غور طلب
ڈاکٹر ریاض احمد
ایک حالیہ ویڈیو تجزیے میں، مسلم دنیا کی کمپنیوں کے عالمی سطح پر ترقی نہ کر پانے کی وجوہات کو نہایت بصیرت سے بیان کیا گیا ہے۔ ایپل، گوگل یا ٹویوٹا جیسی بین الاقوامی کمپنیوں نے جہاں جدت، تنظیمی نظم اور باہمی عزت کے اصولوں کو اپنا کر دنیا میں مقام بنایا، وہیں اکثر مسلمان کمپنیاں محدود دائرے میں ہی گھومتی رہتی ہیں۔ویڈیو کا پیغام یہ ہے کہ مسئلہ ایمان یا صلاحیت کا نہیں بلکہ کام کی جگہ کی ثقافت کا ہے۔
تفریق پر مبنی ماحول : اکثر مسلمان کمپنیوں میں عہدے کی بنیاد پر عزت دی جاتی ہے۔ اعلیٰ افسران کو بہترین سہولیات، آرام دہ دفاتر اور خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں جبکہ نچلے درجے
کے ملازمین کو اکثر بے حیثیت سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کئی دفاتر میں اسٹاف کو نماز یا بیماری کی چھٹی کے لیے بار بار اجازت لینا پڑتی ہے جبکہ افسران آرام سے باہر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس، گوگل جیسی کمپنیوں میں ہر ملازم کی بات سنی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی درجے پر ہو۔ وہاں ’’کھلے دروازے کی پالیسی‘‘ رائج ہے، جہاں ہر شخص اپنی بات بلا خوف کہہ سکتا ہے۔
خوف کی فضا، ترقی کا قاتل : بیشتر مسلمان کمپنیوں میں نوکری جانے کا خوف ہر وقت ملازمین پر طاری رہتا ہے۔ ایک ملازم نے بتایا کہ خلیجی ملک کی ایک کمپنی میں ساتھی صرف اس لیے برطرف کر دیے گئے کیونکہ انہوں نے ایک انتظامی فیصلے پر سوال اٹھایا۔جبکہ بڑی عالمی کمپنیوں میں ’’نفسیاتی تحفظ‘‘ دیا جاتا ہے، یعنی ملازمین کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کی رائے اہم ہے اور غلطی کو سیکھنے کا موقع سمجھا جائے گا، سزا کا ذریعہ نہیں۔
جدت صرف آزادی سے پھلتی ہے : جب ماحول میں اعتماد، برابری اور حوصلہ افزائی نہ ہو، تو نہ کوئی نیا خیال پیدا ہوتا ہے، نہ ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ٹیسلا جیسی کمپنیوں نے اپنی کامیابی اسی وجہ سے پائی کہ وہ ریسک لینے والے، جذبہ رکھنے والے ملازمین کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ دوسری طرف، مسلمان کمپنیاں اکثر روایتی اور محدود سوچ کا شکار ہوتی ہیں۔
ایمان کامیابی کی ضمانت نہیں : ویڈیو کا سب سے طاقتور پیغام یہ ہے۔’’اللہ تعالیٰ نے کامیابی کو مذہب سے نہیں بلکہ انسانیت سے جوڑا ہے۔ جب کمپنیاں اپنے ملازمین سے ویسا سلوک کرتی ہیں جیسا وہ خود اپنے لیے چاہتی ہیں، تبھی وہ ترقی کرتی ہیں۔‘‘اسلام ہمیں صرف عبادات کی تلقین نہیں کرتا بلکہ انصاف، رحم، برابری اور عزت نفس جیسے اصول بھی سکھاتا ہے، جو دفاتر اور اداروں میں بھی لاگو ہونے چاہئیں۔
تبدیلی کا راستہ : مسلمان کمپنیوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے درج ذیل تبدیلیاں ضروری ہیں:تمام ملازمین کے ساتھ برابر سلوک۔کھلا رابطہ اور شکایات کے لیے واضح نظام۔منصفانہ تنخواہیں اور ترقی کے مواقع۔غلطیوں پر سزا نہیں، تربیت اور حوصلہ افزائی۔ایسا ماحول جہاں عزت، اخلاص اور تعاون ہو۔کئی مسلمان کمپنیاں، جیسے Careem اور Aramex، اس ماڈل پر عمل کر کے عالمی سطح پر کامیاب ہو چکی ہیں۔
خلاصہ : اگر مسلمان ادارے دنیا میں مقام چاہتے ہیں، تو انہیں نہ صرف وژن سے، بلکہ رحم، برابری اور انسانیت سے قیادت کرنی ہوگی۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے (علامہ اقبال)