سرینگر //بی جے پی اور پی ڈی پی پر ریاست میں ہلاکتیں کروانے کا الزام لگاتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دلی میں طلبہ یونین کی سابق نائب صدر شہلا رشید شورا نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر انسانی حقوق اور دہشت گردی کا مسئلہ نہیں بلکہ ’’آزادی ‘‘اور سیاسی مسئلے کے حل کا معاملہ ہے ۔سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں سوموار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہلا رشید شورا نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر انسانی حقوق اور دہشت گردی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ آزادی اور سیاسی مسئلہ کو حل کرنے کی مانگ کا مسئلہ ہے ،جو لوگوں کو دینی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں سال 1947کی قرار دادیں موجود نہیں ہوتیں تب بھی حکومت کو لوگوں کی بات مانی چاہئے اور لوگ جو مانگ رہے ہیں ، انہیں دینا چاہئے، چاہئے وہ مانگ آزادی ہی کی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا ’ بی جے پی اور پی ڈی پی حکومت سال 2019کے انتخابات میں فائدہ اٹھائیں کیلئے جموں و کشمیر اور دیگر جگہوں پر ہلاکتیں کروا رہی ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ یہ سب کو معلوم ہے کہ پہلے نوجوانوں پر کیس کئے جاتے ہیں اور بعد میں انتخابات کے دوران ان سے کیس واپس لینے کے وعدے کئے جاتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ مین سٹریم جماعتیں ہی نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کررہی ہیں۔ شہلاشورا نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسلئے جموں میں 8سالہ بچی عاصفہ کے قتل میں ملوث افراد کو ریلیوں کی اجازت دی جاتی ہیں جبکہ ہمیں پریس کانفرنس کرنے کیلئے بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس سے قبل ہم سے یہ تحریری طور پر لکھ کر دینے کیلئے کہا گیا کہ وہ صرف سماجی مسائل پر بات کریں گی انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ آپ صرف سماجی مسائل پر بات کرسکتے ہیں سیاسی مسئلے پر کوئی بات نہ کریں ورنہ آپ کے خلاف کیس درج ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں میںعاصفہ کے قتل میں لوگوں کو بچانے کیلئے کی جانے والی ریلیوں کو اجازت دی جارہی ہے تاکہ جموں و کشمیر کی ریاست کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا جائے مگر ہم مظاہرہ کرتے وقت مذہب یا ذات کو مد نظر نہیں رکھتے۔شورا نے ریاستی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی اور دیگر کالجوں و سکولوں میں طلبہ یونیوں کے انتخابات کی اجازت دیکر وہاں طلبہ کو بحث و مباحثے میں شامل ہونے کی اجازت دینی چاہئے۔ نوجوانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے شہلا رشیدنے کہا کہ جموں و کشمیر میں حکومت پہلے خراب پالیسی تیار کرتی ہے اور بعد میں دو سال تک نوجوان اس پالیسی کو لیکر احتجاج کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پھر برسراقتدار پارٹیاں نوجوانوں کے ساتھ وعدے کرتی ہے۔ پالیسوں کو واپس لیا جائے گااور اسی دوران انتخابات کا وقت آتا ہے۔ ریاستی حکومت سے ایس آر او 202کوسیاسی مسئلہ نہ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس آر او 202بنیادی حقوق کے قوانین کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار نے ممبر ان اسمبلی کی تنخواہ 80ہزار سے 1لاکھ 60ہزار کردی ہے مگر جو ملازمین سرکار کا نظام چلاتے ہیں انکے ساتھ ایسا کرنا بلکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے ایس امتحانات کیلئے سال 2015میں نوٹیفکیشن جاری کی گئی تھی مگر اب بھی تک کے ائے ایس مینز کے امتحانات منعقد نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امتحان نہ ہونے کی وجہ سے بھی نوجوان مشکل میں ہے اور اس چیز کو ریاستی حکومت کو جلد حل کرنا چاہئے۔انہوںنے کہا کہ جس طریقے سے کالجوں اور سکولوں میں طلبہ و طالبات کو پیلٹ اور ٹیر گیس شل کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے اور ہم اسکی مزمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کہتی ہے کہ نوجوانوں کو تشدد کا راستہ ترک کرنا چاہئے تو حکومت کو بھی لوگوں کے خلاف تشدد بند کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے طلبہ و طالبات پر ٹیر گیس شل اور پیلٹ کا استعمال ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار کے پاس ان سے بات کرنے کی کوئی پالیسی نہیں جسکی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم ہتھیار اٹھارہے ہیں۔ ریاستی سرکار کی سرنڈر پالیسی پر سوال کھڑا کرتے ہوئے شہلا رشیدنے کہا کہ ریاستی حکومت کی سرنڈر پالیسی کہا ں ہے اور حکومت کو آئندہ سال بھی سے لوگوں کے سامنے جانا ہے تو پالیسی کہاں ہے اور وہ نوجوانوں کو سرنڈر کرانے میں کامیاب کیوں نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرنڈر پالیسی کے بائوجود بھی نوجوانوں کامارا جارہا ہے کیونکہ بی جے پی کے پاس سال 2019کے انتخابات کیلئے کوئی بھی ایجنڈا نہیں ہے اور اسلئے وہ ریاست جموں و کشمیر کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایجنڈا لوگوں کو ہر جگہ مارنے سے پیدا ہوگا۔