مسئلہ کشمیر پچھلے ۷۰ سال سے حل طلب مسئلہ ہے جس کو اتنے سال گزرنے کے باوجود حل کرنے کی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔اس مسئلہ کا اتنی دیر تک لٹکے رہنے کی بھی بنیادی وجہ بھی بھارتی سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے جو ایک جانب مسئلے کو دائمی طور حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری ہی بات میں اٹوٹ انگ کاراگ الاپ کر گویا مسئلہ کے تصفیہ سے کنی کتراتے ہیں۔ ریاست میں سیاسی غیر یقینیت سے یہاں کے مظلوم عوام مسلسل ایک عذاب سے دوچار ہیں ۔ اس ماحول میں یہاں کے عوام کی کوئی چیز محفوظ دکھائی نہیں دیتی ۔ ہر دن خون ناحق سے ریاست کا چپہ چپہ لالہ زار بنادیا جاتا ہے۔کسی نہ کسی بد نصیب ماں کی کوکھ اجاڑ دی جاتی ہے۔کوئی بہن اپنے بھائی کے داغ مفارقت پر خون کے آنسو روتی ہے۔کسی کا شریک حیات نہایت سفاکیت سے چھین لیا جاتا ہے اور اس کی پوری زندگی جہنم سے زیادہ بدتر بن جاتی ہے۔ کمر توڑ محنت سے حاصل کی ہوئی املاک کو آن کی آن میں برباد کیا جارہا ہے۔گھروں ، عمارتوں اور اثاثوں کو یک لخط نذر آتش کرکے آسودہ حال لوگوں کو مفلوک الحال بنا دیا جاتا ہے ۔تاہم یہ سب مسئلہ کشمیر کے زیر التوی رہنے کے کڑوے کثیلے پھل ہیں جن کو کھانے کے لیے مظلوم کشمیریوں کو مجبور کیا جارہا ہے۔
حقیقت میں اس وقت کشمیری عوام کو جتنے مسئلے اور مشکلات درپیش ہیں اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو سب مسائل کے ڈانڈے مسئلہ کشمیر سے جا ملتے ہیں۔ کچھ معاشرتی اور اخلاقی مسائل نے ضرور مستقل شکل اختیار کی ہے لیکن حقیقت میں ان مسائل کے سوتے مسئلہ کشمیر سے پھوٹے ہیں۔سامنے کی بات ہے کہ یہاں کی نوجوان نسل کو ایک منصوبہ بند طریقے سے اپنے دین، تہذیب، ثقافت اور روایات سے برگشتہ کیا جارہا ہے اور اخلاقی انارکی میں اسے دھکیلنے کے لیے میدان ہموار کیا جارہا ہے ۔تمام وسائل و ذرائع نوجوان نسل کو اپنی شناخت سے دست بردار کرنے کے لیے آزمائے جارہے ہیں تاکہ مسئلہ کشمیر کی حساسیت سے اس کو منحرف کیا جائے۔ معاشرے کو ایک خاص ڈھپ پر لانے کے لیے ایسے ایسے پروگرامات تشکیل دیے جارہے ہیں تاکہ مضبوط بنیاد سے اس سماج کو تہی دامن کیا جائے۔ یہاں پر جاری تعلیمی نظام بھی ان سازشوں کے نفاذ کی خاطرمعاون و مددگارثابت ہورہا ہے ۔ اگرچہ تعلیمی نظام میں خامیاں اور کمزوریاں تو انگریز کے دور سے چلی آرہی ہیں بل کہ یہ نظام انگریز کا ہی دیا ہوا ہے جس کو من و عن پورے ہندوستان میں اور پھر ریاست جموں کشمیر میں عملایا گیا ۔ اس تعلیمی نظام کی بے مقصدیت واضح ہے۔ یہ تعلیمی نظام انسانی و اخلاقی اقدار سے خالی ہے۔ مادیت کو انسانی زندگی کا مطمح اور منتہی قرار دیا گیاہے۔ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کا فلسفہ قلب و ذہن میں راسخ بنایا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار اور روھانی جذبے روز بروز پژمردہ ہورہے ہیں۔ بے حیائی، بے شرمی، عریانی، اختلاط مردوزن، جنسی انارکی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ کلچر اور ثقافت کے نام پر رقص و سرود اور ناچ نغموں کو تعلیم سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اپنی مقدس روایات اور اپنی خاص شناخت سے دست کش ہوگئے تو لازماً ہمارے مستقبل اور مسئلہ کشمیر پر بھی اس کے زہر ناک اثرات پڑسکتے ہیں ۔دور بین نگاہوں سے یہ چیزیں اوجھل نہیں ہوسکتیں بل کہ ان کی طرف اولین فرصت میں متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
کشمیر قضیہ کا پر امن حل نہ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ہر شعبہ ٔ زندگی بری طرح سے متاثر ہوچکا ہے۔ کشمیری لوگوں کی صحت پر بھی اس کے منفی اثرات پڑچکے ہیں۔ ہندوستان کے ایک اخبار The Tribuneکی ایک رپورٹ ،جو اکتوبر ۲۰۱۷ میں شائع ہوئی، کے مطابق ۷۰ ہزار لوگ ذہنی امراض کاشکار ہوچکے ہیں۔ اس پر جب بحث ہوئی تو ایک مشترکہ بات یہ سامنے آئی کہ کشمیری مسلسل وار زون میں رہ رہے ہیں ۔ گولیوں کی گن گرج، مار دھاڑ، فوج کا بے پناہ جمائو اور تشدد آمیز ماحول ذہنی تنائو کی بنیادی وجہ بن رہاہے ۔ آئے روز کشمیر کے مختلف اخبار و رسائل میں صحت عامہ کے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں اگر ان پر سرسری طور نظر ڈالی جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کی بڑی آبادی متنوع امراض میں مبتلا ہوچکی ہے اور یہ سب کشمیر کا پائدار حل نہ ہونے کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
پنجہ ٔ استبداد میں جکڑی گئی قوموں پر ہمہ جہت مصائب مسلط ہونا کوئی مستبعد بات نہیں ۔ غلامی کا یہ خاصہ ہوتا ہے۔کشمیری مسلمانوں کی مثال بھی اس سے مختلف نہیں۔ بنیادی مسئلہ کے حل طلب رہنے سے جو آف شوٹ مسائل کا سامنا کشمیر ی عوام کو ہے ان میں اہم مسئلہ بیوہ گان کی بڑھتی تعداد ہے۔ پر آشوب حالات میں ہزاروں کی تعداد میں جوان شہید ہوئے جن میں شادی شدہ لوگوں کی بھی خاصی تعداد ہے ۔ شہداء کی بیوہ گان کی کفالت اور دادرسی پوری کشمیری قوم پر فرض ہے اس میں غفلت اجتماعی طور پر جرم عظیم تصور کیا جائے گا۔ اگر چہ اس حوالے سے بہت سارے منصوبے بنائے گئے پر ابھی تک کوئی مؤثر اور عملی طور پر کار آمد طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جن سے ان کی مشکلات کا کسی حدتک ازالہ کیا جاتا اور لاچاری اور کس مپرسی کی زندگی سے ہماری بہنیں نجات حاصل کرپاتیں۔ایک اندازے کے مطابق وادی میں بیوہ گان کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔اسی کے دوش بدوش ایک لاکھ سے زائدمعصوم یتیم بچوں کی حالت زار ہمارے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ ان کے خوردو نوش کی ضروریات اور سب سے زیادہ ان کی پڑھائی کا اہتمام کرنا مزاحمتی قیادت سے لے کر عوام تک منصبی ذمے داری ہے اگر اس میں ہم نے غفلت پرتی تو خالق ارض و سماء کے سامنے ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیںگے۔
بہ ہر کیف یہاں چند مسائل کا تذکرہ کیا گیا جو سب مسئلہ کشمیر کے زیر التواء رہنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ مسائل درخت کی شاخیں ہیں جو اس مسئلہ کو حل نہ ہونے کی وجہ سے نکلی ہیں ۔ ان مسائل کی جانب بھی توجہ دینی ہوگی اور مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک ان کو back burner پر نہیں رکھا جاسکتا مگر جڑ کو ایڈریس کرنے کی از حد ضرورت ہے۔ بھارت اورپاکستان کو کشمیر کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں لے کر مسئلہ کشمیر کا پر امن، پر وقار اور دائمی بنیادوں پر عوام کی آرزئوں اور تمنائوں کو مد نظر رکھ تاریخی تناظر میں حل تلاش کرنا ہوگا تب ہی جموں کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کو راحت کا سانس لینے کا موقع ملے گا اور اس لا ینحل مسئلے سے جو چھوڑے ،بڑے مسئلے جڑے ہوئے ہیں وہ بھی حتمی طور پر حل ہوجائیں گے ۔گزشتہ ستر سال سے کشمیری مسلمانوں کو جو گہرے زخم لگے ہیں ، اس مسئلے کے منصفانہ وآبرومندانہ حل ہونے سے امید قوی ہے کہ ہ بھی دھرے دھیرے مندمل ہوجائیں گے۔