مریم جمیلہ ؒ( ۲۰۱۲ء ۔۱۹۳۴ء) وہ خوش بخت خاتو ن ہیں جنھوں نے نہ صرف یہودیت کو چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں پناہ لی بلکہ اسلام کی خاطر امر یکہ کی مادر پدر تہذیب کی مضرتوں سے اپنا ایمان بچانے کی نیت سے گھر بار کو خیر باد کہہ کے پاکستان کی ہجرت کی۔ قبل ازیں انہوں نے مغر بی فکرو تہذ یب کا بے لاگ اور بے باک تنقیدی و علمی جا ئزہ لے کر اس کی خرابیوں کو منظر عام پر لانے کی قا بل قدر کوششیں کیں ۔ علاوہ بریں محکم دلائل اور پوری قوت سے اسلام کا بھر پور دفا ع کیا ۔ وہ صرف گفتار کی غازی نہ تھیں بلکہ عمل کی خو گر بھی تھیں۔انھو ں نے جو نہی اسلام قبول کیا فوراً اس کے فکر و تہذ یب کے سا نچے میں ڈھل گئیںاور اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے ۔
مر یم جمیلہ ؒ کا پرانا نام مارگریٹ مارکوس تھا۔ان کی ولا دت امر یکی ریا ست نیو یارک کے مضا فاتی خوشحال شہر نیو رو شلا(New Rochhalle) میں ۲۳ مئی 1934ء میں ہو ئی اور آوریسٹ چیسٹر( (Westchester میں پرورش پائی۔ان کے والد کا نام ہربرٹ مارکوس سڈنی ہے، جو جر من کے یہو دی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔مارکس مارگریٹ کے آباواجداد جر منی کے تھے اور وہاں چار نسلوں سے سکونت پزیر تھے۔ان کے پرداد انے 1848- 1861ء کے درمیان اقتصادی خوشحالی کے موا قع کی تلاش میں امر یکہ کے لیے نقل مکانی کی۔مار گر یٹ مار کوس کے والد ین جر من کے یہودی نسل سے ہو نے کے با وجود برائے نام یہو دی تھے۔بالفاظ دیگرراسخ العقیدہ یہودی نہیں تھے۔بلکہ سکو لر پسند(Non-observent) تھے۔وہ اگر چہ یہو دیت پر عمل پیرا نہیں تھے لیکن اس کے با وجود وہ اخلاقی حدود کے پابند تھے،انھوں نے در اصل امر یکہ میں سکو نت پزیر ہونے کی وجہ سے فکر و عمل اور طرز حیات کے لحاظ سے ہو بہو روایتی امر یکیوںکی طر ح بود و باش اختیار کر لی تھی۔مار گر یٹ مار کوس بچپن ہی سے متلاشی ذہنیت ،سنجیدہ اور حساس واقع ہوئی تھیںاور ہر وقت لائبریرینیں کتابوں کے ڈھیر میں غرق رہتی تھی ۔انہیںبچپن ہی سے مو سیقی سے بے حد لگائو تھا اور اسکول میں مو سیقی کے مضمون میں دیگر مضامین کے مقابلے میں زیادہ نمبرات حاصل کر تی تھی۔وہ مو سیقی کو اس وقت مغر بی تہذ یب کے لئے ایک نیک شگون سمجھتی تھیں۔نیز بچپن میں وہ عر بی مو سیقی بھی سُنا کر تی تھیں۔بعد میں وہ رقص ، سینما اور موسیقی سے سخت متنفر ہوئی تھیں۔دس سال کی عمر میں مار گریٹ نے مذہب سے دلچسپی لینا شروع کی جب اس نے یہودی اصلاح یا فتہ اسکول میں داخلہ لیا تو وہاں یہودیوں اور عر بوں کی باہمی قرابت کے تاریخی رشتے سے مانوس ہو ئیں۔ اس سلسلے میں اپنے ایک انٹریو میںوہ کہتی ہیں کہ ’’ میں یہو دیوں اور عر بوں کے درمیان تاریخی قربت سے مسمور ہو ئی، یہو دی کتا بوں میں میں نے پڑھا تھا کہ ’’ ابراہیم ؑ ان دونوں قوموں کے باپ ہیں میں نے یہ بھی جانا کہ صدیوں بعد یو رپ میں ستم رانی نے کیسے زند گیوں کو ناقابل برداشت بنا یا۔یورپیوںکا مسلم اسپین میں پر تپاک استقبال کیا گیا یہ اسلامی تہذ یب کی اعلیٰ ظر فی ہے جس نے عبرانی تہذیب کو عروج کے حصول میں مہمیزکا کام کیا ‘‘۔(ملاحظہ ہو راقم کی کتاب : مریم جمیلہ مغرب کی بے باک ناقد)
