے بنا رہے ہیں ،دنیا کے حالات سے ہماری بے خبری یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ فطرت کے اَسرار اور وسائل کی جانکاری اور انہیں استعمال کرنے کے طریقوں کے تعلق سے مادی علم کتنی پیش رفت کرچکا ہے لیکن ہم اُس سے بالکل نابلد رہ گئے ۔تمام اسلام دشمن طاقتیں بیدار ہیں اور اس کے درپے ہیں،اُن کے پاس زبردست فوجی قوت ہے اور ہم مسلمان خواب غفلت میں پڑے ہوئے آپسی انتشاراور رسہ کشی کے ذریعے اُن کے لئے مزید آسانیاں فراہم کررہے ہیں ۔دینی امور میں غفلت آخری حدوں کو چھُو رہی ہے ،عبادات اور چند معاملات میںروایتی نقالی اور غیرضروری چیزوں پر ساری توجہ دینے کے علاوہ کچھ بھی ظاہر و نمایاں نہیں ہوتا ،علمی یا عملی اعتبار سے کسی ملک میں اسلام جلوہ گر نظر نہیں آتا ،مسلمانوں کی نئی نسلوں کو بس اسلام کے نام سے واقفیت توہوجاتی ہے لیکن اسلام کی روح اور حقیقت  سے اُنہیں دور رکھا جارہا ہے۔الغرض ! اُمت اور اسلام کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔

 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *