قحط کے بعد انسانوں کا دوسرا سب سے بڑا دشمن وبائی امراض تھے ،جو کسی ایک علاقے میں پھیلتے تو انسانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ کردیتے۔ وہ گنجان آباد شہر جہاں تاجروں اور سیاحوں کی بہتات ہو ،وہ اگر ایک طرف انسانی تہذیب و ثقافت کا مرکز بن جاتے تو دوسری طرف جان لیوا وبائی امراض کی آماج گاہ ہوتے۔ کسی وبا کا شکار ہوجانے کا خوف اکثر لوگوں کو رہتا۔ چودھویں صدی کی تیسری دہائی میں بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور ہونے والی وبا سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قریب بیس سال کے عرصے میں یہ وبا ایشیا سے یورپ، شمالی افریقا سے لے کر بحرالکاہل کے ساحلوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس وبا سے ۷۵ ملین سے لے کر دو سو ملین (بیس کروڑ) لوگ تک ہلاک ہوگئے۔ انگلستان میں دس میں سے چار لوگ اس کا شکار ہوئے اور وہاں کی آبادی ساڑھے تین ملین سے کم ہو کر سوا دو ملین رہ گئی۔ فلورنس کے ایک لاکھ شہریوں میں سے پچاس ہزار مارے گئے۔ حکام اس کا حل ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہوچکے تھے اور بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات میں خدا سے اس عذاب سے نجات کی دعائیں کی جاتیں۔جدید دور کے آنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ معمولی مکھی، مچھر اور پانی کے ایک قطرے سے اتنی بڑی اور خوفناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس سے پہلے تک اسے وہ زیادہ سے زیادہ بُری آب و ہوا کو ذمہ دار ٹھہراتے یا اس کا الزام جنوں، بھوتوں اور دیوتاؤں کی ناراضی کو دیتے، بلکہ ایسی وباؤں سے غیر مرئی مخلوقات پر ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا۔ پھر بلیک ڈیتھ ہی واحد وبا نہیں جو انسانوں پر عذاب بن کر نازل ہوئی۔مارچ ۱۵۲۰ء میں کیوبا کے ساحل سے ایک اسپینی بحری جہاز میکسیکو پہنچا اور اپنے ساتھ چیچک کے وائرس کے شکار ایک فوجی کو بھی لایا جسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کے کروڑوں خلیوں میں سے کسی ایک میں ایک ایسا وائرس چھپا ہے جو کسی بڑے سے بڑے ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ میکسیکو پہنچ کر چیچک نے اس کے پورے جسم کو ڈھانپ لیا۔ اسے جس مقامی خاندان کے گھر میں علاج کے لیے لے جایا گیا ،وہ بھی اس کا شکار ہوگیا اور پھر اس سے ان کے پڑوسی تک پہنچا اور یوں وہ پوری آبادی میں پھیل گیا۔ صرف دس دن میں آس پاس کی پوری آبادی قبرستان میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اور پھر گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پھیلتی اس بیماری نے پورے میکسیکو اور اس کے باہر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں میں اس کے ساتھ عجیب و غریب افواہیں اور ضعیف الاعتقادی پھیل گئی کہ بدی کے تین خدا راتوں کو مختلف علاقوں میں پرواز کرکے جاتے ہیں اور وہاں یہ عذاب نازل کردیتے ہیں۔ مختلف فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کے خداؤں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ جادو ٹونے، عملیات اور عبادات پر زور دیا جاتا۔ لاشیں گلیوں اور سڑکوں پر بکھری ہوتیں اور کوئی انہیں دفنانے کی ہمت نہ کرتا۔ آخر حکام نے حکم دیا کہ آس پاس کے مکانوں کو ان لاشوں پر گرا دیا جائے۔ کچھ علاقوں میں نصف سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہوئی۔ مارچ ۱۵۲۰ء میں جب یہ جہاز میکسیکو پہنچا تھا، میکسیکو کی آبادی ۲۲ ملین تھی۔ دسمبر تک یہ آبادی کم ہو کر صرف ۱۴؍ملین رہ گئی۔ چیچک تو صرف ایک وبا تھی لیکن اس کے بعد پے در پے بخار، خسرہ وغیرہ کئی اور وبائیں یہاں پھوٹیں اور ۱۵۸۰ء تک یہاں کی آبادی صرف دو ملین رہ چکی تھی۔
