Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

مسلمانانِ ہند الیکشن کے مابعد

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 1, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
یوپی الیکشن میں بھاجپا کی جیت کے بعد مسلما نان ِہند خصوصاََ یوپی کے مسلمانوںکی حالت بد سے بد تر ہوگئی ۔یہ صحیح ہے کہ یوپی سمیت بھارت کی دوسری ریاستوں میںجہاں مسلمان رہتے ہیں آج تک اُنہیں ووٹ بنک کے حیثیت سے سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال میں لایا گیا،لہٰذا ایک حد تک اُن کا لحاظ بھی کیا جاتا تھا، فارسی کے اُس مقولے کے عین مطابق کہ ’داشتن بکار آید‘ یعنی رہیں تو کام آئیں گے،۔البتہ جہاں سانس لینے کی اجازت رہی وہی بھر پور انداز سے جینے کی راہ کبھی بھی کسی بھی دور میں ہموار نہیں رہی۔تقسیم بر صغیر ہند و پاک کے بعد مسلمانان ِ ہند کی حالت زار آہوں اور سسکیوں کی کہانی ہے، جہاں پے در پے فسادات نے اُن کی مجموعی حالت میں وہ سکت ہی نہیں رہنے دی جو نفسیاتی تسکین کا سہارا بن سکتی ۔سیکولرازم کے نام پہ مسلمین ہند کے ووٹ بٹورنے والوں نے کبھی بھی اُن کے نان شبینہ کی فکر نہیں کی نہ ہی اُنہیں وہ تحفظ فراہم رہا جو کسی بھی مہذب مملکت میں اقلیتوں کا حق ہوتا ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر تقسیم برصغیر سے پہلے مسلمین کو نفسیاتی تحفظ فراہم رہتا تو شاید تقسیم کی نوبت بھی نہ آتی۔مجموعی تحفظ کے فقدان نے تقسیم کی تحریک کو جنم دیا اور تقسیم جہاں ایک حقیقت بن گئی وہی وہ مسلمین جو بھارت میں رہے اُنکی حالت ابتر ہوتی گئی۔ ہندی مسلمین کی حالت زار کے تجزیے سے پہلے جس کی ایک لمبی تاریخ ہے یوپی الیکشن کے بعد کے سیاسی اثرات زیر نظر رہیں گے۔
یوپی الیکشن میں سنگھ پریوار نے اپنے طور یہ ثابت کیا کہ مسلمین کے ووٹ کے بغیر الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ سنگھ پریوار جہاں آر ایس ایس کی رہنمائی میں عمل پذیر ہے، وہیں بھاجپا اُس کی سیاسی شاخ ہے۔ وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل آر ایس ایس کی مختلف شاخیں ہیں اور ہر ایک کاجہاں اپنا اپنا حدف ہے وہی مشترکہ اہداف میں بھارت کا ایک ہندو راشٹر بنانا بالا ترین ہدف ہے۔ اکثر سیاسی حلقوں میں جہاں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ بھاجپا نے کسی بھی مسلمان کو الیکشن لڑنے کا ٹکٹ نہیں دیا، وہیں یہ بھی عیاں رہا کہ ایسا ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہو رہا ہے جس کا ہدف یہ رہا کہ جس حد تک ہو سکے ہندو وٹوں کو بھاجپا کے امیدواروں کے لئے مخصوص رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ بھاجپا کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔اس کا ایک ہدف یہ بھی رہا مسلمان جو پہلے ہی نفسیاتی دباؤ میں ہیں، اس حد تک دباؤ میں رہیں جہاں حقوق کی مانگ تو دور کی رہی تحفظ کے حق کی بات بھی منظر عام پہ نہ آ سکے۔بھاجپا کی سیاسی حکمت عملی تب سامنے آئی جب یوپی کی قیادت کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ کا انتخاب بطور وزیر اعلی سامنے آیا ۔چوالیس سالہ یوگی ادتیہ ناتھ گورکھپور مٹھ کا سب سے بڑے پجاری ہے۔ یوگی گو کہ بھاجپا کے ممبر پارلیمنٹ تھے لیکن آر ایس ایس کی روش کار کو مد نظر رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اپنی ایک خصوصی تنظیم تشکیل دی جو ’’ہندو یوا واہنی‘‘ یعنی ہندو نو جوانوں کی تنظیم کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اِس تنظیم کے سیاہ کار ناموں کی فہرست لمبی ہے اور ماضی میں یوگی ادتیا ناتھ مجرمانہ اعمال کے مرتکب پائے گئے ہیں اور وہ کئی مقدمات میں بھی ملوث ہیں۔اُن کے بیانات میں اُن کے سیاسی احداف عیاں ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ وہ تب تک نہیں رکیں گے جب تک کہ یوپی و بھارت کو ایک ہندو راشٹرہ نہیں بنائیں گے۔اِس کے علاوہ ایسے ان گنت بیانات ہیں جو اُنکی انتہا پسند سوچ کے غماز ہیں ۔
