سرینگر//افواج ہند کی کشمیر آمد کے70سال مکمل ہونے کے خلاف مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال کال کے نتیجے میں وادی کے طول وعرض میں معمول کی زندگی درہم برہم ہوئی۔ امکانی احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر پائین شہر کے5پولیس تھانوں اور سیول لائنز کے2تھانوں میں بندشیں عائد کی گئیں،جبکہ ریل سروس کو بھی معطل کیا گیا۔جامع مسجد سرینگر کے ارد گرد سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں،جس کی وجہ سے مسلسل5ویں ہفتے بھی تاریخی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہو سکی۔ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر کشمیر انتظامیہ نے شہر کے 7 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیوںنافذ کردیں۔ ہڑتال کے پیش نظر جمعہ کو وادی بھر میں ریل خدمات معطل رکھی گئیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 70 برس قبل آج ہی کے دن 27 اکتوبر کو ہندوستانی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر ائرپورٹ پر اتری تھی اور قبائلی حملہ آوروں کے خلاف لڑی تھی۔ جموں وکشمیر کے اُس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے قبائلی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت ہند سے فوجی امداد کی باضابطہ درخواست کی تھی جو حکومت ہند نے دستاویز الحاق کی منظوری کے ساتھ ہی پوری کی ۔ کشمیری علیحدگی پسند لیڈران اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور ہر سال 27 اکتوبر کو ہڑتال کی کادل دیتے ہیں۔ وادی کے سبھی دس اضلاع میں ہڑتال کے دوران جہاں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ رہیں، وہیں سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہیں۔ بیشتر تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ انتظامیہ نے ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر سری نگر کے سات پولیس تھانوںمیں کرفیو جیسی پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا۔ خانیار، نوہٹہ، صفا کدل، ایم آر گنج ، رعناواری ، کرالہ کھڈ اور مائسمہ میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی تھیں ‘۔ان علاقوں میں پابندیوں کو سختی نافذ کرانے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں ریاستی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار تعینات رہے۔پابندی والے علاقوں میں تمام راستوں بشمول نالہ مار روڑ کو خانیار سے لیکر چھتہ بل تک خاردار تاروں سے سیل کیا گیا تھا۔ تاہم صفا کدل اور عیدگاہ کے راستے انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑکوں کو بیماروں اور تیمارداروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا۔ تاہم سیول لائنز میں اکادکا گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ سرکاری دفاتراور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔نماز جمعہ کے بعد صورہ میں مظاہرین اور فورسز میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پر نکل آئیں اور انہوں نے مظاہرے کئے۔ اس موقعہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کے بعد پتھرائو کررہے نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلئے شلنگ کی گئی۔جنوبی کشمیر کے سبھی قصبوں میں ہڑتال سے معمولات زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئے۔اِن قصبوں میں تجارتی مراکز بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل معطل رہی۔ اننت ناگ، شوپیان، پلوامہ اور کولگام قصبہ جات میں بھی امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی۔بعد نماز جمعہ اننت ناگ کے مٹن چوک ،اچھ بل اڈہ اور کاڈی پورہ میں مشتعل نوجوانوں نے فورسز پر سنگ باری کی جس کے جواب میں فورسزنے نوجوانوں کو منتشر کر نے کے لئے اشک آور گولے داغے ۔ضلع کے ڈورو،ویری ناگ ،قاضی گنڈ اور دیادلگام میںبھی ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی متاثر رہی ہے ۔کولگام،ریڈونی،کھڈونی ،کیموہ اور دیگر علاقوں میں بھی ہڑتال کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ ، سوپور،بانڈی پورہ اور کپوارہ کے سبھی قصبہ جات میں ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی متاثر رہی۔ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل معطل رہی جبکہ دُکانیں اور تجارتی ادارے بند رہے۔ بانڈی پورہ ضلع میں مکمل طور پر ہڑتال رہی ۔ دفتروں میں حاضری بہت کم رہی ہے اور ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا البتہ اکا دکا چھوٹی پرائیویٹ گاڑیاں چلتی رہیں ۔ اجس اور حاجن میں بھی ہڑتال رہی ۔بڈگام، بیروہ، ماگام اور چاڑورہ کے علاوہ گاندربل ، لار اور کنگن میں بھی مکمل ہڑتال رہی ۔ہڑتال کال کے پیش نظر بانہال سے بارہمولہ چلنے والی ریل سروس کو بھی جمعہ کے روز معطل کرنے کا فیصلہ لیا گیا،جس کے نتیجے میں کوئی بھی ریل پٹری پر نہیں دوڑی۔