سرینگر//تاریخی جامع مسجد کومسلسل5ویں ہفتہ نماز جمعہ کے موقعہ پر سیل کیاگیاجس کی وجہ سے لوگ ایک بار پھراس روحانی مرکز سے دور رہے۔مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے شہری ہلاکتوں کے خلاف دی گئی ہڑتال کے پیش نظر انتظامیہ نے شہر خاص کے5پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو نافذ کیااور تاریخی جامع مسجد سرینگر کو بھی سیل کیا گیا جس کی وجہ سے مسلسل5مرتبہ یہاں نماز جمعہ ادا نہ ہو سکی۔گذشتہ برس حزب کمانڈر برہانی وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد شروع ہوئی احتجاجی لہر سے اب تک گزشتہ ایک برس کے دوران26ویں ہفتہ تاریخی جامع مسجد کو مقفل کیا گیا۔مسجد کے ارد گر اضافی فورسز اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ چاروں اطراف سے تار بندی کی گئی تھی۔جامع مسجد کی طرف جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑا کی گئی تھیںاور کسی بھی شخص کو اس اور جانے کی اجازت نہیں دی۔ پولیس اور فورسز اہلکاروں نے مسجد پر اس قدر سخت پہرے لگائے تھے کہ میڈیا نمائندوں کو بھی اس طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نوہٹہ کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے دروازوں کو جمعہ کی صبح ہی مقفل کیا گیا۔وادی میں گزشتہ برس19ہفتوں تک جامع مسجد سرینگر کو انتظامیہ کی طرف سے سیل کرنے کے علاوہ عید الضحیٰ کے موقعہ پر مقفل کرنے کے بعد مخلوط سرکار نے امسال جمعتہ الوداع کے موقعہ پر جامع مسجد میںنماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی۔واضح رہے کہ جامع مسجد سرینگر میں نمازوں کی پابندی صدیوں پرانی روایت ہے جس کو وقت وقت پر حکمران کشمیری مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کرنے کیلئے بھی اپنا رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس سرکار نے2010میں جامع مسجد سرینگر کی ناکہ بندی کر کے مسلسل8 ہفتوں تک جامع مسجد میں نماز جمعہ دا کرنے پر پابندی عائد کی جبکہ محبوبہ مفتی کی سربراہی والی پی ڈی پی،بھاجپا سرکار نے بھی اپنے پیشرئوں کی روش کو اپناتے ہوئے2016میں مسلسل19ہفتوں کو مسجد کو سیل کیا۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جی اکبرنے اپنی کتاب میں لکھا ہے’’جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دور اقتدار کے دوران موتی روم کو کشمیر کا گورنر تعینات کیا گیا جس نے1819میں جامع مسجد میںنمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کی۔مولانا شمس الرحمان جنہوں نے جامع مسجد پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے، کا کہنا ہے کہ1842میں سکھ دور کے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دور میں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک اس مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔جامع مسجد کو کشمیر کے ہر دلعزیز بادشاہ سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر نے1389اور1420کے درمیان تعمیر کیا تھا۔