آج کل ’’می ٹو ‘‘بہت چر چے میں ہے جو مغرب کی تہذیب آذری پر ایک بڑا طمانچہ ہے ۔ حق یہ ہے کہ عورت کا سماج میں کیا مقام ہونا چاہیے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ اس بارے میں اسلام نے پوری انسانیت کے لئے بہترین اور کامل ترین پیغام عالم انسانیت کو دیا ہے۔ ایک مسلمان خاتون کے لئے اپنے گھر میں رہتے ہوئے خانگی امور کی انجام دہی، اہل خانہ کی خدمت اور بال بچوں کی پرورش و پرداخت کرنا ہی اس کا باوقار اورسنجیدہ وظیفۂ حیات ہے۔ اسلام کا اعجاز اور کمال یہ بھی ہے کہ وہ عورت کو اپنے مناسب مقام پر رکھ کر اس کی فطری صلاحیتوں کے مطابق اس کا سماجی کردار متعین کرتا ہے جو اسے ہر اعتبار سے تعظیم و تکریم کا حق دار بناتا ہے، لیکن مغربی تہذیب نے عورت کو اس کے فطری دائرہ عمل سے باہر نکال کر مردوں کے دائرہ کار میں دھکیل دیا ہے، یعنی ایک طرح سے مغرب نے عورت کو مصنوعی مرد بناکر مساوات مردوزن کا نعرہ اپنی خود غرضی کے لئے اُچھالا ہے۔
سادہ سی بات ہے جب عورت اپنی خانگی ذمہ داریوں کو بوجھ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ بیرون خانہ ذمہ داریوں میں بھی اُلجھ جائے یعنی چراغ خانہ بھی بنی رہے اور شمع محفل بھی ، تو اُس پر مرد کے مقابلے دو گنا زیادہ بوجھ پڑے گا۔ کیا یہ واقعہ مساوات ِ مردو زن ہے؟ فطرت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آپ جنسی مساوات پر عالمگیر تحریک بھی چلائیں ، لیکن بچہ پھر بھی عورت کی ہی کوکھ سے پیدا ہوگا، مرد میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ جب کہ عورت لاکھ جتن کر ے مگر مردہی اپنے گھربار اور بال بچوں کا نگہبان ہوتا ہے۔ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے مرد اور عورت سر تا پا مختلف ومتضاد ساخت رکھتے ہیں۔ اسلام نے ا س ابدی وازلی صول کی مناسبت سے ان کے درمیان تقسیم کار کی جو فطریلکیر کھینچی ہے وہ صرف معقول ہی نہیں بلکہ ودیعت شدہ صلاحیتوں کے اعتبار سے نہایت مناسب ،متوازن اور معاشرے کے فلاح و بہبود کی ضامن بھی ہے۔ البتہ صلاحیتوں اور دائرہ کار کے اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود اسلام نے مرد اور عورت کو یکساں عزت و تکریم کا مستحق ٹھہرایا ہے، کسی کو کسی پر جنس کی بنیاد پر فوقیت نہیں۔انسانی تولید میں مرد اور عورت دونوں کا حصہ برابربرابر متعین کرکے تقویٰ کی بنیاد پر دونوں کا دائرہ کار مقرر کردیا ہے۔ مساواتِ زوجین کا جو نظریہ اسلام ہمارے سامنے لاتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا ۔ انسانیت کے دشمنوں نے اپنی حکمت عملی یہ وضع کی کہ مسلم معاشروں کو ہی انہوں نے اپنی بے خدا تہذیبی جنگ کا اکھاڑہ بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں کے اندر حق وباطل کی تہذیبی کشمکش برپا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مسلم معاشروں کی تعلیمی، معاشرتی، سیاسی، عسکری اور فکری قیادتیں اس تہذیبی تصادم میں اہل مغرب کی معاونت کررہی ہیں اور متعلقہ بُرے نتائج کی فصل کاٹ رہی ہے۔مشاہدات سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ عیش پرستی اور اخلاقی قدروں کا زوال وتوڑ پھوڑ ہے ، جو انسانیت کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جارہا ہے۔
