مولانا قاری اسحاق گورا
مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی کمزوری کا معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی نظر آتا ہے، جہاں مسلم کمیونٹی کو سیاسی اور سماجی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔اپنے ملک میں جہاں مسلمان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے وہیں ان کی سیاسی قیادت کی کمزوری اور عدم اتحاد نے انہیں کئی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ سیاسی قیادت کی یہ کمزوری فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے، جب مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا زوال آزادی کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد مسلمانوں کی قیادت میں بکھراؤ آیا اور کئی اہم مسلم رہنما یا تو پاکستان چلے گئے یا سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔ ہندوستانی مسلم قیادت کی کمیونٹی کے اندر کوئی متفقہ نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم قائم کرنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے اپنی سیاسی قیادت کھو دی اور وہ کسی قومی دھارے کی سیاسی جماعت میں خود کو صحیح طور پر جگہ نہ دے سکے۔ اس دوران جو مسلمان سیاسی رہنما اُبھرے، وہ یا تو علاقائی سطح پر محدود رہے یا انہیں مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی کمزوری کی کئی وجوہات ہیں، جو انہیں اجتماعی طور پر ایک مضبوط قوت کے طور پر سامنے آنے سے روکتی ہیں۔مسلمانوں کے اندرونی فرقہ وارانہ اختلافات نے انہیں ہمیشہ تقسیم کئے رکھا ہے۔ شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی اور دیگر فرقے نہ صرف مذہبی طور پر مختلف ہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی آپس میں متفق نہیں ہوتے۔ یہ فرقہ وارانہ اختلافات سیاسی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مختلف فرقوں کے علماء اور سیاسی رہنما اپنے فرقے کی نمائندگی کو ترجیح دیتے ہیں اور اکثر قومی یا اجتماعی مفادات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
سیاسی قیادت کی کمزوری کا ایک اور بڑا سبب مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی اکثریت تعلیمی میدان میں پیچھے ہے، جس کی وجہ سے وہ سیاست میں مؤثر طور پر حصہ لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ تعلیم کی کمی نے مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی شعور سے محروم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی نمائندگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی طور پر بھی مسلمان کمزور ہیںاور یہ کمزوری انہیں سیاست میں فعال کردار ادا کرنے سے روکتی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں میں عدم دلچسپی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت سیاسی جماعتوں سے یا تو دور رہی ہے یا انہیں قومی سطح پر مؤثر نمائندگی نہیں ملی۔ جہاں ایک طرف ملک میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی جگہ بنا رہی تھیں، وہاں مسلمانوں کی کوئی نمایاں سیاسی جماعت وجود میں نہیں آ سکی۔ وہ جماعتیں جو مسلمانوں کے نام پر سیاست کرتی ہیں، اکثر ان کے مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اپنی سیاسی بقا کے لیے کام کرتی ہیں۔
مسلمانوں کی سیاسی قیادت میں قیادت کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہندوستان میں کئی دہائیوں سے مسلمانوں کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو مؤثر طریقے سے اٹھا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی سیاسی شخصیت ایسی قیادت فراہم نہیں کر سکی جو مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو گئی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔اب جبکہ ملک میںفرقہ وارانہ فسادات ایک تلخ حقیقت بن چکے ہیںاور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف جانیں چلی جاتی ہیںبلکہ ان کی املاک، دکانیں اور کاروبار بھی تباہ ہوتے رہتے ہیں۔اس جانی و مالی نقصان کا اثر کئی برسوں تک محسوس کیا جاتا ہے کیونکہ مسلمان پہلے ہی معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ اُنہیںکاروبار یا روزگار دوبارہ شروع کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ انہیں مناسب مالی مدد و معاوضہ نہیں ملتا ہے۔اکثر فسادات میں ملوث لوگوںکو قانونی تحفظ ملتا رہتا ہے۔انہیں قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاتا،جس سے مسلمانوں میں مزید مایوسی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ فسادات کے مقدمات عدالتوں میں سالوں تک چلتے رہتے ہیں اور متاثرین کو انصاف نہیں مل پاتا۔ جن کے پیارے مارے جاتے ہیںاور جن کی املاک تباہ کی جاتی ہیں، وہ برسوں تک عدالتوں کے چکر لگاتے رہتےہیں پھر بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوجاتا۔یہ چیز بھی مسلمانوں میں احساسِ عدم تحفظ بڑھاتی رہتی ہے۔اگر مسلمانوں کے پاس مضبوط سیاسی قیادت ہوتی، تو وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر طریقے سے آواز اٹھا سکتےاور اپنے نقصانات کی بھر پائی کروا سکتے۔مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی کمزوری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت میں ناکام رہتے ہیں۔مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں کمی کا ایک اور بڑا اثر یہ ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو پاتے اور نہ ہی حکومت کی پالیسیوں میں شامل ہو پاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ تعلیمی مسائل ہوں، روزگار کے مواقع ہوں یا دیگر سماجی مسائل، مسلمانوں کے پاس سیاسی اثر و رسوخ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مناسب حکومتی توجہ نہیں ملتی۔
مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی کمزوری کو دور کرنے کا واحد حل اتحاد ہے۔ مسلمانوں کو اپنے فرقہ وارانہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوں گے، وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر طریقے سے آواز نہیں اٹھا سکیں گے۔مسلمانوں کو ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، جہاں وہ اپنے مسائل کو اجتماعی طور پر اٹھا سکیں۔ اس پلیٹ فارم پر تمام فرقوں کے رہنما شامل ہوں اور وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے متحد ہو کر کام کریں۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف سیاسی مسائل کو حل کرے گا بلکہ مسلمانوں کے سماجی اور معاشرتی مسائل پر بھی توجہ دے گا۔
مسلمانوں کو اپنے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ جب تک مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھیں گے، وہ سیاست میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور پیدا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کر سکیں۔جب تک مسلمان متحد ہو کر ایک مضبوط سیاسی قیادت نہیں بنائیں گے، وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر طریقے سے آواز نہیں اٹھا سکیں گے۔
[email protected]