یوگی ادتیا ناتھ ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک دینی شخصیت بھی ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک دینی شخصیت کا سیاسی منصب پہ فائض ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ قبرص کے اُس حصے پر جو یونانیوں کے قبضے میںہے عیسائی پادریوں کی حکومت رہی ہے۔ایران کی حکومت اور سیاسی اداروں پر مذہبی شخصیات کا غلبہ ہے اور یہ ایران کے قانون اساسی کے عین مطابق ہے۔بظاہر بھارت کے قانون اساسی میں بھی کوئی ایسی شق نہیں جو کسی مذہبی شخصیت کو سیاسی عہدے پہ فائض ہونے سے باز رکھ سکے البتہ ابھی تک بھارت کا قانون اساسی سیکولر ہے اور ایک سیکولر قانون اساسی میں ہندو راشٹر کیلئے کہاں جگہ بنتی ہے یہ یوگی ادتیا ناتھ جانے یا وہ سیاسی پنڈت جنہوں نے اُن کی وزارت اعلی کے منصب پہ پہنچنے کیلئے راہ ہموار کی ؟یہ ایک موضوع دیگر ہے کہ بھارت کے سیکولر کردار پہ ہمیشہ ہی ایک سوالیہ رہا ہے البتہ یہ سوالیہ کبھی بھی اتنا عیاں نہیں رہا ہے جتنا کہ دور حاضر میں رہا جو بھاجپا کے دہلی کے سیاسی ایوانوں پر غلبے کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اِس سوالیہ پر کئی اور سوالات یوگی ادتیا ناتھ کے بھارت کی سب سے بڑی ریاست یوپی کا وزیر اعلی بننے کے بعد منظر عام پہ آئے ہیں۔یوگی ادتیا ناتھ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی دھوڑ میں نہ صرف بھارت کے قانون اساسی کی نفی کر رہے ہیں بلکہ اُس ہندو مذہبی مقام گورکھ ناتھ مٹھ کے اعلی آدرشوں کی بھی نفی ہو رہی ہے جس کے وہ سب سے پجاری ہیں۔
گورکھ پور مشرقی یوپی کا معروف شہر بھارت کی ایک عظیم دینی شخصیت گورکھ ناتھ کے نام سے وابستہ ہے اور اِس مٹھ یعنی دینی مقام کی ایک تاریخ ہے جو کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا دینی ورثہ ہونے کے ثقافتی ورثہ بھی ہے اور اُس سے اعلی ترین احداف منسلک رہے ہیں ۔گورکھ ناتھ کے مقام کو پہچاننے کیلئے ہمیں اقبالیات کا سہارا لینا پڑے گا۔اقبالیات میں بال جبریل کی شروعات بھرتری ہری کے پاکیزہ خیالات سے وابستہ بند شعر سے شروع ہوتی ہے   ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
بھرتری ہری جو بھارتی ریاست مالوہ کے راجہ تھے گورکھ ناتھ کے مریدرہے ہیں اور اُن کے بلند خیالات نے گورکھناتھ سے شہ پائی ۔اُن کے کلام کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جہاں گدھے کے سر پہ ہرن کی مانند سینگ اُبھر آنا نا ممکنات میں سے ہے، وہی مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک اثر انداز ہو نا ممکن ہے بالکل ایسے ہی جیسے جہاںپھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا ۔بھرتری ہری راجگی رنگ رلیوں کے شیدائی تھے لیکن حوادث زندگی سے عاجز ہوکے اُنہوں نے سنیاس لیا۔بھرتری ہری کی زندگی کے حوادث اِس کالم میں نہیں سما سکتے۔ ہمیں اسی پہ اکتفا کرنا پڑے گا کہ وہ گورکھ ناتھ کے مرید بن گئے۔یہ مریدی اُن کو اس حد تک راس آئی کہ اُنہوں نے اپنی تصانیف سے علامہ اقبالؒ کو اِس حد تک متاثر کیا کہ نہ صرف بال جبریل کا مرکزی خیال اُن سے وابستہ ہوا بلکہ علامہ اقبالؒ کے فارسی مجموعے ’جاوید نامہ‘ میں بھرتری ہری علامہؒ اور اُن کے پیر و مرشد مولانارومیؒ سے ایک شاعرانہ مکالمے میں مصروف نظر آتے ہیںجس کی جزؤیات اتنی ہی نرم و نازک ہے جتنا کہ بھرتری کا کلام جس میں سماجی ،سماجی،ثقافتی و ادبی خیالات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ مملکتوں کو چرخانے کی طور و طریقے بھی درج ہیں۔