بدھ کےر وز مزاحمتی قیادت کی سرگرمیوں پرپھر ایک بار قدغنیں عائد کرنے سے حکومت کا وہ دعویٰ سراب ثابت ہو اہے جن میں بڑے فخر یہ انداز سے یہ کہا گیا تھا کہ اب متحدہ مزاحمتی قیادت کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی حاصل ہوگی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس دعوے کو کشمیر کی صورتحال اور مزاحمتی خیمہ کےتئیں حکومت کےنئے انداز فکر اور نئی پالیسی کے طو ر پیش کیا جا رہاتھا مگر صرف چند روز کے اندر ہی اس غبارے سے ہوا نکل گئی۔ متحدہ قیادت نے شوپیان میں پیش آئی حالیہ ہلاکتوں پر اظہار افسوس کرنے اور مہلوکین کے لواحقین کو پُر ساد ینے کےلئے’’ شوپیان چلو ‘‘ کا پروگرام تربیت دیا تھا لیکن جب سید علی گیلانی نےگھر سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو دروازہ باہر سے مقفل پایا گیا اور انکی طرف سے مطالبہ کے باوجود باہر تعینات سیکورٹی کے افراد نے انہیںگھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح میرواعظ عمر فاروق نے بھی شوپیان جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں گھر کے باہر ہی حراست میں لیکر انکی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ جہاںتک محمد یٰسین ملک کا تعلق ہے تو انہیں پہلے ہی حراست میں رکھا گیا تھا۔ اس طرح مزاحمتی خیمے کے پروگرام کو ناکام بنا دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ سے بیرون ریاست کے میڈیا میں کشمیر کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کےلئے حکومت کے نئ پالیسی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے مزاحمتی قائدین کے تئیں ’’آزادی‘‘ کےاعلان کوبھی کشمیر کی صورتحال میں بہتری سے تعبیر کرنے کی دلیل کے طو رپر پیش کیا جانے لگا تھا مگر انہیں شوپیان جانے سے روک کر یہ بات پھر ثابت ہوئی کہ مزاحمتی خیمہ کے تئیں انتظامیہ کے رویئے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور وہ اس طبقہ کو سیاسی مکانیت(Politcal Space) دینے کےلئے ابھی تیار نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کافی عرصہ سے اس امر کے شاکی رہے ہیں کہ جموںوکشمیر کی موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کیلئے جہاں مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر کے مختلف پہلوئوں کو زیر غور لانے کی ضرورت ہے وہیںجموںوکشمیر میں سسٹم کے خلاف اُٹھنے والے آوازوں کو احترام بخشنے اور انہیں سیاسی مکانیت دینے سے مسلسل انکار کے عمل کوبھی جانچا جانا چاہئے! سیاسی تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ جس سماج میں کسی نظام اور اسکے اندا ز فکر کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہےوہاں انتہا پسندانہ جذبات اُبھرنا ایک قدرتی امر ہے اور ساری دنیا میں یہ بات بطور ایک اصول کے تسلیم کی جاتی ہے ۔ اگر حکمران جماعت پی ڈی پی کے اُن بیانات ، جو اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب یہ اقتدار میں نہیں تھی، کا جائزہ لیا جائے تو اُن میں سابق حکمران جماعت نیشنل کانفرنس پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ مسلم متحدہ محاز کی تشکیل کے وقت اُس میں شامل جماعتوں اور قائدین کو سیاسی مکانیت فراہم نہ کرنا اور انتخابات میں انکے خلاف مبینہ دھاندلیاں ریاست کے اندر بندوق متعارف ہونے کی ایک وجہ ہے۔ آج وہ جماعت خود مسند اقتدار پر ہے لیکن ایک بڑے طبقے کو سیاسی سپیس فراہم نہ کرنے کا ارتکاب کھلم کھلا ہو رہا ہے اور وہی عمل دہرایا جارہا ہے۔ اس طرح نتائج کیا سامنے آسکتے ہیں؟ اس پر تبصرہ کرنے کی غالباً ضرورت نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر مزاحمتی قیادت کو انکی سیاسی سرگرمیوں کےلئے معقول اور مناسب مواقع فراہم کئے جائیں تو یقینی طور پر ایک تعمیری ماحول تشکیل دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیونکہ اس خیمے کو اتنا بھی غیر ذمہ دارنہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ عوام کی سوچ اور خواہشات کا ادراک نہ کرسکیں۔ اس طرح کی دو عملی سے احتراز کرنا وقت کی انتہااہم ضرورت ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف حکومتی اعلانات اور وعدوں پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے بلکہ ایک ایسا ماحول تشکیل پاتا ہے جس میں ایک دوسرے پر اعتبار اور بھروسہ کرنے کی فضاء بُری طرح متاثر ہوتی ہے ۔دنیا بھر میں ماہرین سیاست کا یہ ماننا ہے کہ باہمی اعتماد کا فقدان امن عامہ میں بگاڑ کی سب سے بری وجہ بنتی ہے اور ریاست جموںوکشمیر میں یہ فقدان اپنے انتہائی عروج پر ہے، جبھی تو ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی بار بار اعتماد کی فضاء تیار کرنے کو حالات میں بہتری لانے کےلئے بنیادی عنصر گرداننے سے نہیں ہچکچاتے، مگر عملی سطح پر کیا ایسا ہو رہا ہے، حکومت کے حالیہ اقدام سے اسکی واضح نفی ہو رہی ہے۔