محبوس کشمیری رہنما مسرت عالم پر گزشتہ دنوں36 ویں بارسیفٹی ایکٹ لاگو کرکے ایک بارپھرجموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کردیاگیا ہے۔ا س سے قبل جمعہ 27اکتوبر2017کوجموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس آلوک ارادھے پر مشتمل سنگل بینچ نے وادی کے سینئر ایڈوکیٹ اور کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کے دلائل کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے مسلم لیگ چیئرمین مسرت عالم پر عائد35 واں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے )کالعدم قرار دیا تھا۔2010ء کی کشمیرایجی ٹیشن کے بعداکتوبر2010ء میں موصوف کوگرفتارکیاگیاتھا۔
سوال یہ ہے کہ اسیران کشمیرپرعائدشدہ الزامات اگر مجازعدالت میں ثابت نہ ہوں ، توپھرایکٹ پرایکٹ لاگوکر نا کیا خود قانون کی بے حرمتی نہیں ہے؟پولیس جب کسی ملزم پر فرد جرم عائد کر تی ہے توعدالت ثبوت وشواہد کا تقاضا کر تی ہے ، یہ عدالت کاکام ہوتا ہے کہ الزاما ت کی چھان پھٹک کرے اور انصاف کے تقاضوں کے تحت یا توملزم پر فرد جرم عائد کر کے سزا بولے ،بصورت دیگرملزم پر فرد جرم عائد نہ ہو تو بغیر چوں چرا اسے رہائی دلائے ۔ کشمیر میں عدالتیں یہی کر تی ہیں مگر پولیس الزامات سے بری الذمہ قیدیوں کو رہا کر نے کی بجائے اُنہیں پھر جیل کی کال کوٹھری میں کسی اور جرم کی داستان گھڑ کر ڈالتی ہے ۔ یوںانصاف کے راستے میںروڑے اٹکائے جا تے ہیں ۔ پتہ نہیں کہ عدالتوں سے جاری ہونے والے رہائی کے پروانے بسااوقات پولیس کے مزاج پر کیوں گراں گذرتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کو کوئی مخصوص سیاسی اسیر رہاکرنامطلوب نہ ہوتوپھراس کو عدالتوں میں پیش کر نا ، جرح وتعدیل کے دفتر کھولنا ، بحث وتمحیص میں الجھنا ، نئی تاریخیں لینا اور آخر پر ملزم کی عدالتی رہائی کے پروانے کو مذاق بنا نا ایک سرکس شو یا فلمی کہانی ہوسکتی ہے مگر قانون وآئین کے محافظین کا یہ کام نہیں۔ کیاا س سے عدالت کا قیمتی وقت برباد نہیں ہوتا ؟ کیا قیدیوں کے اہل خانہ اور عزیز واقارب مفت میں ذہنی اذیتوں کے شکار نہیں ہوجاتے ؟ ا س وقت جموںوکشمیر اوربیرون ریاست مختلف الزامات کے تحت لاتعداد نوجوان پابند سلاسل ہیں۔ ان کشمیری قیدیوں کے ساتھ آخر انتظامیہ کو کیاکرنا ہے ،اس بارے میں ارباب بسط وکشاد کو ایک ہی بار اپنی پالیسی واضح کرد ینی چاہیے تا کہ کسی قیدی کو اپنے بارے میں یہ زعم باطل نہ رہے کہ میں ایک دن رہائی پاکر آزاد پنچھی کی طرح اُڑوں گا ۔اگر قیدی مجرم ہیں تو ان کے خلاف ٹھوس شہادتیں عدالتوں میں پیش کی جانی چاہیے لیکن اگر یہ بے قصور ہیں تو ان کی رہائی بہانے کر کے نہیں ٹالنی چاہیے۔ عدالت کا مقصد فرد کو ریاست کے ظلم سے بچانا ہے اور فرد کو ریاست میں قانون شکنی سے روکنا ہے ۔ اس کام میں پولیس کا ایک اہم کردار ہے مگر افسوس کہ کشمیر میں جب قانون نام کی چیز ہی نہیں تو کیا کہا جائے۔واضح رہے مسرت عالم سال 2010ء کی عوامی ایجی ٹیشن ’’رگڑو‘‘کے روح رواں تھے ۔ یہ ایجی ٹیشن شمالی ضلع کپوارہ کے مژھل سیکٹرمیں مبینہ طو وردی پوشوں کے ہاتھوں تین نہتے کشمیری نوجوانوں کے حراستی قتل پر شروع ہوگئی تھی۔ اس ایجی ٹیشن میں 160؍سے زائد کشمیری نوجوان جاںبحق کردئے گئے جن میں زیادہ تر کمسن بچے شامل تھے۔ مسرت عالم کو ایجی ٹیشن کی سربراہی کے الزام میں گرفتار کیاگیا مگر جب پولیس عدالت میں ان پر لگے الزامات کو ثابت نہیں کرسکی توعدالت نے کئی بار ان کی رہائی کے احکامات صا در کئے لیکن ہر بار انہیںکمرہ عدالت سے باہراحاطہ ٔعدالت میں کسی اور ایف آئی آر کے تحت از سر نو گرفتار کیا جاتا رہا۔ شہر خاص سری نگر کے زیندار محلہ حبہ کدل میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے مسرت عالم نے 1987میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے دوران اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز کیا ۔ 1987انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کرکے اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے والی نو زائیدہ سیاسی تنظیم ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کی کئی نشستوں پر کامیابی ہورہی تھی جسے شکست میں بدل کرنیشنل کانفرنس کوکامیاب قراردیاگیا ۔اس سے کشمیرمیں ایک تلاطم پیداہوا اورہرکشمیری کی زبان پریہی سوال تھاکہ جیت تومسلم متحدہ محاذ کی ہوئی لیکن کامیابی کااعلان نیشنل کانفرنس کے حق میں کیوںکیاگیا؟اسی سلگتے سوال کے بطن سے1990میں عسکری تحریک شروع ہوئی ۔مسرت عالم بھی مسلح جدوجہد کا حصہ بنے ۔کئی ماہ وسال تک وہ عسکری کمانڈررہے لیکن بالآخروہ سیاسی راہ پرچل نکلے۔ سیاسی جدوجہدکا راستہ اختیارکرنے کے باوجود بھی وہ قیدوبندکی صعوبتوں سے ہرگز بچ نہ سکے اورگزشتہ 25برسوں کے دوران مجموعی طورپروہ تقریباََ14 ؍سال تک پابند سلاسل رہے۔ 2010کی ایجی ٹیشن کے دوران جب مسرت عالم کو گرفتارکیاگیاتوساڑھے چار سال کی اسیری کے بعد 7؍مارچ 2014ہفتے کوانہیں عدالتی حکم نامے کے تحت رہا ئی ملی ۔یہ وہ وقت تھا جب ریاست میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین تازہ تازہ سیاسی اتحاد ہوچکاتھا۔بھارتی پارلیمان میں مسرت عالم کی رہائی کے خلاف شور وغل اٹھا اور کشمیرسے دلی تک بھارت کی انٹیلی جنس اداروں نے اس رہائی پر مفتی سعید سرکارسے جواب طلبیاں کیں ۔ کئی حلقوں کی طرف سے کہاگیاکہ مسرت عالم اورسیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق پی ڈی پی کی پالیسی کا یہ ٹیسٹ کیس ثابت ہے ۔ مسرت عالم کی رہائی سے محض چندیوم قبل جب مفتی سعیدمرحوم نے بطوروزیراعلیٰ حلف وفاداری لیاتوانہوں نے اپنی پہلی تقریرمیں کشمیرکے سیاسی قیدیوں کی رہائی شروع کرنے کا عندیہ دیاتھا۔انہوں نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ کشمیر میں ان تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کرے جن کے خلاف عسکریت سے جڑاکوئی مقدمے درج نہیں ۔وزیراعلیٰ کے اس بھاشن کے تحت بارہمولہ کی ایک عدالت نے مسرت عالم کورہاکرنے کے احکامات صادرکردئے ۔ اس وقت کے ضلعی کمشنر بارہمولہ طلعت پرویز نے عدالتی احکامات کے تحت مسرت عالم کی رہائی کے احکامات دئے جواس وقت ڈسٹرکٹ جیل بارہمولہ میںمقید تھے۔مسرت عالم کوڈسٹرکٹ جیل بارہمولہ سے شہید گنج پولیس تھانے کی ایک ٹیم نے سرینگر پہنچاکر اپنے اہل خانہ کے سپرد کیا مگر چند ہی روز میں انہیں پاکستان کا پرچم لہرانے کے الزام میںپھرا ندر کیا گیا تاکہ اس رہائی پر مفتی سرکار کی تنقید کم ہو۔ 2010میں گرفتار ہونے کے بعد اب تک ان پر36مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا ہے۔11؍جون 2010 کا دن کشمیر کی لہولہو تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس روزسرینگر کے ایم پی سکول کا 12؍ویںجماعت کا طالب علم طفیل احمد متو جو سکول سے گھر روانہ ہوا تھا، پر شہر خاص میں واقع غنی میموریل سٹیڈیم کے قریب پولیس نے بلا کسی جواز کے سیدھی گولیاں چلائیں۔ طفیل متو موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا۔اس کے بعد ایک ایسی عوامی تحریک شروع ہوئی جو 6؍ماہ تک جاری رہی ۔ اس دوارن مزید جانی اتلاف کا گہرازخم کشمیری عوام کو اٹھانا پڑا۔ مسرت عالم اب اس زخمی کہانی کا ایک اور زخمی منظرپیش کر رہاہے ۔
������