اُنکی تصانیف کئی اشٹکوں (مجموعہ کلام) پہ مشتمل ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اُن اعلی دینی احداف کی آبیاری سے انحراف ہو تا ہے جو کسی بھی دینی مقام سے وابستہ ہوتے ہیں۔آج گورکھ ناتھ مٹھ کی دینی قیادت یوگی ادتیا ناتھ کے ہاتھوں میں ہے جبکہ اِس مٹھ سے زمانہ قدیم میں بھرتری ہری جیسی عظیم خیالات کی شخصیت وابستہ رہی ہے جن کی شخصیت کی ساخت اِس مٹھ کی مرہون منت تھی۔ ادتیا ناتھ کا یوپی کا وزیر اعلی بننے کے بعد بھارتی مسلمین مخصوصاََ یوپی کے مسلمین کو جن حالات کا سامنا ہے اُنہیں دیکھ کے جہاں اُن کے مستقبل پہ سوالات پہ در پیش ہیں وہی ماضی میں اُن پہ کیا گذری سب ہی مد نظر رکھنا پڑے گا۔
ادتیا ناتھ کے وزیر اعلی بننے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر گوشت کی بزنس پہ اُن کا عتاب نازل ہواچونکہ اِس بزنس سے مسلمین وابستہ ہیں اور جہاں یوپی کے دوسرے شہروں متاثر ہوئے وہی گورکھ پور میں بھی سیکڑوں دکانیں بند ہوئیں حالانکہ یہاں گائے گوشت نہیں بکتا تھا جو ہندؤں میں مقدس ہے لہذا اُس پہ پہلے سے ہی قانونی پابندی عائد ہے۔کہا گیا کہ گوشت کا کاروبار وہی بند ہو گا جہاں قانونی لائسنس موجود نہ ہو البتہ خبروں میں یہ بھی آیا کہ کئی مقامات پر لائسنس ہونے کے باوجود کاروبار بند کیا گیا۔یہ مسلمین کی ہراساں اقتصادی حثیت پہ یوگی ادتیا ناتھ کا پہلا وار رہا جو یہ سطریں رقم کرتے وقت ابھی بھی شاہ سرخیوں میں ہے۔یوگی جی کو اتنا بھی خیال نہیں رہا کہ یہ کم و بیش پچاس ہزار کروڑ کی بزنس ہے جس پہ ہاتھ ڈالا جا رہا ہے ثانیاََ اِس سے لاکھوں افراد کی روزگار وابستہ ہے۔
مسلمین کی نان شبینہ پہ ہاتھ ڈالنے اور اُن پہ اقتصادی وار کرنے میں یوگی جی کے آنے کے بعد شدت تو آ ہی گئی لیکن کہا جا سکتا ہے یہ عمل طویل عرصے سے جاری ہے بھلا ہی دھیمے انداز میں رہا ہوالبتہ کبھی بھی بند نہیں ہوا اور اِس میں ماضی کی بظاہر سیکولر کانگریس سرکار کا اتنا ہی رول رہا ہے جتنا کہ آجکل کھلم کھلا ہندو راشٹر کے طرفدار سنگھ پریوار کی سیاسی شاخ بھاجپا کا رہا ہے۔اِس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کی جو سرکار پس از آزادی ہند و پاک و برصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آئی بھارت کی سب سے بڑی و کثیر الجمعیت اقلیت ،مسلمین ہند کے تئیں اپنے فرائض ادا کرنے میں واضح کوتاہی کی مرتکب رہی ہے۔ اِس حقیقت کی تصدیق بھارت سرکار کی جانب سے تعینات کئی کمیشنوں نے بھی کی ہے جن میں راجندر سچر کمیشن کی رپورٹ کو کئی مصنف اور تجزیہ نگاراپنی تصانیف و مقالوں میں ذکر کرتے آئے ہیں بلکہ اِس کے علاوہ بھی بین الاقوامی ماہرین نے بھی تبصرات کئے ہیں۔
’’انڈیا نے آزادی کے بعد اپنی مسلم آبادی کا خیال نہیں رکھا ہے‘‘ یہ تاثرات ہیں پروفیسر تھامس ہانسن کے جو امریکہ کی سٹین فورڑ یونیورسٹی میں جنوبی ایشائی مطالعات کے پروفیسر ہیں ۔پروفیسر موصوف کے اِن تاثرات کا اظہار اِسی سال فروری کے مہینے میں کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوراں ہوا۔ اتفاقاََ پروفیسر ہانسن کے خطبے کا عنواں تھا ’انڈیا جو چمک نہیں رہا ہے‘ ۔یہ عنواں اُس تشہیر کی ضد ہے جس کا ذکر بھارت میں بار بار ہو رہا ہے یعنی ’انڈیا جو چمک رہا ہے‘ ۔