نام تواُسکامریم مائی تھا۔مگرفطرت سے وہ کسی ڈائن سے کم نہ تھی۔جب دیکھو اپنی شعلہ بار دیدوں سے آتے جاتے لوگوں کو تکا کرتی تھی۔ ماں مریم کی طرح اُسکے چہرے سے نور نہیں بلکہ وحشت برستی تھی ۔سویرے سویرے جیسے وہ گھر سے دھتورا کھا کے نکلتی تھی کہ دن بھر اُسکے منہ سے کڑوے کسیلے بول ہی نکلتے تھے۔میں نے بے شمار عورتیں دیکھی ہیں مگرمریم مائی جیسی منہ پھٹ،بد مزاج اور جھگڑالو قسم کی عورتوں سے میرا بہت کم پالا پڑا ہے۔وہ بات بات پر کسی بم کی طرح پھٹ پڑتی تھی۔زرا سی بات اُس سے اُٹھائی نہ جاتی تھی۔ دراصل اُس میں تحمل کا یارا تھا ہی نہیں ۔جب دیکھوجل ککڑ بنی جلی بھنی سی نظرآتی تھی۔کوئی زراسا بھی مذاق کرتا تو وہ آگ کے شعلے کی طرح لپک اُٹھتی تھی۔ اُس سے ہنسی ٹھٹھول کرنا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔اُسکے چڑ چڑے پن کی وجہ سے لوگ اُس سے دور دور ہی رہتےتھے۔اُسکے منہ پر کچھ بول نہیں پاتے پرپیٹھ پیچھے اُسکی خوب برائی کرتے رہتے تھے۔اُسے اس بات کی قطعی پرواہ نہیں تھی کہ کون اُسکے بارے میں کیا بکتا رہتا ہے۔وہ تو جب دیکھواپنی کھال میں مست نظرآتی تھی۔
پتہ نہیںوہ دنیا سے بیزار کیوں تھی؟ ایسی کونسی بات تھی جسکے کارن وہ اسقدرچڑ چڑی بنی رہتی تھی اور اپنے اندر کی ساری تلخی اور کڑواہٹ بات بات پہ اُگل دیتی تھی۔میں مریم مائی کو بہت دنوں سے جانتا تھا۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں محکمہ ٹرانسپورٹ میں ملازمت کرتا تھا۔ مریم مائی ہر روزدوپہر کے وقت آتی تھی اور ہمیں دہی کے پیالے دیکر چلی جاتی تھی۔وہ عمر رسیدہ عورت تھی پر مزے کی بات یہ تھی کہ وہ اس عمر میں بھی ہر طرح سے چست درست دکھائی دیتی تھی۔ساٹھے پاٹھے میں ہونے کے باوجوداُسکے دم خم کے کیا کہنے۔ایسی چستی پھرتی اُسمیں بھری ہوئی تھی کہ اُسکی چستی کے آگے کڑیل جوان بھی پانی بھرتے نظر آتے تھے۔ وہ نور کے پہلے تڑکے کے ساتھ ہی برین کےگھاٹ سے اپنا سفر شروع کرتی تھی۔ اپنی چھوٹی سی کشتی کھیتے ہوئے وہ دس گیارہ بجے کے قریب ڈل گیٹ کے گھاٹ پر پہنچ جاتی تھی اور پھر یہاں سے وہ خراماں خراماں چلتے ٹرانسپورٹ یارڑ تک پہنچ جاتی تھی جو ڈل گیٹ سے زیادہ دور نہ تھا۔ہم ہر روز مریم مائی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔اُس نے ہمیں دہی کھانے کی ایسی عادت ڈال دی تھی کہ اُسکے دہی کے بنا اپنا کھانا ہوتا ہی نہیں تھا۔
مریم مائی کومیں ذاتی طورپرجانتا نہیں تھاالبتہ اُسکے بارے میںمجھے صرف اتنی جانکاری حاصل تھی کہ وہ برین کی رہنے والی ہے اوربرسوں سے دہی بیچ کراپنا گزارہ چلا رہی ہے۔وہ اپنے سر پر ٹوکرا رکھے جب ٹرانسپورٹ یارڑ میں داخل ہوتی تھی تو بہت سارے ڈرائیور کلینر دوڑ کر اُس سے دہی خرید لیا کرتے تھے۔ پکی مٹی کے پیالوں میں جمے اسکے دہی کا کوئی جواب نہ تھا۔ شدھ دودھ سے جمایا گیا دہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ یوں تو اُسکے گاہک بندھے ہوئے ہوتے تھے پھر بھی وہ کسی کومایوس نہیں کرتی تھی۔ میںاگر دیر سے بھی آفس پہونچ جاتا تھا تو میرادہی کاپیالہ میرے ٹیبل پر رکھا ہوا مجھے مل جاتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ہم لوگ اُسکے دہی کے بنا کھانا کھا نہیں سکتے۔
