احمد نے اقبال کی معرکہ آراء نظم ’’شکوہ‘‘ کو مسلمانوں کے دل کا چور قرار دیا ہے یعنی اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے وہ مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، مگر مسلمان اپنے دل کی آواز کو زبان دینے پر قادر نہ تھے۔ سلیم احمد کے استاد پروفیسر کرار حسین نے سلیم احمد کی کتاب ’’اقبال۔ ایک شاعر‘‘ میں ’’شکوہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شکوہ انہیں کبھی بھی پسند نہیں تھی اور اسے وہ اپنے شعری ذوق کی پختگی خیال کرتے تھے، مگر شکوہ کے بارے میں سلیم احمد کی رائے پڑھ کر انہوں نے ’’شکوہ‘‘ کے سلسلے میں اپنی رائے پر نظرثانی کی۔’’ شکوہ‘‘ کے بارے میں سلیم احمد کی رائے اہم ہے مگر ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی معنویت کو اور زیادہ گہرائی میں دیکھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔
انسانوں کا ہی نہیں قوموں کا بھی ایک تصورِ ذات یا Concept of Self ہوتا ہے، لیکن یہ تصور موضوعی یا Subjective ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افراد ہی نہیں قوموں کی بھی ایک حقیقت یا Reality ہوتی ہے۔ یہ حقیقت معروضی یا Objective ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کا اجتماعی تصورِ ذات ہے۔ اس کے برعکس ’’جوابِ شکوہ‘‘ مسلمانوں کی اجتماعی حقیقت یا ان کی اصل ہے۔ ان کی معروضی حقیقت۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
’’شکوہ‘‘ میں اقبال مسلمانوں کی طرف سے خدا سے مخاطب ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں:
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر؟
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا!
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے!
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں!
اُمتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِؐ عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓ و اویسؓ قرنی کو چھوڑا؟َ
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں!
زندگی مثلِ بلالِ حبشیؓ رکھتے ہیں!
عشق کی خیر، وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیٔ آئینِ وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے!
کہنے کو یہ اقبال کی ’’شکوہ‘‘ کے بند ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی تصورِ ذات ہے۔ موضوعی تصورات، ایک موضوعی حقیقت، جو ’’اجتماعی خود پسندی‘‘ سے آراستہ ہے۔ اب آپ’’ جوابِ شکوہ ‘‘کے چند بند ملاحظہ فرمائیے۔ ان بندوں میں خدا مسلمانوں سے مخاطب ہے۔ وہ کہہ رہا ہے:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائے پیغمبرؐ ہیں
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیمؑ پدر، اور پسر آذر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
یہ ہے اقبال کا ’’جوابِ شکوہ‘‘۔ یہ ہے مسلمانوں کی اصل حقیقت۔ ان کی معروضی حقیقت۔ یہ ہے مسلمانوں کا آئینہ۔ اس آئینے میں مسلمانوں کا ’’ظاہر‘‘ بھی صاف نظر آرہا ہے اور باطن بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری شعری روایت میں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ مگر ان باتوں کا ہمارے عصر سے کیا تعلق ہے؟
آپ نے کبھی غور کیا کہ سعودی عرب کے حکمرانوں کا تصورِ ذات کیا ہے؟ ایک سطح پر وہ مکۂ معظمہ اور مدینہ منورہ کے وارث اور والی ، دوسری سطح پر وہ ( یا اپنی زبان میں)خادمین حرمین الشریفین ہیں۔ تیسری سطح پر وہ پوری امت کو مالی معاونت فراہم کرنے والے ہیں۔ چوتھی سطح پر وہ امت کے اتحاد کی علامت ہیں۔ پانچویں سطح پر سیاسی استحکام کی علامت ہیں۔ چھٹی سطح پر ان کا اقتدار دائمی نظر آتا ہے مگر یہ سعودی حکمرانوں کا تصورِ ذات ہے۔ ان کا Concept of Self ہے۔ اور یہ تصورِ ذات یا Concept of Self ایک موضوعی حقیقت یا ایک Subjective Reality ہے۔ معروضی حقیقت کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے:
’’امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی کہا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حکمران امریکہ کے فراہم کردہ فوجی تحفظ کے بغیر دو ہفتے بھی باقی نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے امریکی ریاست مسی سپی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ سلمان کو مخاطب کیا اور کہا کہ مجھے آپ سے محبت ہے مگر امریکہ کے بغیر آپ کا اقتدار دو ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ سعودی حکمرانوں کو سعودی عرب میں موجود امریکی فوج کا مالی بوجھ برداشت کرنا چاہیے‘‘۔(ڈیلی ڈان کراچی۔ 4 اکتوبر 2018ء)
ایک ہے سعودی حکمرانوں کا تصورِ ذات، اور ایک ہے وہ اصل یا معروضی حقیقت… وہ حقیقت جو امریکہ کے باطن ڈونلڈ ٹرمپ ہی کی زبان پر آسکتی تھی۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دوست قرار دیا، تاہم کہا کہ دوست ہمیشہ آپ کی تعریف نہیں کرتے بلکہ وہ آپ پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے قیام سے کئی دہائیوں پہلے وجود رکھتا تھا۔ سعودی عرب 1744ء میں وجود میں آیا اور امریکہ اس کے 30 سال بعد دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے لیے جن خطرات کا ذکر کیا ہے، اُن کے حقیقت بننے میں دو ہزار سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ سے کوئی چیز مفت نہیں لیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حفاظت کے سلسلے میں امریکہ کو کچھ بھی ادا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حال ہی میں امریکہ سے 110 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، بلکہ امریکہ کے ساتھ ہمارے 400 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں۔