مر یم جمیلہ ایک عظیم مفکر، بے باک مصنف، عظیم داعی اور مخلص مہاجر تھیں۔انھوں نے کبھی بھی اپنی تحریروں میں معذرت خوا ہانہ انداز اختیار نہیں کیا ۔۔ان کی تمام تحریریں مصلحت پسندی سے پاک ہیںاورہمیشہ باطل افکار و نظریات کے خلا ف اقدامی رخ اختیار کیا۔مر یم جمیلہ وہ داعیہ اور مصنفہ ہیں جنھوں نے ایک طرف مغر بی تہذیب کی نظر یاتی اور فکری بنیادوں پر انتہا ئی بے باکی سے حملے کئے اوردوسری طرف بہتر ین قوت استدالال کے ذر یعے اسلام کی نظر یاتی اور فکر ی بنیادوں کی قرآن و سنت پر مبنی تشریح و تو ضیح کی ،تیسری جانب اُنھوں نے عصر حا ضر کے سلگتے ہو ئے مسا ئل کا اسلامی حل پیش کیا۔انھو ں نے سیکو لر اور اسلامی جدید یت پسند،دو نوں طرح کے افراد کے افکار ونظریات کا شدید لہجہ اور قوت استدلال سے جا ئزہ لیا اور انہیں ان پر نقدو تبصرہ کیا ۔وہ مغر بی تہذ یب و طرز معاشرت کی شدید مخالف تھیں۔وہ اگرچہ جدید ٹکنالوجی کے استعمال کی حامی ضرور ہے لیکن اس کے اندھا دھند استعمال کی قائل نہیں ہے ۔پرو فیسر جان وول لکھتے ہیں:’’مریم جمیلہ ٹکنا لو جی سے استفادہ کی حامی ہیں لیکن جدید یت پسندوں کے فکری مغالطوں کے خلاف ہیں۔‘‘
مریم جمیلہ مسلم ممالک میں مغر بی فکرو تہذیب کے اثرات پر ہمیشہ نو حہ کناں رہیں اور مسلم ممالک کے زعماء ،قائدین اورعلما ء کو اس طرف متوجہ کرتی رہیںکیونکہ وہ مغر بی فکرو تہذ یب کو اسلامی تہذ یب کے لئے خطرہ تصور کر تی تھیں۔یہ پہلو ان کی تحر یروں میں نمایاں ہے۔ انھوں نے مادیت پر مبنی ہر نظر یہ پر تنقید کی۔ انھوں نے روم و ایران کی فکر و تہذ یب کے دلائل کی بنیاد وںکی دھجیاں اڑائیں۔کارل مار کس ،والٹیر، مکا ولی،مالتھس اور فر ائڈکے فکرو خیال پر شدیدضربیںلگا ئیں۔وہ مسلمانوںکے خو اتین خیمے سے اسلام کی بے باک اور حقیقی تر جمان تھیں۔ انھوں نے مغربی فکر و تہذیب پر جو تنقید کی ہے وہ دوسرے اسلامی مفکرین سے زیادہ گہری اور مدلل ہے ۔مغربی فکر و تہذیب پر منظم انداز سے کی گئی تنقید مر یم جمیلہ کا اہم کار نامہ ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تحریک اسلامی کی فکر کو بھی منظم انداز میں ( Systematic fastion) پیش کیا اور اس کے امتیازات و خصوصیات کی بھر پور انداز میں وکالت کی ۔ مغربی فکر و تہذیب کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر و تہذیب کو متبادل کے طور پرپیش کرنا مولانامودودی کا ایک اہم ہدف رہا ہے۔ اس پہلو پر مریم جمیلہ نے انتہائی مدلل اور گہری بصیرت کے ساتھ کام کیا ، اس حوالہ سے مولانامودودی کے کام کو موصوفہ نے آگے بڑھایا ۔بقول ولی رضا نصرــ’’ مر یم جمیلہ کو اسلام اور مغر ب کے درمیان بحث سے خصوصی دلچسپی تھی جو مو لانا مو دودی کی فکر کا مر کزی موضوع نہ ہو تے ہوئے بھی اس کا اہم پہلو ہے۔انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی افکار ونظریات کو مزید اجا گر کیا اور عیسا یت ،یہودیت اور سکو لر مغر بی فکر پر تنقید کو بہتر ین اور منظم انداز سے بیان کیا ‘‘۔(TheOxford Encyclopedia of the Moderen Islamic World,p: 60) مر یم جمیلہ نے جس بات کو بھی قرآن و حدیث کے تناظر میں غلط جانا اسے ڈنکے کی چوٹ پر غلط کہا اور جس کو حق سمجھا اس کو ببانگ دہل حق کہا۔ اسلام کے دفاع میں انھوں نے جس انہماک اور عرق ریز ی سے کام کیا ، اُس کی نظیر مشکل ہی سے ملے گی ۔ سطور ذیل میں عورت کی حالت زار پر اختصارسے بیان کیا گیا ہے۔
آج نت نئے دلکش ناموں ، دلفریب نعروں اور اصطلاحات سے عورت کے وجود کو پامال کیا جارہا ہے ۔کہیں حقوق نسواں یا فیمینزم کے نام سے اس کی نازک ساخت پر حملہ کیا جارہا ہے تو کہیں مساوات مرد وزن جیسے دلربا عنوان سے اس کی تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے ۔ حقوق نسوا ں کی تحریکوں نے خواتین کے حقوق کے نام پر صنف نازک کو فطرت سے بغاوت کرنے پرمجبور کیا ۔ان تحریکوں کا بنیادی مقصد عورتوں پر ہورہا ظلم و جبر اور ار استحصال سے آزادی دلانا ہے اور ان کے حقوْ ق کے تئیں بیداری پیدا کرنا ہے۔ یہ تو صحیح اور مستحسن طرز عمل تھا لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیںہورہا ہے ۔ فیمینزم سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کا سب سے غالب تصور یہ ہے کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ چلے جہاں مرد کی ضرورت ہو وہاں عورت بھی اپنا رول ادا کرے ۔گھر، خاندان اور سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے کی بجائے عورت کو بازار کی زینت ،تجارت کے فروغ اور جنسی تسکین کے حصول کے لئے ایک بڑا ذریعہ بنانا فیمینزم تحریک کا بنیادی مقصد ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ سماج کے تعلق سے ہر شعبہ میں مرد پن (maleness)غالب ہے اور ہر چیز،مسئلے اور معاملے کو مرد کی نگاہوں سے سوچا، سمجھا اور حل کیا جاتا ہے ۔فیمینزم تحریک کی آواز ان کے خلاف ہے بلکہ اسی سوچ کے رد عمل کا دوسرا نام ہے ۔ تحریک نسواں میں آزاد پسندشامل عورتیں احساس کمتری کاشکار ہیں ۔ان کا تصور یہ ہے کہ عورت کو ماں بنے کی صلاحیت سے آزاد کر دیا جائے اور عورت بچے پیدا کر کے ان کی پرورش کرنا اور گھر سنبھالنے سے فارغ کر دیا جائے ۔ اس سوچ کی حامل عورتیں انسانی نسل کو بڑھانے کے لئے حیوانات کی طرح مصنوی تخم کاری (Artificial Insemination ) جیسے حیوانی خیالات اور عمل کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ اب وہ مرد کی شریک حیات بنے کے لیے تیار نہیں ہے ان کے ہاں اب ہم جنس پرستی کوئی مزموم اور قبیح عمل نہیں ہے فیمینزم اور ہم جنس پرستوں کے درمیان آپس میں گہرا تال میل ہے۔ یورپ اور مغرب میں ہم جنس پرستوں نے ہی تحریک آزاد ی نسواں یا فیمینزم کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے تمام اخلاقی قدروں کو پائوں تلے روند ڈالا ۔ مریم جمیلہ تحریک نسواں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئی لکھتی ہیں کہ