آزادیٔ نسواں اور مساوات ِ مردوزن کا مغربی فریب ایک نعرہ ہے حقیقت نہیں جو دراصل عورتوں کے استحصا ل کا اوچھاحربہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یورپ میںصنعتی انقلاب نے مردوزن کی بہ حیثیت مزدور اہمیت بڑھا دی۔ مالکانِ کارخانہ کو مین پاور کی ضرورت پڑی توانہوں نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی کام پر لگادیا۔ پھر کیا تھاکارخانوں میں مرداور عورت مزدوروں کے درمیان مسابقت کی دوڑ شروع ہوگئی اور دھیرے دھیرے یہ مسابقت رقابت میں بدل گئی، پھرمرد نے عورت کے ساتھ جھوٹی ہمدردی جتلاکر اپنی شہوت اور ہوس کو محبت کا نام دیا ، پھرمعاشرتی یکجہتی اور مساوات کے عنوان سے بنت ِحوا کو کوچہ و بازار کا متاع بنایا ۔ مغرب نے مکر وفریب کی اس چال بازی یا اپنی ہوس پرستی کو تحریک ِ آزادیٔ نسواں کا سنگِ بنیاد بنایا۔
صنعتی معاشرت نے عورت کی شخصیت کو اجتماعی سرگرمیوں میں غرق کردیا۔ دفتروں اور کارخانوں کی ملازمت، آزاد تجارتی سرگرمیوں میں شرکت، کلب، سٹیج اور رقص و سرور کی مصروفیات عورت کے وجود کا حصہ بن گئیں۔ مساوات اور آزادیٔ نسواں کے تصور نے عورت کو معاشی استقلال کے ساتھ اُن اخلاقی بندھنوں سے بھی آزاد کردیا جو مذہب اور ثقافتی روایات کی وجہ سے موجود تھے۔ نکاح آہستہ آہستہ غیرضروری ہونے لگا اور آزادانہ جنسی تعلقات واختلاط قابل قبول بن گئے۔ اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی فروغ پانے لگی۔ مادر پدر آزاد تہذیب نے عریانی اور فحاشی کو پروان چڑھایا۔ ہر صنف نے دوسرے کا جازبِ نظر بننے کی کوشش کی۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت نے آرآئش وزیبائش اور فیشن کے سامانوں کی پیداوار کے ذریعہ بے تحاشہ ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ لباس کے نت نئے فیشن اور بناؤ سنگار کا سازو سامان آتش شہرت کو بھڑکانے کا ذریعہ بنااور یہ طوفان اختلاط مردوزن سے ہی اُمڈ آیا۔ چلتے چلتے عورت تجارتی سازوسامان کی بکری کے لئے نیم عریاں کی گئی اور اپنے درد کو چھپاتے ہوئے عورت کو اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر کر اور اس کے بدن سے کپڑے اتارنے کو مساوات مردوزن کہا گیا۔ ستم تو یہ ہے عورت ملازمت کے باوجود مر دسے برابری کا درجہ نہ پاسکی۔ ننگے پن کی آزادی اسے ملی مگر اس آزادی نے اس کے پاؤں میں غلامی اور استحصال کی بیڑیاں ڈال دیں۔جاب مارکیٹ میں عورتوں نے بعض شعبوں میں مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لیکن وہ کبھی خود کو جنسی استحصال سے نہ بچاپائی۔ ’’می ٹو‘: اسی داستان کا نیا عنوان ہے ۔الغرض عورت کوآنکھوں پر بٹھانے کی ایکٹنگ کر نے والا مغرب نے راہ رو تہذیب اور شہوت پرستی کے سمندر میں غرق ہوتی نظر آرہا ہے۔اس آزادی کے نام پر طوائف، جنسی ورکرز، بار ڈانسر اور وی آئی پی ایسکارٹ پر مشتمل ایک نئی دنیا وجود میں آئی ہے، جو باہر سے چکاچوند دکھتی ہے مگر اندروں اس کا تاریک تر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عورت کی پامالی کو اب سیکس انڈسٹری کا نام دیا گیا ہے۔
نام نہاد مساوات اور آزادی کے ڈسکورس نے عورت کو مردوں کی دنیا کا تماشہ بنا کے رکھ دیا۔ اس نے عورت سے اس کی نسوانیت، بردباری اور وقار چھین لیا، ا س کا برقعہ گیا، پھر دوپٹہ گیا اور بعد میں وہ احساس کہ یہ سب مساوات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دانشور زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق مرد وزن کی مساوات کا اسلامی بیانیہ متعارف کریں تاکہ عورت اور مرد کو فطری مساوات کے تحت اسلام کے اخلاقی اصولوں نے جس طرح سے مزئین کردیاہے، وہ اجاگر ہو۔
’’بے شک جو مرد اور جوعورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جُھکنے والے ہیں وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اللہ ان کی مغفرت کرے گا اور انہیں بڑا اجر عطا کرے گا۔‘‘
رابطہ: 9469679449