وہ جس دن نہیں آتی تھی ہم دن بھر اُسکی راہ تکا کرتے تھے۔مریم مائی ہماری کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے لئے بہت کچھ تھی، جبھی تو ہم اُسکا انتظار کرتے رہتے تھے۔ وہ واقعی مریم کی طرح صاف و پاک،اوربے داغ تھی۔گو کہ اُسکے چہرے پر ہر دم تناو بنارہتا تھا پھر بھی وہ کافی دلکش اور پر کشش لگتی تھی ۔اپنی جوانی میں وہ بہت خوبصورت رہی ہوگی۔اب عمر رسیدہ ہونے کے بعد بھی اُسکی دلکشی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی ۔بس ایک ہی خرابی تھی اُس میں ۔ وہ اپنی زبان کی کڑواہٹ سے اپنی چھبی کو داغدار کر دیتی تھی۔
ایک دن میں اکیلا آفس میں بیٹھا تھا۔ جنوری کا مہینہ تھاجوکہ کافی یخ بستہ ہوتا ہے۔ ہم دفتر میں گھستے ہی کوئیلوں کی بخاری کے ساتھ چپک کے بیٹھ جاتے تھے اور چار بجنے تک ایک پل کے لئے بھی اس جلتی بخاری سے ہٹنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ زمستان میں جب بہتا پانی بھی جم جاتا ہے ایسے میں اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے ان بخاریوں کے سہارے ہی لوگ زندہ رہتے ہیں ۔میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اتنے میں مریم مائی آفس میں داخل ہوئی۔ وہ سردی سے بری طرح ٹھٹھر رہی تھی پر تیور وہی جارحانہ تھے ۔میں نے اُسے دیکھا تو اُسے بیٹھنے کے لئے کہا۔وہ کرسی پر بیٹھنے سے جھجک رہی تھی اور نیچے زمین پر بیٹھ گئی۔ میں نے اُٹھ کر اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے کرسی پر بٹھا لیا۔ وہ کرسی پر تو بیٹھ گئی مگر وہ کچھ بے چین سی لگ رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کسی اندرونی اضطراب سے دوچار ہے۔ اُسکے چہرے سے مترشح تھا کہ اُسکے اندر کچھ نہ کچھ ٹوٹ پھوٹ چل رہی ہے۔میں نے چپراسی سے دو کپ چائے منگوا لئے۔ وہ جب چائے لے کر آگیا تو میں نے اُسے ایک کپ چائے پیش کیا۔پہلے تو اُس نے لینے سے انکار کر دیا مگر جب میں نے اصرار کیا تو اُس نے کپ لے لیا اور وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی۔ چائے پینے کے بعدوہ کھڑی ہوگئی اور اپنی ٹوکری اُٹھا کر تیزی سے نکل گئی۔اُس نے کوئی بات کہنے سننے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اگلے دن کی بات ہے میں اپنے آفس میں اکیلابیٹھا تھا کہ وہ جھجکتے ہوئے اندر چلی آئی اور مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگی پر زبان اُسکا ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔ وہ ایک عجب کشمکش میں مبتلا تھی۔ میں نے اُسکی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا بات ہے مائی۔کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘
اُس نے ادھر اُدھرنگاہ دوڑائی کہ کہیں کوئی اُنکی بات سن تو نہیں رہا ہے۔ جب اُسے اطمینان ہوگیا کہ آس پاس کوئی موجودنہیں ہے تو وہ سرگوشیانہ انداز میں مجھ سے بولی۔
’’بیٹا میں تم سے کچھ مانگوں؟‘‘
’’ارے سوچ کیا رہی ہو مانگو نا؟‘‘
’’بیٹا مجھے چند دنوں کے لئے کچھ پیسے اُدھار چاہئیں۔ دے سکتے ہو کیا؟‘‘
’’کتنے پیسے چائیں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ایک ہزار روپے‘‘اُس نے دھیمی آواز میں کہا۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔ ضرور مریم مائی کسی مصیبت میں مبتلا ہے، اسلئے وہ مجھ سے قرض مانگنے آئی ہے۔وہ اتنی خود دار ہے کہ یواس طرح کسی سے پیسے نہیں مانگے گی۔وہ اُمید و بیم میں بیٹھی رہی ۔میری جیب میں ہمیشہ ہزار دو ہزار ہو ا کرتے تھے۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اورسو سو کے دس نوٹ نکال کراُسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’مائی میں یہ پیسے تم کو ایک شرط پر دوں گا کہ تم اس بات کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔تم نے مجھے بیٹا کہا ہے اس لئے یہ بات ماں اوربیٹے کے بیچ ہی رہنی چاہے۔‘‘