''Feminism is an unnatural , artificial and abnormal product of contemporary social disintegration ,which in turn is the inevitable result of the rejection of all transcendental ,absolute moral and spritual values ''(The Feminist Movement and the Muslim Women ,p: 12)
عصر حاضر یا دور جد ید جو تر قی اور روشن خیا لی کا زمانہ کہلاتا ہے اس میںنام نہا د تر قی اور روشن خیا لی کی شکار سب سے زیادہ عورت ہے اس کو اب صرف شے ( Comodity)کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یو رپ با لعموم اور مغرب نے با لخصوص اس میں بڑھ چڑ کر حصہ لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مغر ب میں جہاں حقوق نسواںکے سب سے زیادہ نعرے بلند ہو رہے ہیں وہیں پر عورت سب سے زیادہ مظلو میت اور بے حر متی کی شکار ہے۔مغر ب نے انسانی زند گی کی معراج آزاد پسندی (liberalism) کو قرار دیا ۔جس کی وجہ سے وہاں خاندانی نظام درہم بر ہم ہے ۔ اختلاط مردو زن بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے مساوات کے نام پر عورت کو نہ صر ف مقام نسوانیت سے گرادیا بلکہ اس کے جسم سے لباس تک اتار کربالکل عر یاں کردیا گیا ہے ۔ نا بالغ بچیوں کا حا ملہ ہونا،اسقاط حمل،ناجائز اولادکی تعداد میں آئے دن اضا فہ ہو نا ،جسم فر وشی کو لائسنس فرا ہم کرنا اور ہم جنس پر ستی جیسی برائیوں کا کثرت سے بڑ ھنا، اس کے چند قبیح مظاہر ہیں۔اس ماحول میںمسلم عورت کیسے اخلاق سوز برائیوںسے محفوظ و مامون رہ سکتی ہے اور مزید یہ کہ اس کا سماج میں کیا رول ہو نا چا ہئے یہ مر یم جمیلہ کی فکر اور تحر یر وںکا اہم مو ضوع ہے۔موصوفہ نے نام نہاد آزای نسواں کی تحر یکوں کے خلاف ذبردست محاذ سنبھالا۔وہ مسلمانوں کو اس حقیقت سے باخبر کر تی ہیں کہ آزادی نسواں کی تحر یکیںدراصل اغیار کی ایک انتہا ئی نا پاک سا زش ہے جو گھر، خاندان اور بالآخر پورے معاشرے کوتباہ کر دینا چا ہتے ہیں۔مزید اس بات سے متنبہ کر تی ہیں کہ مسلم ممالک میں آزادی نسواں کے تحریک وہی تبا ہ کن نتا ئج برآمدہوں گے جن کا خمیازہ مغر بی ممالک بھگت رہے ہیں۔ان ملکوں میں نا جا ئز جنسی تعلقا ت و باکی صورت اختیار کر چکے ہیں۔انسان کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ جنگل کے وحشی جانو ر تک شرما جائیں ۔انھوں نے لکھا ہے کہ آزادی نسواں کی تحریکوں اور حامیوں نے صرف اس بات پر زور دیا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی ناجائز جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہونی چائیے ۔ اس مقصد کے لئے مخلوط تعلیم رائج کی جائے ، گھروں سے باہر مردوں کے دوش بدوش عورتوں کو ملازمت دی جائے ، مخلوط تفریحی اور معاشرتی تقریبات جن میں نشہ بازی اور رقص کی محفلیں بھی شامل ہوں منعقد کی جائیں ، مانع حمل ادویہ، آلات اسقاط اور نس بندی کے اعمال عام کیے جائیں تاکہ عورتیں ـغیر مطلوب حمل سے محفوط رہ سکیں ۔ (اسلام ایک نظریہ ایک تحریک ،ص: ۹۶)ان کا کہنا ہے کہ نسوانی کردار کی جن صفات کو مغربی معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،انہیں اسلام میں قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شر یعت نے مرد اور عورت کے دائرہ کا ر میںفرق متعین کر رکھا ہے گھر اور خا ندان کے ڈھا نچے مستحکم بنیادوں پر استوار رکھنے کے لئے مرد پر کچھ ذمہ داری عا ئد کر رکھی ہے اور کچھ ذمہ داریاںعورت کے کندھوں پر بھی ڈالی ہیں۔جب بھی ان ذمہ داریوں سے منہ موڑا جائے گا تو نہ صر ف خاندان بلکہ معا شرہ بھی تباہی کے دھا نے پر پہنچ جائے گا ۔مر یم جمیلہ اس ضمن میں مزید کہتی ہیں کہ اسلام کی نظر میں مساوات مردوزن بے معنیٰ ہے یہ دونوں گلاب اور یا سمین کی طرح ہیں ۔دونوں کی رنگت،اور خوبصورتی مختلف ہو تی ہے اسی طر ح سے مرد اور عورت رول کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔دونوں کی الگ الگ خا صیتیں اور خو بیاں ہیں۔مصنفہ کے نزدیک دونوں کے کردار سماج میں مد مقا بل کے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور تکمیل کر نے میں ہیں۔اور دونوں پر ذمہ داریاں ان کی فطر ت کے مطا بق ہیں((The Feminist Movement and the Muslim Women ,p:16))مرد اور عورت کے کردار کے متعلق مر یم جمیلہ مزید بیان کر تی ہیں۔
"The role of a women is not the ballot box but maintenance of home and family….. while men are the actors on the stage of history,the function of women is to be their helps concealed from public gaz behind the sciene."(Islam and Muslim Women Today ,p:10)
’’اسلام میں عورت کا فر ض منصبی بیلٹ بکس نہیں ہے بلکہ گھر اور خاندان کی خبر گیری ہے ۔مرد تاریخ کے اسٹیج پر ایکٹر ہے اور عورتوں کا کام پردے کے پیچھے اور عوام کی نگا ہوں سے مخفی رہ کر ان کی مدد کرنا ہے‘‘
موصو فہ قرآن کر یم کی اس آیت ’’ مرد عورتوں کے نگراں اور محافظ ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘( النساء ۳۴) سے یہ نتیجہ اخذ کر تی ہیں کہ’’ کو ئی مسلمان عورت روزی کما نے کی پا بند نہیں ہے الا یہ کہ وہ مطلقہ یا بیوہ ہو اور اس کی کو ئی جائیداد نہ ہو۔‘‘ قرآن کر یم شوہر کو بیوی پر کسی حد تک فوقیت ضرور عطا کرتا ہے۔لیکن اس تفوق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ظا لم بن جا ئے بلکہ اس کا مقصد خا ندا ن کا تحفظ اور اسے فساد کا شکار ہو نے سے بچا نا ہے۔مر حو مہ کے نز دیک اسلام مرد کو گھر سے باہر کے معا شی فرا ئض سو نپتا ہے اور عورت کو اندرون خانہ کے تمام معا ملات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ وہ پو رے وثوق اور کامل اعتماد کے ساتھ اس بات کا اعلان کر تی ہیں کہ عورت جب ایک بار گھر کو چھوڑ دیتی ہے تو گھر باقی نہیں رہتا ۔