سرینگر// حکومت ہند کو مذاکراتی عمل کیلئے آفاقی اصولوں کی تابعداری کا مشورہ دیتے ہوئے لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تینوں فریقوں،ہند،پاک اور کشمیریوں کو ایک ہی میز پر جمع ہونے پر زور دیا ہے۔ لبریشن فرنٹ کے بانی امان اللہ خان کی یاد میں آبی گزر سرینگر پر منعقدہ ایک یادگاری مجلس سے خطاب کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ فسطائیت کے ساتھ مذاکرات نہ ماضی میں ہوئے ہیں اور نا ہی مستقبل میں ایسا کیا جاسکتا ہے اور کشمیر پر صرف وہی مذاکرات قابل عمل اور ثمر آور ہوسکتے ہیں جو بلا شرط ہوں اور جن میں مسئلے کے تینوں فریق یعنی کشمیری، پاکستان اور بھارت ایک ہی میز پر بیٹھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی موجودہ حکومت نے اپنی ہی اقلیتوں کے خلاف جس میں مسلمان،دلت اور عیسائی شامل ہیں،کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے جبکہ حیرت انگیز طور پر بھارت کے دانشور بھی حکومت کا ساتھ دئے رہے ہیں۔ انہوں نے رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ13ہزار جن سینا کارکنوں کو کشمیر روانہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے،جبکہ بھارت کی فوج یہاں کے لوگوں کو جدوجہد سے دستبردار نہ کرسکی تو ان سینکوں کی بساط ہی نہیں ، وہ منہ کی کھائیں گے۔کشمیر کے موجودہ حالات پر بات کرتے ہوئے فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ آج اس قوم کو دھمکیاں ،دھونس اور دبائو سے خوف زدہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ظلم و جبر میں اضافہ کرکے کشمیریوں کی مزاحمت کو ختم کیا جائے گا۔انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے واجپائی طرز عمل پر بات چیت کے بیان کی طرف اشاررہ دیتے ہوئے کہا’’ہمیں بات چیت اور واجپائی طرز عمل کی دہائیاں دے کر بھی للچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ کسی اور نے نہیں بلکہ انکے دست راست لال کشن ایڈونی نے اپنی کتاب میں اس طرز عمل کے غبارے سے ہوا نکال دی۔‘‘۔ ملک نے کہا کہ سابق نائب وزیر اعظم ہند لعل کشن ایڈونی نے اپنی کتاب میں صاف وضاحت کی ہے ’’ دہلی ،جموں کشمیر کو اٹانومی دینے پر بھی تیار نہیں تھی اور بھارتی آئین کے باہر نکالنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کسی بھی طرح صرف اپنی کرسی کو بچانے کی فراق میں ہے۔انہوں نے کہا کہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ حالیہ میٹنگ کے دوران محبوبہ مفتی نے صرف3ماہ کیلئے اپنے اقتدار کو بچالیا۔ مزاحمتی قیادت میں اتحاد پر بولتے ہوئے ملک نے کہا کہ اس اتحاد نے حکومت ہند کو’’بوکھلاہٹ‘‘ میں مبتلا کیا ہے،جبکہ اس بات کی بھی وضاحت کی کہ مزاحمتی خیمے میں کچھ لیڈر اس اتحاد پر خوش نہیں ہیں۔انہوں نے اندرا عبداللہ ایکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ1975میں نئی دہلی کی لیڈرشپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی’’انہوں نے کشمیر کا جنگ جیت لیا‘‘تاہم محمد مقبول بٹ کشمیر پہنچ گئے اور انہیں تہاڑ جیل میں بند رکھا گیا اور امان اللہ خان کے علاوہ عبدالخالق انصاری نے کشمیر کی تحریک برطانیہ سے شروع کی اور اس تحریک کو نئی سمت مل گئی۔ ملک نے کہا کہ امان اللہ خان صرف ایک بڑے عظیم لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک باوقار سفارت کار اور لکھاری بھی تھے جنہوں نے عالمی سطح پر کشمیریوں کے کاز اور کشمیریوں کے مفادات کی رکھوالی اور آزادی کی بازیابی کیلئے جہد مسلسل کی۔وہ حقیقت میں اس تحریک کے بانی تھے ،آزادی جموں کشمیر کے نقیب تھے اور جہد مسلسل کی عملی تفسیر و تعبیر بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ امان اللہ خان صاحب مرحوم کی پوری زندگی اور جدوجہد ان کی شخصیت کے آہنی پن کا آئینہ دار تھی اور آج جب ہماری تحریک آزادی ایک اہم اور نازک مرحلے مرحلے پر آچکی ہے ہمیں اپنے اس عظیم قائد کے اصولوں اور کاوشوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اس موقعہ پر مقرین نے مرحوم امان اللہ خان کو ایک ایک شفیق انسان ،ایک اعلیٰ تریں دانشور، ایک پُرجوش خطیب، ایک پُرمغز قلم کار،ایک استاد، ایک لیڈر اور سیاسی مفکر اور بہترین سفارت کار تھے۔ مقرین نے بتایا کہ امان اللہ خان ایک سیاسی مفکر کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی ایک خاصے متحرک شخصیت تھے اوروہ پہلے اور واحد کشمیری ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کے اندر پریس کانفرنس کی اور کشمیر کاز کو آگے بڑھایا۔ مقرین نے کہا کہ مرحوم امان اللہ خان نے اقوام متحدہ کے ہا ل میں بھارتی مندوب کی تقریر کے دوران کشمیری کی آزادی کے تعلق سے پمفلٹ تقسیم کئے اور ایک تہلکہ مچادیا۔