سرینگر//پولیس کی طرف سے میر واعظ عمر فاروق کی پریس کانفرنس ناکام بنانے کے بعد سماجی رابطہ گاہ’’فیس بُک‘‘ کا سہارہ لیتے ہوئے حریت(ع) چیئرمین نے الزام عائد کیا کہ تفتیشی ادارہ(این آئی اے) کی طرف سے مزاحمتی قیادت کو نقلی اور بے بنیاد کیسوں میں پھنسا کر قانونی اور عدالتی پیچیدگیوں میں الجھایا جا رہا ہے‘‘۔ میرواعظ عمر فاروق نے خانہ نظر بندی کے دوران ہی سنیچر کو اپنی رہائش گاہ واقع نگین میں پریس کانفرنس طلب کی تھی،تاہم پولیس نے انہیں پریس کانفرنس دینے سے روک دیا۔نامہ نگار اور فوٹو وویڈیو جرنلسٹ سنیچر کو3 بجے کے قریب میر واعظ عمر فاروق کی نگین رہائش گاہ پر پہنچے،تاہم پولیس نے انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں میر واعظ عمر فاروق نے سماجی رابطہ گاہ فیس بک کا سہارا لیا اور خطاب کیا،جس کے دوران انہوں نے واضح کیا کہ ایک منصوبے کے تحت مزاحمتی لیڈر شپ کو نہ صرف بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،بلکہ انہیں اعصابی تھکن میں بھی مبتلا کیا جا رہا ہے۔میر واعظ نے تاہم کہا کہ وہ صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہیں،اور ان چینلوں کو جواب دینا ،یا قانونی کارروائی کرنا بھی ہتک آمیز سمجھتے ہیں،جنہوں نے مزاحمتی جماعتوں کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’حکومت ہند اور انکا میڈیا جموںوکشمیر کے ان تمام لوگوں سے جو مسئلہ کشمیر کے حل کو ایک منطقی تقاضا سمجھتے ہیںکے ساتھ پیچیدہ اعصابی کھیل کھیلنے کی پالیسی پر گامزن ہے‘‘ ۔ان کا کہناتھا کہ اس سلسلے میںکشمیر کی مزاحمتی سیاسی قیادت کی اہمیت اور ان کے سیاسی وقار کو کم کرکے انہیں مسئلہ کشمیر پر کسی مذاکراتی عمل میں ان کی شمولیت پر سوالات کھڑے کرنا اس منصوبے کی پہلی کڑی ہے،اوراس مقصد کیلئے این آئی اے کا استعمال کرکے جعلی اور بے بنیاد کیسوں میں پھنسا کرہمیں قانونی اور عدالتی پیچیدگیوں میں الجھانا ہے۔میر واعظ نے کہا ’’ ہندوستانی میڈیا کو استعمال کرکے ہمارے خلاف ایک منظم اور مسلسل مہم کے ذریعے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیکر ہمارے خلاف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔میر واعظ نے کہا کہ یہاں تک کہ میرے افراد خانہ کو بھی اس جھوٹے پروپیگنڈے میں گھسیٹا جارہا ہے جو انتہائی قابل مذمت اورافسوسناک ہے۔۔میر واعظ نے کہا کہ میرے والد نے 1970میں انجمن اوقاف جامع مسجد کی بنیاد ڈالی تاکہ تاریخی جامع مسجد کا صحیح رکھ رکھائو کرکے اسکی شان کو بحال رکھا جاسکے۔یہ محسوس کیا گیا کہ محض چندے کی بنیاد پر یہ کام انجام نہیں دیا جاسکتا اس لئے ایک فیصلے کے تحت مسجد کے ارد گرد200 دکانات تعمیر کرکے ان کے کرایہ سے جامع مسجد کا صحیح رکھا رکھائو کیا جاسکے اور تب سے لیکردکانات کے کرایہ سے وصول ہونے والی آمدنی مسجد اور اس کے ملحق درسگاہوں کے انتظام پر صرف کی جارہی ہے اور اس کے علاوہ بیوائوں اور بے سہارا عورتوں کو امداد فراہم کی جاتی ہے۔ان کا کہناتھا کہ یہ الزام کہ میں اوقاف کا پیسہ اپنے ذاتی استعمال میں لاتا ہوں یا یہ کہ اس کو سنگ بازی یا اسکولوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے انتہائی بیہودہ ہے۔میر واعظ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’ جہاں تک اسلامیہ ہائی اسکول اشاجی پورہ اسلام آباد کا تعلق ہے تو یہ نصرۃ الاسلام کے تحت چلایا جانے والا سکول تھا لیکن میرے والد کے وقت میں اس اسکول کا انتظام مقامی ٹرسٹ کو سونپا گیا‘‘ ۔انہوں نے کہا اس اسکول سے وابستہ دکانات وغیرہ کی آمدنی اُسی مقامی ٹرسٹ میں جاتی ہے جو اس اسکول کو چلاتے ہیں اور میرا ان مالیاتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ میرواعظ رسول شاہ صاحبؒ نے 1899 ء میں انجمن نصرۃ الاسلام کا قیام عمل میں لایا اور یہ سکول ذاتی اغراض و مقاصد سے بالا تر افراد پر مشتمل ایک بورڈ چلا رہا ہے اور ان اسکولوں میں زیادہ تر سماج کے غریب ،پسماندہ اور یتیم بچے زیر تعلیم ہیں جہاں ان کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔میر واعظ نے کہایہ انتہائی گھٹیا الزام لگانا کہ میں ان اداروں کی رقومات میں ذاتی استعمال یا اپنے مصارف میں خرچ کرتا ہوں یا پھر اسکو تعلیمی اداروں کو نذر آتش کرنے کیلئے استعمال کرتا ہوں انتہائی شرمناک ہے۔انہوں نے واضح کیاکہ عالی مسجد، نواب بازار اور نشاط میں میری کوئی جائیداد نہیں ہے ۔میر واعظ نے اپنی جائیدار اور آمدن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا’’ میری ذاتی املاک اور آمدن کا تعلق ہے تو میں اپنے والد کے ذریعہ 1978 میں تعمیر کئے گئے رہائشی مکان میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے والد نے 1980 میں راجوری کدل میں 17 دکانیں تعمیر کی تھی اور ان دکانوں کے اوپر تعمیر کی جگہ کو جموںوکشمیر بینک کو کرایہ پر دے دیا تھا۔ بینک اور دکانوںسے حاصل شدہ کرایہ کی رقم 1990 میں انکی شہادت کے بعد ان کے ورثاء جن میں ، میں بھی شامل ہوں آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ1992 ء میں ، میں نے لالبازار علاقے میں 6 دکانیں تعمیر کی ہیں اور ان کا کرایہ میرے بینک کھاتے میں جاتا ہے۔میر واعظ نے کہا’’ میری آمدنی کے باقی ذرائع میں نکاح خوانی کا ہدیہ اور وعظ و تبلیغ کی مجالس میں ہدیہ اور تحائف جو نقد اور جنس دونوں صورتوں میں مجھے دئے جاتے ہیں شامل ہیں‘‘۔انہوں نے چلینج دیا کہ مذکورہ چینل، جس نے انکے خلاف پرپگنڈا شروع کیا ہے، اس سے زیادہ آمدنی اور جائیداد کو ثابت کریں۔