پروفیسر موصوف کا یہ ماننا رہا کہ طاقت کا توازن تقسیم بر صغیر سے پہلے ہی مسلمین کے خلاف تھا اور اُس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔پروفیسر ہانسن کا کہنا ہے کہ مسلمین ہند کے اقتصاد کو کبھی بھی رسمیت حاصل نہیں رہی اور یہ ایک پرانی کہانی ہے جہاں اُنہیں روزگارمیسر نہ رہ سکا۔اپنے نکتہ نظر کو بیاں کرتے ہوئے آگے چل کے پروفیسر موصوف کہتے ہیں کہ بھارت میں انحطاط مسلمین اُس سلوک کے ہمراہ رہا جو ہندؤں کی نچلی ذاتوں کے ساتھ روا رکھا گیا البتہ جہاں اب نچلی ذاتوں کو روزگار کے موقع میسر ہیں وہی مسلمین محرومیت کا شکار ہیں۔
پروفیسر تھامس ہانسن کے خطبے کو حقیقت کے پلڑے میں پرکھا جائے تو یہ عیاں ہے کہ جہاں عملی سیکورازم کو بالائے طاق رکھا گیا وہی بھارتی قانون اساسی کے اِس اصول کی آبیاری ہوتی رہی کہ ذات عوام الناس میں تفریق کا سبب نہیں بن سکتی چناچہ جہاں آج بھارتی سرکاری اداروں میں نچلی ذات کے افراد ہر سطح پہ نظر آتے ہیں وہی مسلمین کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے۔سیاسی میدان میں بھی نچلی ذات کے ہندو بااثر ہو رہے ہیں جبکہ مسلمین سیاسی طاقت سے محروم ہیںحالانکہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں سیاسی سطح پہ نچلی ذاتوں کے ہندو اُبھرنے لگے ہیں وہی سماجی سطح پہ اب بھی اُن سے بھید بھاؤ برتا جا رہا ہے البتہ وہ مسلمین کی مانند ریاستی پشت پناہی سے محروم نہیں ہیں۔ 
 پروفیسر تھامس ہانسن کے مطابق جہاں مسلم علاقوں میں پولیس تھانوں کی تعداد معمول سے زیادہ ہے وہی پولیس فورس میں چہار فیصدی سے زیادہ مسلمین نہیں ہے ۔اُنہوں نے اپنے خطبے میں مسلمین کے خلاف مجرمانہ سر گرمیاں کے الزامات اور حراستی اموات کا ذکر بھی کیا ۔اُن کا یہ بھی ماننا رہا کہ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات اُس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جتنے کہ منظر عام پہ آتے ہیں۔پروفیسر موصوف کے اِس وسیع خطبے میں ہر اُس نا گفتہ بہ حالت کا ذکر ہے جس سے مسلمین ہند دو چار ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ مسلمین کی ابتر حالت میں ریاستی اداروں کا ہاتھ رہا ہے جہاں سیکولرازم کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود مسلمین کی سماجی،اقتصادی و سیاسی بہبودی کیلئے مثبت اقدامات کا فقدان رہا اور اِس روش میں کانگریس کے بظاہر سیکولر نظریے اور سنگھ پریوار کے ہندتوا نظریے میں کوئی فرق رہا ہو ایسا نظر نہیں آتا۔
مسلمین ہند اپنی اِس نا گفتہ بہ حالت میں اپنی دینی و ثقافتی روش کو سنبھالے ہوئے رہے لیکن سنگھ پریوار کے صحنۂ سیاست پہ چھا جانے اور یوگی ادتیا ناتھ جیسے انتہا پسندوں کے اعلی عہدوں پہ براجمان ہونے کے بعد ریاستی ادارے جن میں عدلیہ بھی شامل ہے اب مسلم پرسنل لا پہ سوالیہ لگانے کے ساتھ ساتھ مسلمین کے مخصوص ثقافتی ورثے کو کلچرل نیشنلزم کے تابع بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔رہی بچی کھچی اقتصاد اُس پہ بھی پے در پے ضربات کے بعد ضربہ کاری لگانے کی نوبت آ گئی ہے جیسا کہ یوگی ادتیا ناتھ جی کی وزارت اعلی کی ابتدائی دنوں میں ہی دیکھنے کو ملا۔یوگی ادتیا ناتھ پہ اُنہی کے مٹھ سے زمانہ قدیم میں وابستہ بھرتری ہری کا مرکزی نکتہ نظر جو علامہ اقبالؒ کی زبانی ادا ہوا صادق آتا ہے    ع
 مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
Feedback on: [email protected]   
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندرمودی ریاسی پہنچے،چناب ریل برج کا دورہ کیا
تازہ ترین
کشمیر میں دو الگ الگ سڑک حادثوں میں 2 افراد کی موت ,5 دیگر زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?