اُس نے تشکر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ان آنکھوں میں شکرانے کے ساتھ ساتھ اتھاہ پیار اور ممتا تھی۔وہ زبان سے کچھ نہیں بولی۔بس نوٹ جیب میں ٹھونس کر چپ چاپ وہاں سے چلی گئی۔
ایک ہفتے تک وہ مجھے دکھائی نہیں دی۔ میں بڑا فکر مند تھا۔طرح طرح کے برے خیال میرے من میں اُٹھ رہے تھے۔ایک ہفتہ گز جانے کے بعد وہ ایک صبح سیدھے میرے ّآفس میں چلی آئی۔دودھ کا کٹورا میرے ٹیبل پر رکھ کر وہ اطمینان سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ آج وہ بڑی بشاش دکھائی دے رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اُسکے چہرے پر خوشی دیکھی تھی۔ میں نے مذاقیہ موڑ میں اُس سے کہا۔
’’مائی آج بڑی خوش دکھائی دے رہی ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’یہ خوشی تم نے مجھے دی ہے۔ تم سوچ رہے ہوگے نا کہ میں نے اُس دن تم سے پیسے کیوں لئے۔ دراصل مجھے اپنی بڑی بیٹی کو سسرال بھیجناتھا۔اُسکا پہلوٹھی کا بچہ ہوا ہے نا۔اب وہ پہلی بار مان بن کے سسرال جا رہی تھی تو کیا میں اُسے خالی ہاتھ بھیجدیتی اسلئے مجھے تم سے کچھ پیسے لینے پڑے۔‘‘
’’مائی ہمارے بیچ کیا بات ہوئی تھی کہ تم ان پیسوں کا کبھی ذکر نہیں کرو گی۔‘‘
’’بیٹا میں احسان فراموش نہیں ہوں۔ تم نے مشکل کی گھڑی میں جسطرح میری دستگیری کی اسے میں کیسے بھلا سکتی ہوں۔‘‘
’’مائی تم احسان کی بات کرکے مجھے زلیل کر رہی ہو۔ ایک بیٹا اپنی ماں پر کبھی احسان نہیں کرتا۔ مجھے تو خوشی ہے کہ میری بہن اپنے سسرال ہنستے ہوئے گئی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے بڑا انعام اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘
وہ جذباتی ہوگئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے جنہیں وہ پینے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے اُسے جذباتی ہوتے دیکھا تو میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ میں نے بڑے سپاٹ لہجے میں اُس سے پوچھا۔
’’مائی مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تمہیں اتنی محنت کیوں کرنی پڑتی ہے ۔کیا تمہارا شوہر تمہارے ساتھ نہیں ہے؟‘‘
میرے اس سوال پر وہ تلملا کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے میں نے اُسکی دکھتی رگ کو چھیڑاہو۔اُسکی آنکھیں شعلہ بار ہوگئیں اور اُس نے غصے سے کہا۔’’اُس خبیث کا نام مت لو۔ میرے لئے تو وہ کب کا مر چکا ہے۔‘‘
’’مائی معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تمہارے شوہر کا ذکر کرکے تمہارا دل دکھایا۔‘‘
’’نہیں نہیں تم مجھ سے معافی مت مانگو۔ میں تو خود کتنے دنوں سے چاہتی تھی کہ میں تمہیں اپنے بارے میں بتا کر اپنے من کے بوجھ کو کچھ ہلکا کروں۔ بیٹا عام لڑکیوں کی طرح میرے ماں باپ نے میری شادی کی تھی۔ میرا شوہر ایک ڈرائیور تھا جوکہ ایک پرائیویٹ مسافر گاڑی چلاتا تھا۔ہم دونوں کا م کرتے تھے۔ کچھ وہ کماکے لاتا تھا اور کچھ میں ۔ ہم خوشی خوشی اپنی زندگی گزار رہے تھے ۔سات سال میں ہماری تین بیٹیاںہوئیں ۔