قیصر محمود عراقی
ہر سال کی طرح ایک بار پھر یکم مئی آگئی ۔ اب پھر مزدوروں کے رہبر ورہنما بیدار ہونگے، ایک بار پھر دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کیلئے ریلیاں ، مظاہرے، سیمینار اور دیگر پروگرامز کا انعقاد کیا جائیگا۔ ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جتنے بھی مزدور کے خیر خواہ بنے ہوئے ہیں وہ سب صرف ایک دن یعنی یکم مئی کیلئے بیدار ہوتے ہیں اور اس ایک دن کیلئے مزدور یونین ، این جی او اور سیاسی وسماجی تنظیمیں اپنا کردار ادا کرنے یا پھر نمبر گیم کرنے کیلئے میدان میں آتی ہیں۔ یکم مئی وہ واحد دن ہے جس دن ہر طرف مزدوروں کے حقوق کی باتیں کی جارہی ہوتی ہیں، کوئی کہتا ہے مزدور غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو کوئی بولتا ہے کہ مزدور کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے، یعنی جتنی منھ اتنی باتیں ہوتی ہیںمگر عملی کام صفر ہوتا ہے۔
یکم مئی ہندوستان میں بھی بڑے زور وشور سے منایا جاتا ہے، ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں مزدوروں کے حقوق کیلئے خصوصی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں جہاں امیر لوگ مزدورکا لیبل لگا کر پہنچ جاتے ہیں جبکہ غریب مزدور کو اس ہوٹل پر کھڑے سیکوریٹی گارڈ اندر داخل تو دور کی بات باہر بھی کھڑے نہیں ہونے دیتا۔ بڑے بڑے لیڈر تقاریر جھاڑ کر اپنا فرض پورا کرنے کی ناجائز کوشش کرتے ہیں، سب سے اہم اور ستم کی بات یہ ہے کہ دن مزدوروں کا اور فائدہ امیر اٹھاتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی دن کسی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے تو پھر اس دن اس شخصیت کو ہر جگہ اہمیت حاصل ہوتی ہے اور بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’چلویارآج اس کا دن ہے‘‘مگر ادھر ٓاوے کا آوابگڑا ہوا ہے، نام مزدوروں کا دن ہوتا ہے اور اہمیت امیروں کو دی جاتی ہے۔
یکم مئی کوہندوستان بھر میں مزدور ہر روز کی طرح اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے محنت کرتے ہیں، ان کو اس دن سے کوئی سر وکار نہیں، بس اپنے بچوں کیلئے روزی کمانے سے غرض ہے۔ یکم مئی کو ہر فورم پر مزدوروں کی فلاح وبہبود کیلئے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں، دعویٰ کیا جاتا ہے مگر ان پر کبھی عمل بھی ہوا ہے؟ کبھی کسی حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ یکم مئی کے دن ان مزدورو ں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، حکومتی سطح پر کوئی وظیفہ دیکر ان کو چھٹی بھی دی گئی ہو کہ وہ اس دن اپنی فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی دن گذار سکیں۔ نہیں ،بلکہ حقیقت یہی ہے کہ نعرے ہم مزدروں کے حقوق کے لگاتے ہیںاور فائدہ امیروں کو پہنچاتے ہیں، مزدوروں کے فنڈ کے نام پر کروڑوں روپئے لیئے جاتے ہیںاور مزدوروں پر جب خرچ کرنے کی نوبت آجائے تو وہ بڑی مشکل سے ہزاروں میں ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یکم مئی کے دن تمام لوگ اپنے گھروں میں چین کی نیند سو رہے ہوتے ہیںیا چھٹی کا فائدہ اٹھاکر گھوم پھر رہے ہوتے ہیںاور مزدور اس دن بھی مزدوری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ اب تو ایسا ہے کہ بہت سے مزدوروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یکم مئی کے روز یوم مزدور منایا جاتا ہے، وہ تو اس دن بھی فکر روزگار میں مگن ہوکر گھر سے کام کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالت کبھی نہیں بدلی، مزدور کل بھی کمزدور تھا اور آج بھی کمزور ہے، مزدور کل بھی مفلوج حال تھاآج بھی مفلوج حال ہے، مزدور کل بھی مظلوم تھاآج بھی مظلوم ہے۔ دنیا کے کسی بھی شعبے کے ورکرز کیلئے سب سے اہم ان کی تنخواہ ہوتی ہے، اس سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے ، مگر ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مہینہ بھر دل وجان لگاکر کام کرنے کے باوجود قلیل تنخواہ کیلئے بھی خوار ہونا پڑتا ہے، تنخواہیں کئی کئی مہینوں تک روک کے رکھا ہوا ہوتا ہے، جس کے سبب ان کے گھروں میں فاقے کی نوبت آجاتی ہے۔
پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ بنانے والے ہاتھ کسی بادشاہ یا حکمران کے نہیں ہوتے، زمین کا سینہ چیڑ کر فصل اگانے والے ہاتھ جاگیردار کے نہیں ہوتے، کارخانوں سے تیار ہوکر نکلنے والے مال سیٹھ کے ہاتھوں سے نہیں بنا ہوتا۔ ہمارے اردگرد موجود ہماری ضروریات کی تمام اشیاء گاڑیاں ، بسیں، عمارتیں اور سڑکیں سب ایک محنت کش کے ہاتھ سے بنے ہیںجن کو ہم اپنے استعمال میں لاتے ہوئے آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمیں بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ اسے فلاں دکان سے خریدا ہے اور اسے کیسے استعمال کرنا ہے، ہم اس چیز کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے کمپنی کی تعریف ضرور کرتے ہیں اور فخر سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے اتنے میں خرید لائے ہیں، لیکن ہم نے اس پر کبھی غورنہیں کیا کہ اس کو بنانے والے انسان اسے خود بھی استعمال کرتے ہونگے یا نہیں۔ ہم ہر سال یوم مزدور مناتے ہیں، ان کے حق کی فرضی اور بناوٹی باتیں کرتے ہیں، تحریریں لکھتے ہیں، لیکن ہم ایک مزدور کے دکھ اور تکالیف کو محسوس نہیں کرسکتے جس سے وہ گذر رہا ہوتا ہے۔ مزدور کی زندگی مزدوری سے شروع ہوتی ہے اور مزدوری کرتے کرتے ایک دن زندگی کی ختم ہوجاتی ہے، مگر کسی کو ان کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یکم مئی کے دن کسی مزدور کو کسی کانفرنس ، جلسہ یا اجلاس میں خصوصی طور پر مدعوکرکے ان کی مشکلات کو سنا جائے اوراس کے ازالے کیلئے کوئی اقدامات کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی مزدور کے جسم سے اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو، مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ مزدور رقم کی حصول کیلئے مزدوروں سے زیادہ اس رقم دینے والے کی منتیں زیادہ کرتا ہے۔ ہم سالوں سے یکم مئی یعنی مزدور ڈے مناتے آرہے ہیںاور سالوں سے یہ عہد کررہے ہیں کہ ہم مزدوروں کیلئے جدوجہد کرینگے لیکن کلمات محض ہوائی فائرنگ ثابت ہوتی ہے، مزدور طبقے آج بھی وہیں پڑے ہیںجہاں سالوں پہلے تھے۔ ہمارے ملک میں ان کی حالت نہیں بدلی، ہاں ایک چیز ضرور بدلی ہے، وہ ہے مزدورخود کسی زمانے میں باپ مزدور ہوا کرتا تھااب اس کی جگہ بچے نے لے لی ہے۔ بہر حال اگر اب بھی حکومت ان کی بہتری کیلئے زبانی وعدوں سے نکل کر عملی میدان میں کام کریں تو یہ مزدور طبقہ جھولی اٹھا کر دعائیں کرینگے۔ حکومت کو چاہئے کہ مزدوروں کے حالات پر غور کرے اور مزدوروں کیلئے کچھ کرے۔ آج اس دن کی مناسبت سے حکومت یہ پلے باندھ لے کہ ہم مزدور بھائیوں کے مسائل حل کرینگے تو یہ ملک وعوام دونوں کیلئے سودمند ثابت ہوگی۔ ( رابطہ۔6291697668)