سرینگر//مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک ریاست کی نیم خودمختار حیثیت بحال کرنے کی وکالت کرتے ہوئے تاجروں ،قانون دانوں اور سیول سوسائٹی کے اتحادی پلیٹ فارم جموں کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی نے مرکزی وزیر داخلہ کو مزاحمتی جماعتوں اور پاکستان سے غیر مشروط اور معیاد بندمذاکراتی عمل شروع کرنے کا مشورہ دیا۔کارڈی نیشن کمیٹی نے ریاست بالخصوص آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلاء اور کالے قوانین کی تنسیخ کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرنے اور اس میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں دینے کا بھی مطالبہ کیا۔اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرکردہ تاجر اور جموں کشمیر کارڑی نیشن کمیٹی کے عہدداروں ظہور احمد ترمبو ،ڈاکٹر مبین شاہ،سراج احمد اور شکیل قلندرنے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ 1947میں جموں کشمیر جو اقتصادی طور پر خود کفیل تھا اور کودوسروں پر انحصار کرنی والی ریاست کیونکر بنادیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کو یہ فخر حاصل ہے کہ1905میں پہلا بجلی گھر بنانے کے بعد آبی وسائل موجود ہونے کے باوجود بھی بجلی میں7 دہایاں گزرنے کے برعکس بھی کیوں بجلی کے شعبہ میں خود کفیل نہیں بنایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ریاست میں ایک بھی شہری ہوائی اڈہ نہیں بنایا گیاجبکہ آر پار تجارت پر بھی ضرب لگا دی گئی کیونکہ اس میں شامل ہر ایک تاجر کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے راڈار پر رکھا گیا۔ کارڈی نیشن کمیٹی نے کہا کہ وزیر داخلہ کا بنیادی کام ہر ایک شہری کا تحفظ یقینی بنانا ہے تاہم انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا ’’نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے حصول کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کی زندگیوں کو جہنم زار کیوں بنایا ۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں فورسز عوام کے ساتھ دشمن فوج جیسا سلوک کیوں روا رکھ رہی ہے،اور نوجوانوں کا’’قتل عام،انہیں آنکھوں کی روشنی سے محروم کرنے اور معذور بنانے کے علاوہ جائیداد کو تباہ کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے،اور معیاری ضابطہ کار کشمیر میں کیوں اپنائے نہیں جا رہے ہیں‘‘۔کارڈی نیشن کمیٹی نے وزیر داخلہ سے14سوالات پوچھتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ مشتعل بھیڑ سے نپٹنے کیلئے پیلٹ بندوقوں کا متبادل استعمال کیا جائے گا،تاہم اس کے باوجود پیلٹ بندوقوں کا استعمال کیوں جاری ہے۔ظہور احمد ترمبو،شکیل قلندر،سراج احمد اور ڈاکٹر مبین شاہ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ حکومت ہند، جسٹس ورما کمیشن کی ان سفارشات کو کیوں لاگو نہیں کرتی،جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی آبرو ریزی کے ملزم اہلکاروں کے خلاف سیول کورٹ میں مقدمہ چلایا جانا چاہے‘‘۔ انہوں نے پوچھا کہ بھارت کے وعدوں کی یاد دہانی کرنی والی کشمیر کی اصل اور حقیقی لیڈرشپ کو بدنام اور خوف زدہ کیوں کیا جا رہا ہے،جبکہ کشمیر میں کب تک افسپا اور پی ایس ائے جیسے کالے قوانین کا نفاذ جاری رہیں گے۔کارڈی نیشن کمیٹی نے کہا کہ حکومت ہند ریاست کی خصوصی حیثیت کو ضرب لگانے کیلئے بے قرارکیوں رہتی ہے اور الیکٹرانک میڈیا کو کشمیری عوام و لیڈرشپ کو بدنام و بے عزت کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کیوں اکثریتی طبقے کے سر پر ڈالی جارہی ہے،اور اسکی اصل وجوہات جاننے کیلئے کسی بین الاقوامی ادارے کو جانچ کا کام کیوںسونپا جا تا۔ انہوں نے کہا کہ جو مسائل ہم نے ابھارے ،’’انہیں وزیر داخلہ اپنے ملک کی خدمت میں ایڈرس کریں‘‘۔ جموں کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی نے وزیر داخلہ کو ریاست میں پرامن ماحول بنانے کیلئے7نکات پر مشتمل مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’ تاجروں اور لیڈرشپ کے خلاف تشدد آمیز معاملات روا رکھ کر ایجنسیوں سے تحقیقات کے نام پر بدنام کرنے کی کاروئیوں کو فوری طور پر روک دیا جائے‘‘۔