سرینگر// مسلم دینی محاذ کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے دو ا نتہا پسند افکار کے درمیان تقسیم ہو چکے ہیں جسکی وجہ سے تقریباً تمام مسلم معاشروں میں داخلی انتشاراور تنازعات پیدا ہوچکے ہیں۔ ایک انتہاپسند نظریہ یہ ہے کہ اسلام کا پہلا اورآخری مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے دوسرا انتہا پسند نظریہ یہ ہے کہ اسلام کا سیاست اور ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اول الذکر نظریہ نے مسلمان معاشروں میں جنگ وجدال کا ماحول پیدا کیا ہے، اس سے اسلام میں عبادت کی اہمیت بھی مجروح ہوگئی ہے اور اسلام حصولِ اقتدار کے متعلق کمیونزم کے فلسفہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے، ثانی الذکر نظریہ کی وجہ سے اسلام مسلمانوں کی سیاست، معیشت، معاشرت اور نظام عدلیہ وتعلیم سے بے دخل ہوگیا ہے، مسلمانوں کی Secularisation ہوگئی ہے اور مسلمانوں اغیار کی حاکمیت کی اطاعت اور وفاداری میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔اسلام عدل اور اعتدال کا دین ہے، اس میں عقائد، عبادات ، احکام حلال وحرام، اخلاق، اسلامی حکومت سب باتوں کو اپنی اپنی اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے جب تک نہ دونوں انتہا پسندی پر مبنی نظریات کو ترک کرکے مسلمانوں میں اعتدال کی سوچ پیدا کی جاتی ہے، تب تک مسلمانوں میں نہ جنگ وجدال کی سوچ ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان میں پائی جانے والی Secularisation پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مسلمان اس وقت پوری دنیا میں داخلی انتشار اور خارجی تصادم آرائی میں مبتلا ہو کر تباہ وبرباد ہورہے ہیں۔ اس لئے ملت اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ ایسے اہل علم و دانش جو اسلام کو حصول اقتدار کے فلسفہ کے طور پیش کررہے ہیں یا جو اسلام کو بدھ مت اور جین مت کی طرح صرف ایک اخلاقی فلسفہ کے طور پیش کرتے ہیں دونوں سے خبردار رہیں۔ اسلام نے انتہا پسندی کی تمام صورتوں کی خواہ عقائد سے متعلق ہویا عبادات کے متعلق، معاشرت کے متعلق ہو یا معیشت کے متعلق حوصلہ شکنی کی ہے اور ہر معاملے میں عدل اور اعتدال کی تعلیم دی ہے، اس لئے اہل علم کا کام یہ ہے کہ وہ پہلے تصفیہ کا کام کریں(اسلام پر انتہا پسندی اور بدعات کا گردوغبارہٹائیں) پھر اصلاح کا کام کریں (مسلمانوں کے عقائد واعمال کی درستگی کریں)۔