دو صدیوں بعد برطانوی سیاح کیپٹن جیمز کک جب ۱۸؍جنوری ۱۷۷۸ء کو ہوائی کے جزیرے پر پہنچا تو وہاں کی آبادی ۵ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کے لوگ اس وقت تک یورپ اور امریکا سے دور اپنے جزیرے پر الگ تھلگ رہتے تھے اور یورپی اور امریکی بیماریوں سے بھی ناواقف تھے۔ تاہم جب کیپٹن کک اور اس کے آدمی وہاں پہنچے تو اپنے ساتھ بخار، ٹی بی اور سوزاک جیسی بیماریاں بھی لائے۔ پھر مزید یورپی سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے لوگوں کو ٹائیفائڈ اور چیچک سے متعارف کرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۵۳ء تک ہوائی کے جزیرے پر زندہ بچ جانے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے کم ہو کر ستر ہزار رہ گئی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایک اور جان لیوا وباء ’اسپینش فلو‘ کے نام سے پھیلی تھی۔ چند ماہ میں دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی قریب نصف ارب لوگ اس کے وائرس کا شکار ہوئے (بیمار ہوئے)۔ انڈیا کی پانچ فیصد آبادی (۱۵؍ملین لوگ) ہلاک ہوگئے۔ کسی جزیرے کے پندرہ فیصد، کسی کے بیس فیصد اور کسی کا پانچواں حصہ ختم ہوگیا۔ کل ملا کر ایک سال میں پچاس ملین سے ایک سو ملین تک لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے۔ یاد رہے کہ مقابلتاً ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم میں چالیس ملین لوگ مارے گئے تھے۔ان بڑی اور عالمی سطح پر تباہی پھیلانے والی وباؤں کے علاوہ بے شمار چھوٹی بڑی وبائیں مختلف علاقوں میں پھیلتی رہتیں جن سے لاکھوں لوگ ہر سال ہلاک ہوجاتے۔ گذشتہ صدی میں آبادی میں اضافے اور سفر کی سہولیات کی وجہ سے بھی وباؤں کا ایک سے دوسری جگہ جلدی سے پہنچ جانے کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے وباؤں کے اثرات اورپھیلنے کی رفتارمیں ڈرامائی کمی آچکی ہے۔ سب سے بڑھ کر بچوں کی اموات کی شرح اس وقت تاریخ میں سب سے کم ہے۔ اب یہ شرح دنیا میں پانچ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ معجزہ بیسویں صدی میں ہونے والی طبی دریافتوں، ویکسین، اینٹی بایوٹک اور بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔مثال کے طور پر ۱۹۷۹ء میں عالمی ادارہ ٔ صحت نے چیچک کے خلاف جنگ جیت لینے کا اعلان کیا۔ یہ وہ پہلی خطرناک وبا تھی، جس کا زمین سے خاتمہ ممکن ہوا۔ ۱۹۶۷ء تک بھی پندرہ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے، جن میں سے دو ملین ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن ۲۰۱۴ء میں چیچک کا کوئی ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عالمی ادارے نے لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگانا بند کردی۔ ابھی بھی ہر چند سال بعد کوئی نئی وبا پھوٹتی ہے جیسے ۲۰۰۲ء میں سارس، ۲۰۰۵ء میں برڈ فلو، ۲۰۰۹ء میں سوائن فلو، ۲۰۱۴ء میں ایبولا۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس نے یہی ممکن بنایا کہ ان وباؤں کو پہلے کی طرح بے قابو ہونے سے روکا جاسکا۔ حتیٰ کہ ایڈز جیسے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں بھی قابل لحاظ پیش رفت ہوچکی ہے۔
کیا جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے؟
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے تمام ادوار میں جنگ ایک لازمی اور امن ایک عارضی حقیقت تھی۔ بین الاقوامی تعلقات میں جنگل کا قانون رائج تھا، جس کے مطابق دو ملکوں کے درمیان حالت امن میں بھی جنگ کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ مثلاً ۱۹۱۳ء میں اگرچہ فرانس اور جرمنی میں امن تھا لیکن ۱۹۱۴ء میں سب جانتے تھے کہ ان میں کسی بھی وقت جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، تاجروں اور عام لوگوں کی طرف سے مستقبل کی کسی بھی منصوبہ بندی کا مطلب جنگ کی منصوبہ بندی تھا۔ پتھر کے زمانے سے انجن اور بھاپ کے زمانے تک، قطب شمالی سے صحارا تک زمین پر ہر شخص ہر وقت اس خدشے کا شکار رہتا تھا کہ نہ جانے کس وقت ان کا پڑوسی ملک ان پر حملہ کردے، ان کی فوج کو شکست دے دے اور ان کے لوگوں کا قتل عام کر کے ان کی زمین پر قبضہ جما لے۔بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جنگل کا یہ قانون اگرچہ ختم نہیں ہوسکا لیکن کمزور ضرور پڑ گیا۔ اکثر خطوں میں جنگ کا امکان کم ہوگیا۔ قدیم زرعی معاشروں میں پندرہ فیصد لوگ جنگوں اور انسانی کشت و خون سے ہلاک ہوتے تھے، بیسویں صدی میں انسانی تشدد اور جنگ سے مرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد رہ گئی اور اکیسویں صدی کے آغاز میں صرف ایک فیصد لوگ جنگ و جدل کا نشانہ بنے۔ ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا میں مرنے والے لوگوں کی کل تعداد ۵۶ ملین تھی۔ ان میں سے ۶ لاکھ ۲۰ ہزار افراد انسانی تشدد سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار لوگ جنگوں میں مارے گئے اور ۵ لاکھ لوگ جرائم کا شکار ہوئے۔ اس کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ تھی اور ۱۵؍لاکھ لوگ ذیابیطس (شوگر) کی بیماری کے ہاتھوں جان سے گئے۔ اس وقت شوگر بارودی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔بہت سے لوگ اس لیے بھی جنگ کو ناقابل تصور سمجھنے لگے ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بعد یہ ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اسی خوف نے طاقتور قوموں کو تنازعات کے حل کے متبادل اور پرامن راستوں کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت مادی اشیا سے زیادہ علم کی بنیاد پر استوار ہورہی ہے۔ اس سے قبل دولت کمانے کے ذرائع مادی اثاثوں ،مثلا سونے کی کانوں، گندم کے کھیتوں اور تیل کے کنوؤں پر مبنی ہوتے تھے۔ آج دولت کے حصول کا بنیادی ذریعہ علم بن چکا ہے۔ آپ تیل کے کنویں پر جنگ کے ذریعے قبضہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اس طریقے سے علم حاصل نہیں کرسکتے۔ دولت اور وسائل کے حصول کے لیے علم بنیادی ذریعہ قرار پانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنگ کی منافع خیزی میں کمی آئی ہے۔ اب جنگیں انہی خطوں تک محدود ہورہی ہیں مثلاً مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ جہاں معیشت ابھی تک مادی وسائل کے پرانے ذریعوں پر انحصار کر رہی ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی مینوفیکچرنگ کے لیے کولٹن نامی سیاہی مائل دھات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں کولٹن کے ۸۰ فیصد ذخائر کانگو میں ہیں۔ کانگو کے پڑوسی ملک روانڈا نے ۱۹۹۸ء میں کولٹن دھات لوٹنے کے لیے کانگو پر حملہ کردیا۔ روانڈا نے اس لوٹی گئی کولٹن سے ۲۴۰ ملین ڈالر سالانہ کمائے۔ روانڈا جیسے غریب ملک کے لیے یہ ایک بڑی رقم تھی۔ دوسری طرف چین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ کیلیفورنیا کی سلیکان ویلی پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرلیتا، جو دنیا میں موبائل اور لیپ ٹاپ ٹیکنالوجی کا گڑھ ہے۔ اگر بالفرض وہ ایسا کربھی لیتا تو وہاں لوٹنے کے لیے کوئی مائنز نہیں تھیں۔ اس کے بجائے چین نے ایپل اور مائکروسافٹ جیسی وہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے، ان کا سافٹ ویئر خرید کر اور مینوفیکچرنگ کے ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کما لیے۔ روانڈا نے کانگو کی کولٹن لوٹ کر جتنی رقم ایک سال میں بنائی، چین نے اتنی رقم تعاون پر مبنی پرامن معیشت کے ذریعے ایک دن میں کمالی۔
مطلب یہ کہ لفظ ‘‘امن’’ کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے۔ پہلے زمانے میں امن کا مطلب تھا، عارضی طور پر جنگ کا نہ ہونا۔ آج ہم اسے جنگ کے خدشے کو معدوم کرنے کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ۱۹۱۳ء میں جب لوگ کہتے تھے کہ فرانس اور جرمنی میں امن ہے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان عارضی طور پر جنگ رکی ہوئی ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اگلے سال کیا ہونے والا ہے۔ جب آج ہم کہتے ہیں کہ فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے ممکنہ حالات میں ان دونوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ نیا حاصل ہونے والا امن محض کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ طاقت کی بھوکی حکومتیں اور لالچی کارپوریشنز بھی اب امن پر بھروسہ کرتی ہیں۔ جب مہنگی کاروں کی کمپنی مرسڈیز مشرقی یورپ میں اپنی کاروں کی فروخت کی حکمت عملی بناتی ہے تو وہ اس امکان کو مسترد کردیتی ہے کہ اب کبھی جرمنی پولینڈ پر حملہ کرسکتا ہے۔ جو کمپنی فلپائن سے کم اُجرت لینے والے مزدور بلاتی ہے تو اس کو یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ اگلے سال انڈونیشیا فلپائن پر چڑھ دوڑے گا۔ اب بجٹ اجلاس میں برازیل کا وزیر دفاع میز پر مکہ مار کر یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ یوراگوئے کو فتح کرنے کے لیے انہیں پانچ ارب ڈالر دیے جائیں۔ یقینا ًاب بھی دنیا میں ایسے ممالک ہیں، جہاں کے وزیر دفاع اور فوج کے جرنیل ایسے مطالبے کرتے ہیں، اور جہاں ابھی نیا امن حاصل نہیں ہوسکا، لیکن یہ اب استثنائی مثالیں ہیں۔