(ڈیلی دی نیوز کراچی۔ 7 اکتوبر 2018)
تجزیہ کیا جائے تو ولی عہد محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں سعودی حکمران طبقے کی تکریم کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ’’دوست‘‘ قرار دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا اگر کسی اور ملک بالخصوص کسی مسلم ملک نے ایسا کہا ہوتا تو سعودی حکمران اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرچکے ہوتے۔ حماس اور اخوان المسلمون عرب دنیا کی مزاحمتی روح ہیں، اُس کا دل ہیں، اس کا ضمیر ہیں، اس کا شعور ہیں، اس کا حصارِدفاع ہیں ،اس کا شاندار ماضی، حال اور مستقبل ہیں مگر اس کے باوجود سعودی حکمران انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکے ہیں، لیکن امریکہ جو سعودی عرب ہی کا نہیں پوری امت کا دشمن ہے وہ سعودی بادشاہ کی کھلی توہین کرنے کے باوجود ابھی تک شہزادہ محمد بن سلمان کا ’’دوست‘‘ ہے۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ صرف سعودی حکمرانوں کا نہیں ہے، یہ پوری امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کا مسئلہ ہے۔ مسلم دنیا کے جرنیل، جمہوری حکمران اور بادشاہ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں اور اپنی قوم کے لیے وہ آدم خور شیر بن جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم کو فتح کرکے اپنی ’’بہادری‘‘ کا اعلان کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر مسلم دنیا کے جرنیلوں، بادشاہوں اور نام نہاد جمہوری رہنمائوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور امتِ مسلمہ کے دشمنوں کے لیے تو ریشم سے بھی زیادہ نرم ہیں، مگر ان کے دل اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور خود عام مسلمانوں کے لیے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کچھ پتھر خوفِ خدا سے گر جاتے ہیں، مگر مسلم حکمرانوں کے دل خدا کے خوف یا محبت سے ایک بار بھی نہیں دھڑک پاتے۔ مصر کے جنرل سیسی نے نہ صرف یہ کہ اخوان کے صدر مرسی کے خلاف سازش کرکے اُن کی حکومت برطرف کی، بلکہ انہوں نے احتجاج کرنے والے اخوان کے کارکنوں پر ٹینک چڑھا دیے اور ان پر براہِ راست فائرنگ کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں آٹھ سے دس ہزار مرد اور عورتیں مصر کی سڑکوں پر شہید ہوگئے، ہزاروں زخمی ہوگئے، چھے لاکھ سے زیادہ لوگ جیلوں میں ٹھونس دیے گئے، لیکن جس طرح اس صورتِ حال پر امریکہ اور یورپ خاموش رہے، اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی نہ صرف خاموش رہےبلکہ وہ جابر و قاہر جنرل سیسی کی مدد کے لیے 13 ارب ڈالر کی امداد لے کر حاضر ہوگئے اور فرمایا: ہم مصر کو معاشی بحران میں مبتلا نہ ہونے دیں گے۔
بنگالی پاکستان کے خالق تھے۔ مسلم لیگ دہلی، لاہور، کوئٹہ، پشاور یا کراچی میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ڈھاکہ میں قائم ہوئی تھی اور 1906ء میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگالیوں کا سیاسی شعور نام نہاد مہاجروں، نام نہاد پنجابیوں، نام نہاد سندھیوں، نام نہاد پشتونوں اور نام نہاد بلوچوں سے کہیں زیادہ بلند تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پنجاب اور سرحد 1946ء تک انگریزوں اور انڈین نیشنل کانگریس کے ایجنٹوں کے قبضے میں تھے اور راضی بہ دشمن۔ بنگالی اکثریت میں تھے، وہ پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے، مگر فوج، بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں 1971ء تک ان کی موجودگی دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہ تھی۔ یہ ظلم ہی نہیں کھلی بدمعاشی اور درندگی تھی۔ یہاں تک کہ 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود شیخ مجیب کو اقتدار نہ دیا گیا اور بنگالیوں کو ’’غدار‘‘ قرار دے کر ان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا گیا۔ ’’ٹائیگر‘‘ کہلانے والے جنرل نیازی نے اس مرحلے پر بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی نسل بدل دیں گے، یعنی بنگالی عورتوں کا اتنے بڑے پیمانے پر Rape کیا جائے گا کہ بنگالیوں کی نسل بدل جائے گی۔ جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل تو نہ بدل سکے مگر پاکستان کے حکمرانوں کے طویل ظلم و استبداد نے پاکستان کا جغرافیہ اور تاریخ بدل دی۔ ٹائیگر نیازی کا یہ حال ہوا کہ وہ قوم کو فتح کرتے کرتے خود مفتوح ہوگئے اور نو ےہزار پاک فوجیوں کو بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتے دیکھا گیا۔ جنرل نیازی اس ہولناک موقع پر بھی بھارتی جنرل کو ’’فحش لطیفے‘‘ سنا رہے تھے۔ کیا ’’ٹائیگر‘‘ واقعتاً ایسے ہوتے ہیں؟ یہ وہی کہانی ہے ’’قوم کے لیے آدم خور شیر اور دشمن کے لیے تر نوالہ‘‘۔ یہاں بھی ’’ٹائیگر نیازی‘‘ تصورِ ذات‘‘ ہے، اور ہتھیار ڈالتا ہوا اور بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سناتا ہوا جنرل نیازی ’’اصل حقیقت‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت کے زوال کا کیا سبب ہے اور قیادت بڑی کیسے بنتی ہے؟
مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ مذہب نے عام انسانوں اور قیادت کو بڑا بنایا ہے۔ اقبال کی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے دو شعر بنیادی ہیں۔ ایک یہ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دوسرا شعر یہ ہے ؎
(بقیہ جمعرات کے شمارےمیں ملاحظہ فرمائیں)