جموں //سنجواں جموں میں فوجی کیمپ پر جنگجویانہ حملہ کے بعد روہنگیاں مسلمانوں پر سیاسی گلیاروں میں ہو رہی سیاست کے بیچ جموں میں چھوٹی چھوٹی جھگی بستیوں میں مقیم روہنگیائی مسلمان کہتے ہیں کہ انہیں کسی تنظیم یا پھر ایسے گروپ کے ساتھ نہ جوڑا جائے جو امن وقانون کے دشمن ہیں۔ معلوم رہے کہ اپنے ہی ملک سے جان بچا کر بھارت کی مختلف ریاستوں میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان رہ رہے ہیں ۔ جموں وکشمیر کے جموں خطہ میں بھی غیر قانونی طور پر آباد روہنگیا ئی مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموں میں گذشتہ کچھ برسوںسے 13ہزار 4سو روہنگیا ئی اور بنگلا دیشی مسلمان قیام پذیر ہیں اور یہ تارکین وطن گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہاں مقیم ہیں ۔ان خاندانوں کے بچے بھٹنڈی اور نروال بالا کے علاقوں میں ریاستی حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور کچھ مدرسوں میں داخل ہوئے ہیںتاہم ملک یا ریاست میں پچھلے کچھ برسوں سے اگر کوئی ناخوشگوارواقعہ اگر کسی جگہ پر پیش آتا ہے تو تلواراُن کے سر پر لٹک جاتی ہے ۔ پچھلے سال فروری2017میں جموں کے مختلف علاقوں میں انہیں متنبہ کرنے کے لئے جموں چھوڑو' والے بینر لگائے گئے تھے اور اس سال بھی فروری میں سنجواں جموں میں ہوئے فوجی کیمپ پر جنگجویانہ حملے کے بعد جموں میں روہنگیائی مسلمان جہاں سہمے سہمے ہیں، وہیں کیونکہ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر نے اُن کے خلاف بیان دیا ہے اُس کے بعد سے اب تک اُن کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں پرامن طریقے سے اپنے ملک کے حالات ٹھیک ہونے تک رہنے دیا جائے اور انہیں کسی بھی تنظیم یا گروپ کے ساتھ نہ جوڑا جائے ۔قاسم نگر میں رہائش پذیر نور حسین اپنے بچوں کے ساتھ انتہائی مشکل حالات میں رہ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ بھی 2000سے جموں میں ہے اور دن میںدہاڑی پر کام کر کے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، وہ امن چاہتا ہے ،اُس کا صرف اتنامطالبہ ہے کہ جموں میں رہ رہے روہنگیائی مسلمانوں کو تب تک یہاں رہنے کی اجازت دی جائے جب تک نہ اُن کے اپنے ملک میں حالات ٹھیک ہوں۔قاسم نگر سڑک کے کنارے پر اُس وقت قریب 30کنبے رہائش پذیر ہیںجو صرف ایک ہی بات کہتے ہیں’’ ہم کوئی شاہی زندگی نہیں گزارتے، ہماری جدوجہد صرف اتنی ہے کہ دن رات محنت مزدوری کریںتاکہ بچوں کو کھلانے کیلئے دو وقت کی روٹی مل سکے ۔وہ کہتے ہیں کہ ہماری قسمت ایسی ہے جہاں بھی جاتے ہیں وہاں مصیبت آجاتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ جموں وکشمیر ایک مسلم ریاست ہے وہاں زیادہ تر مسلمان رہتے ہیں اور وہاں انہیں مدد مل سکتی ہے بلکہ اس ریاست میں انہیں نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ ہندئوں سے بھی پیار محبت ملا ہے ۔ قاسم نگر علاقے میں اپنے 9بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے شیڈ میں زندگی کے ایام گزار رہے ابو گرماں نامی ایک برمی شہری نے بتایا’’ وہ جان بچا کر جموں جب پہنچا تو یہاں قاسم نگر جموں میں اُس نے دیگر روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ اپنا ڈھیرہ جمایا اور دن رات دھیاڑی پر مزدوری کرنے کے بعد بیوی بچوں کے سر چھپانے کیلئے ایک عارضی جھونپڑی تعمیر کی اور اب محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پا ل رہے ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ دنوں سے جو ہمارے متعلق خبریں آرہی ہیں اُس سے ہم خوف زدہ ہیں۔تالاب کھٹیکاںجموں میں اپنے تین بچوں کے ساتھ رہ رہے محمد یوسف کا کہنا ہے کہ وہ 2003سے یہاں رہائش پذیر ہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچیوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔وہ کہتا ہے تالاب کھٹیکاں میں اس وقت قریب 200کنبے رہ رہے ہیں ۔محمد یوسف کہتے ہیں ’’ہم سب گھر واپس جانا چاہتے ہیں اگر وہاں امن وامان ہمارا استقبال کرے، ہمیں ان جھونپڑیوں میں رہنے کی ضرورت نہیں تھی، برما میں ہمارے پاس ایک یا دو منزلہ مکان تھے ،لیکن وہاں کے حالات نے ہمیں در در بھٹکنے کیلئے مجبور کر دیا ۔محمد یوسف کے مطابق وہ نروال جموں میں ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے جہاں سے اُسے 1سو سے 2سو روپے دن کے ملتے ہیں اور اس قلیل رقم سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے ۔محمد یوسف یہ سمجھتا ہے کہ جموں میں جہاں وہ رہتا ہے وہ زمین اُس کی نہیں ہے البتہ اُسے اس چیز کی خوشی ہے کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہاں سب ہی مذاہب کے لوگ بھائی چارے سے رہتے ہیں اور انہیں ابھی تک کسی نے تنگ نہیں کیا ہے ۔محمد یوسف نے کہا پچھلے دنوں جموں میں کوئی حملہ ہوا تو اُس میں قصوروار روہنگیائی مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا۔یوسف نے کہا کہ اگر کوئی بھی روہنگیائی مسلمان کسی بھی ایسے گروپ کے ساتھ پایا جائے تو اُسے سب کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جائے۔یوسف نے کہا ’’ ہم اپنے ملک کی حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں سنتے رہتے ہیں،ہمیں دکھ ہوتا ہے، اور ہم بھارت ملک کے خلاف کبھی کوئی سازش نہیں کر سکتے ،جس نے ہم بے بس اور لاچار افراد کو پنا ہ دی‘‘ ۔