تین بیٹیوں کے بعد ایک بیٹا ہوا جو پیدا ہونے کے ٹھیک سات دن بعد اللہ کو پیارا ہو گیا۔بیٹے کی موت کے بعدایکدم حالات بدل گئے۔اُسے بیٹا چاہے تھا، جو اُسے ملا نہیں ۔بس اس بات پر وہ مجھ سے خفا رہنے لگا۔ میں نے ایک دن اُسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دینا اور لینا اللہ کے ہاتھ میں ہے اسمیں ہماری مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ وہ تو بس یہ کہہ کر میرے دل پر آرے چلاتا رہا کہ میں اپنے بیٹے کو سنبھال نہ سکی۔ایک دن میں نے چڑ کر کہا ۔تم روز روز اس طرح مجھے کیوں طعنے مارتے ہو۔میں نے تو اپنے بچے کو نہیں مارا پھر تم مجھے کس بات کے طعنے دیتے ہو۔وہ کچھ بھی کہنے سننے کے موڑ میں نہیں تھا۔ اُسکا تو جیسے مجھ سے دل بھر گیا۔وہ ہفتوں گھر سے غائب رہنے لگا۔کچھ پوچھو تو آگ ببولا ہوجاتا۔ایک دن مجھے یہ خبر ملی کہ اُس نے پڑوس کی ایک رانڈ سے نکاح کیا ہے ۔ یہ خبر سن کر گویامیرے سر پر بجلی گری۔میں بھاگ کر اُس چھنال کے گھر گئی۔اُس چھنال نے مجھے اُس سے ملنے نہیں دیا۔ میں مسجدکے امام کے پاس اس اُمید کے ساتھ فریاد لے کے گئی کہ یہ میری داد رسی کرے گا مگراُس نے میری طرفداری کرنے کے بجائے اُسے صحیح ٹھہرایا۔کہنے لگا کہ ایک مسلمان کو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ایک ساتھ چار بیویوں کو حبالہ عقد میں لے سکتا ہے۔میں نے کہا کہ وہ میرے ساتھ نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی دوسری منکوحہ کے ساتھ رہتا ہے اورمجھے تو اُس نے یکسر فراموش کر دیا۔اس پر امام صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور میں وہاں سے مایوس ہوکے گھر واپس آگئی اور بیٹھ کر اپنی قسمت کو رونے لگی۔مجھ میں جینے کی اُمنگ مر گئی تھی۔میں جینا نہیں چاہتی تھی مگر میرے سامنے تین تین بیٹیاں تھیں جن کی کفالت کا ذمہ میرے کاندھوں پر تھا۔وہ مردود تو اُنہیں بے سہارا چھوڑ کے گیا تھا۔ آخر اُن تینوںکا بس اتناگناہ تھا کہ اُنہوںنے ہمارے گھر میں جنم لیا تھا۔ میںتو اُنکی ماں تھی۔ میں اُن سے لاتعلق نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے اُنہیں سینے سے لگا لیا اور اُنہیںسب کچھ سچ سچ بتا دیا ۔سچ جاننے کے بعداُنکے دل میں باپ کے لئے نفرت پیدا ہوگئی اور اُنہوںنے عہد کیا کہ وہ زندگی بھر کبھی باپ سے نہیں ملیں گی ۔یوں سمجھ لیں گی کہ اُنکا باپ تھا ہی نہیں‘‘یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔اُسے خاموش پاکر میں نے اُس سے پوچھا۔
’’اُس نے کبھی اپنی بیٹیوں سے ملنے کی کوشش کی؟‘‘
’’اُسے تو بیٹیوں سے کوئی لگاو شروع سے تھا ہی نہیں ۔ اُسے تو بیٹا چاہے تھے۔ اب ہمارے نصیب میں بیٹا نہیں تھا تو میںکہاں سے لے آتی۔اُسے تو یہ اُمید تھی کہ وہ چھنال اُسے ایک بیٹا دے گی اورپھر وہ مجھے جلائے گا مگر خدا نے اُسکی خواہش ادھوری ہی رکھی۔ وہ چھنال تو عمر سےڈھل چکی تھی۔ وہ بچے کیا پیدا کرتی۔ مجھے جلانے کے لئے وہ اکثر میرے گھر کے سامنے سے سج دھج کے نکلتی تھی۔ اُسے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگتی تھی۔ جی میں آتا تھا کہ دوڑ کر اُس چھنال کو چوٹی سے پکڑوں اور پھر اُسکے بال نوچ لوں۔ اُسکے جھونٹے پکڑ کر اُسے زمین پر پٹخ دوں۔میرا گھر توڑ دیا تھا اُس نے‘‘
’’تم نے نان نفقے کی مانگ نہیں کی؟‘‘
