سرینگر//حریت(ع)چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے واضح کیا کہ مزاحمتی خیمہ مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں ہے تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ گفت و شنید کس بات پر کی جائے۔انہوں نے کہا کہ2ماہ کی نظر بندی کے دوران کوئی بھی سیاست دان یا مصالحت کار ان سے ملاقی نہیں ہوا اور نہ ہی سید علی گیلانی یا محمد یاسین ملک کے ساتھ اپروچ کیا۔جامع مسجد میں مسلسل نماز پر پابندی پر سخت ردد عمل ظاہر کرتے ہوئے حریت(ع) چیئر مین نے کہا کہ جمعہ کے روز کرفیو توڑ کر تاریخی جامع مسجد میں نماز ادا کی جائے گی۔ سرینگر کے چشمہ شاہی سب جیل سے2ماہ کی قید کے بعد گزشتہ روز رہائی پانے کے بعد منگل کو اپنی رہائش گاہ واقع نگین میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ ایک خاص منصوبے کے تحت دانستہ طور پر مجھے عوام سے دور رکھنے اور رواں تحریک میں اپنے موثررول ادا کرنے سے روکنے کیلئے پہلے رہائشی طور پر نظر بند رکھا گیا اور بعد میں چشمہ شاہی جیل میں قید کیا گیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں آئے روز قتل و غارت گری ، زخمیوں کے چیخنے اور کراہنے اور مہلک ہتھیار پیلٹ گن کے سبب بڑے پیمانے پر نہتے اور معصوم شہریوں کو آنکھوں کی بینائی سے محروم کرنے کی وجہ سے پیش آتی رہی ہیں تاہم عوام نے حوصلے کے ساتھ نامساعد اور سنگین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہے ۔حریت(ع) چیئرمین نے بھارت کومشورہ دیا کہ وہ نہ صرف جموںوکشمیر بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کے امن و سلامتی ، سیاسی استحکام اور ایک تباہ کن جنگ سے بچانے کے ساتھ ساتھ تیز تر تعمیر و ترقی کیلئے مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر مزاحمتی جماعتوںکی جانب سے پیش کی گئیںتجاویز پرفوری طور عمل درآمد کرکے ماحول کو سازگار بنانے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس شدہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت کا موقعہ فراہم کرے یا پھر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعہ بھارت ،پاکستان اور کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ جامع مذاکرات کے ذریعہ ایسا حل نکالے جو کشمیری عوام کی خواہشات اور مرضی کے مطابق ہو۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی پانچویں نسل اور نوجوان طبقہ براہ راست ہماری اس تحریک سے جڑا ہوا ہے اور یہ مراعات ، مفادات ، مالی اور اقتصادی پیکیجوں کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی انتخابات اور الیکشنوں سے اسے حل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ امن و قانون کا مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہا’’ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے اس کے تاریخی پس منظر میں اور سیاسی تناظر میں حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ‘‘۔ میرواعظ نے حکومت ہند کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی ، بی جے پی ، نیشنل کانفرنس اور ریاستی کانگریس کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے انہیں حکومتی مظالم کی کلہاڑی کے دستے قرار دیا اور کہا کہ ان سب کا مقصد اقتدار اور کرسی ہے اور انہوں نے اپنے ضمیر کو بھی فروخت کردیا ہے ۔ جامع مسجد سرینگر کی مسلسل ناکہ بندی کو تشویش کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ جمعہ کسی بھی حال میں اس تاریخی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دہلی میں اگر کسی بڑے مندر کو عوام کیلئے مسلسل15 ہفتوں تک بند کیا جائے تو وہاں کے لوگوں کو کس قدر بار گراں گزرے گا،مگر کشمیر میں سیاسی،سماجی،مذہبی،انسانی حقوق کو روندا جا رہا ہے اور حکمرانوں کی کانوں پر جو بھی نہیں رینگتی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ مزاحمتی اور ہڑتالی کلینڈر کب تک آئے گا،تو انہوں نے کہا کہ بیشتر لیڈرشپ کو نظر بند رکھا گیا ہے اور ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔میر واعظ نے کہا کہ ایک طرف گرفتاریو ںکا چکر جاری ہے، روزانہ50 کے قریب نوجوانوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے،مکانوں کی توڑ پھوڑ کی جارہی ہے اور پی ایس اے کے تحت لوگوں کو قید کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔حریت(ع) چیئرمین نے اسکولوں اور مدرسوں کے مقفل ہونے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب بچے ہی نہیں رہیں گے تو اسکول کون جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پارلیمانی وفد سے ملنے پر انہوں نے انکار کیا اور اب موجودہ وفد سے وہ ملاقی ہوئے ،کیا2ماہ میں کچھ تبدیل ہوا؟،تو انہوں نے کہا کہ اس وقت مزاحمتی لیڈر شپ کو جیلوں میں نظر بند کیا گیا تھا اور آپسی مشاورت سے بھی دور رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ نیز انہیں جیل کے دوران وقت مانگا گیا جو بالکل مذاق تھا،کیونکہ وہ جیلوں میں تھے اور ان سے قفس میں وقت مانگا جارہا تھا۔حریت(ع) چیئرمین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت ہند ایک ڈرامہ کھیلنا چاہتی تھی اور دنیا کو دکھانا چاہتی تھی کہ ہم مذاکرات کے حق میں ہیں،مگر حقیقت میں وہ ڈرامہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔موجودہ وفد کو غیر سرکاری قرار دیتے ہوئے میر واعظ نے کہا کہ یشونت سنہا نے صاف کیا کہ اس وفد کو حکومت ہند کی سرپرستی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہ بی جے پی کے متحرک کارکن ہیں۔میر واعظ کا کہنا تھا کہ غالباً انہیں اسی لئے رہا کیا گیا،تاکہ بات چیت کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ منگل صبح کو انہوں نے فون پر سید علی گیلانی کے ساتھ بھی بات کی۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر یہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا بھی حصہ ہے تو انہیں کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کی سیول سوسائٹی اور لوگوں تک کشمیر کی اصل صورتحال پہنچ سکے۔حریت(ع) چیئرمین نے کہا کہ میرے پیشرو خاص طور پر میرواعظ محمد یوسف شاہ صاحب اور انکے مخلص رفقاء نے 1931 ء میں اور اس کے بعد میرے والد میرواعظ کشمیر مولوی محمد فاروق صاحب نے 1963 میں کشمیری عوام کے بنیادی اور پیدائشی حق ، حق خودارادیت کے حصول کیلئے جو انتھک جدوجہد کی اور قربانیاں دی ،میرا مشن وہی ہے۔میرواعظ نے کہا ’’ اگر چہ حالات انتہائی سنگین اور تکلیف دہ ہیں لیکن مایوس کن ہرگز نہیںجبکہ ہم نے ایک اخلاقی فتح حاصل کی ہے جس کی آج کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی‘‘۔ انہوں نے کہاکشمیری عوام نے دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ انہیں آزادی کی اس قدر شدید تڑپ ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی قیمتی جانیں ، اپناروزگار ، تعلیم اور سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں مفاد خصوصی رکھنے والے اور تحریک دشمن ایجنسیا ں سرگرم عمل ہوئی ہیںتاکہ اپنے پروپیگنڈے سے تحریک کے تئیں رخنہ ڈال کر اسے کمزور کرسکیں۔میر واعظ عمر فاروق نے اس بات کا اعتراف کیا کہ قوم کے ہر فرد اور سماج کے تمام طبقوں نے بلا امتیاز بے شمار اور بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔انہوں نے سید علی شاہ گیلانی کو مسلسل نظر بند رکھنے اور ان کے اہل خانہ کو تنگ طلب کرنے اور محمد یاسین ملک کو جیل میں ذہنی اور جسمانی طور شدید ٹارچر کرنے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حریت پسند قیادت اور نوجوانوں اور پوری کشمیری قوم کیخلاف حکومت ہند اور اس کے ریاستی حواریوں نے ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے۔