ممبئی //بمبئی ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کا حوالہ دینے کے باوجود ایک شخص کی عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ایک اہم ترین فیصلہ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ گھریلو تشددقانون برائے 2005کے تحت اگر کوئی مسلمان خاتون تحفظ کا مطالبہ کرے گی تو اس کی درخواست کو مسترد نہیں کیا جائے گا ،بلکہ اسے ہرحال میں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔جسٹس بھارتی ڈونگرے نے اس مسئلہ پرایک نوجوان کی عرضداشت مسترد کرتے ہوئے اس کی بیوی اور دوبچوں کے لیے معاوضہ اور گھر کا کرایہ کے طورپرماہانہ ایک لاکھ پانچ ہزار روپے دینے کی ہدایت دی ہے ۔اس معاملہ میں عرضی گزار نوجوان نے کہا کہ ہم اسلامی علوی بوہرہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ فرقہ مسلم پرنسل لا بورڈ کے تحت ہے ،اس لیے گھریلو تشددقانون ہم پر نافذ نہیں ہوتا ،اس کے مدنظر عدالت اس معاملہ کی سماعت نہ کرے ۔جسٹس بھارتی نے کہا کہ مذکورہ قانون کے تحت خاتون کو حقوق حاصل ہیں اور اس کے تحت مسلمان خاتون نہیں آتی ہیں ،اس کا ذکر کہیں نہیں ہے ،انسداد گھریلو قانون خواتین کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا ہے ،اس لیے اسے دیگر قوانین سے منسلک کیا گیا ہے اور اس معاملہ کسی مخصوص مذہب کی خواتین کو اسے دورنہیں رکھا جاسکتا ہے ۔واضح رہے کہ جوڑے کی شادی 1997میں طے پائی تھی اور ان کے دوبچے ہیں،گھریلو تشددکے معاملہ میں بیوی نے 2015میں فیملی کورٹ میں عرضداشت دائر کی تھی،2017میں عدالت نے شوہر کو حکم دیا کہ وہ بیوی اوربچوں کو ماہانہ 65ہزار روپے بھتہ چالیس ہزار روپے گھر کا کرایہ اداکرے ۔ہائی کورٹ نے اس حکم کو برقرارکھا ہے ۔اس طرح مسلم پرسنل لاء کے سلسلہ میں ایک اور معاملہ سامنے آیاہے ۔یو این آئی۔