’’اُس لچے سے میں کیا مانگ کرتی جو اب اُس رانڈ کے جھوٹے ٹکڑوں پر پل رہا تھا۔اُسکی بینائی کمزور ہو چکی تھی اسلئے اُسے کوئی کام دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ہمارے علاقے میںکورٹ کاوکیل جانکی ناتھ رہتا ہے۔ میں اُسکے گھر دودھ دینے جاتی ہوں۔اُسے جب میں نے اپنا دکھڑا سنایا تو اُس نے مجھے تسلی دیکر کہا۔ مریم تو ہمت مت ہارنا۔میں عبداللہ ملک سے تمہیں نان نفقہ ہی نہیں بلکہ طلاق بھی دلوا دوں گاتاکہ تم اُس سے ایک بھاری رقم مہر کی صورت میں وصول کر سکو اور ساتھ ہی دوسری شادی بھی کر سکو۔ میں نے کہا کہ یہ سب کچھ اُسی کنجرانی کو مبارک۔میں ملک خاندان کی بیٹی ہوں۔میںکنجرانی بن کرکورٹ میں نہیں جاوں گی‘‘
’’پھر تم نے اکیلے ہی لڑکیوں کی شادیاںکیسے کیں ؟‘‘
’’اللہ سبب ساز ہے۔ وہی مشکلیں آسان کر دیتا ہے۔میں نے تینوں لڑکیوں کو نہ صرف پڑھایا لکھایا بلکہ اُنکی شادیاں بھی کر ڈالیں ۔وہ تینوںاپنے اپنے گھروں میں سُکھی ہیں ۔بڑی والی تو ایک بچے کی ماں بھی بن گئی۔ اُسی کے لئے مجھے روپیوں کی ضرورت آن پڑی تھی۔ شکر ہے کہ تم نے میری مشکل آسان کر دی۔‘‘
اُس دن مریم مائی نے اپنے من کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ اب مجھے مریم مائی کی کڑواہٹ اور تلخی کا سبب سمجھ میں آگیا تھا۔ اُس دن کے بعدمیرے دل میں اُسکی عزت میں دوچند اضافہ ہوگیا۔
ایک دن یہ خبر آئی کہ مریم مائی کے شوہر عبداللہ ملک کی دوسری بیوی پروینہ کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو گیا۔ کہتے ہیںکہ مریم مائی نے جب یہ خبر سنی تو ہونا یہ چاہے تھا کہ وہ بغلیں بجاتی،مٹھائیاں بانٹتی پھرتی مگر اُس نے بڑے پن کا ثبوت دیکر اُسکی لاش کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا اوراُسے کفن پہنایا۔عبداللہ ملک مریم مائی کا سامنا نہیں کر پایا۔ وہ اُس سے چھپتا چھپتا پھرتا رہا۔جب میت قبرستان لےجائی گئی تو وہ اپنے گھر لوٹ آئی۔
عبداللہ ملک اب اکیلا ہو گیا تھا۔جس دوار کو وہ لات مار کے آیا تھا اب وہ کونسا منہ لے کر اُس دوار پر جاتا۔اب اُس پر بڑھتی عمر بھی غالب ہونے لگی تھی۔ہاتھ پاوںنے ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن اُس نے اپنی بڑی بیٹی سائمہ کو اپنے شوہر کے ساتھ دیکھاتو اُسکے دل میں پیار اُمڈآیا۔ وہ دوڑ کرجب اپنی بیٹی اور دامادسے ملنے کے لئے گیا تو اُنہوں نے اُسے پہچاننے سے ہی انکارکر دیا۔ عبداللہ ملک کا دل بیٹی کے اس رویے سے ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔
مریم مائی نے ایک مہینے کے بعد مجھے وہ سارے پیسے لوٹا دئے۔ میں نے لینے سے انکار کرنا چاہا تو اُس نے مجھے ڈانٹ دیا ۔ مجبوراََ مجھے وہ پیسے لینے پڑے۔ جاتے جاتے وہ مجھ سے بولی۔
’’وہ خبیث آیا تھا،پھر مجھے اپنانے کے لئے۔ میں نے لات مار کر اُسے گھر سے نکال دیا۔میں اُن عورتوں میں سے نہیں ہوں جو مردوں کےجوتے کھاتی ہیں اور پھر بھی اُن ہی کے قدموں میں پڑی رہتی ہیں ۔میں نے اکیلے جینا سیکھ لیا ہے۔مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیںہے۔‘‘کہہ کر اُس نےاپناخالی ٹوکرا اُٹھایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے چلی گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ مریم مائی سچ مچ کی مریم ہے جوہرسرد وگرم کو سہنے کا مادہ رکھتی ہے اور جو عزت اور خود داری سے جینا جانتی ہے۔میں بہت دیر تک کھڑا اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
رابطہ؛ بڈگام کشمیر،
موبائل نمبر؛7006751757