اپنی خواہشوں کا بوجھ کاندھوں پر لیے وہ سرگرم ِ سفر شخص جب اچانک زمین پر منہ کے بل گر پڑا تو ایک آسیب زدہ منظر اسکی آنکھوں پر چھانے لگا۔۔۔ کافی تگ و دو کے باوجود جب وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا نہ ہو سکا، تو اسے اِس بات کا بخوبی اندازہ ہوا کہ اُسکا جسم سر تا پا بے حس و حرکت ہو گیا ہے۔ چنانچہ کئی سر توڑ کوششوں کے بعد جب دل شکن ہوکر اس نے اپنے اِ رد گرد نظر دوڑائی، تو اپنی بالیں پہ ایک پرُ اسرار شخص کو دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگا اور ہیبت سے پیہم لرزنے لگا۔ کچھ لمحوں کے لئے تو اسکا چہرہ موسمِ خزاں میں شاخ سے ٹوٹے ہوئے زرد پتے کی مانند لگنے لگا۔ چونکہ لمحۂ ششدر میں اسے اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ پرُاسرار شخص کوئی اور نہیں بلکہ موت کا فرشتہ ہے، مگر نہ جانے کیوں اس کے لیے یہ بات غیر ممکن اور ناقابلِ اعتراف تھی! اسے قطعی منظور نہ تھا کہ زندگی کے افق سے ایک اور سورج اسکی شکل میں غروب ہونے والا ہے۔ وہ بار بار فقط ایک ہی جملہ دہراتا رہا کہ، ’’ابھی میں جواں تھا۔۔ابھی میں جوا۔۔۔!‘‘ـ اور پھر۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوا۔۔۔
���
شلوت سمبل سوناواری
موبائل نمبر؛ 7889440347
یہ کیا بول رہی تھی
آج صبح میں جب روٹیاں لے کر گھر کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں آفرین آنٹی ملی اور کہنے لگی،" بیٹا کیا نانبائی آیا ہے؟ "
"جی آنٹی ۔ مگر آپ مجھ سے یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟ "
" بیٹا کیا کہوں ، عادل نانبائی نے مجھ سے کہا کہ وہ جموں گیا ہے لیکن اب تم کہہ رہے ہو کہ وہ آیا ہے ۔۔۔۔ تم جائو بیٹا میں بشیر احمد کو روٹی لانے کے لیے بھیجوں گی ۔۔۔۔"
" ٹھیک ہے آنٹی ۔"
چند قدم چلنے کے بعد مجھے شمیمہ آنٹی نے روک لیا اور کہنے لگی، " ادھر آئو بیٹا ۔۔۔۔ یہ آفرین میرے بارے میں کیا بول رہی تھی ؟"
���
جہیز ایک لعنت
آج منی کو دیکھنے لڑکے والے آ رہے تھے ۔ گھر میں مہمانوں کی خاطرداری کے لیے زور و شور سے تیاریاں کی جا رہی تھیں ۔ فون کرنے پر معلوم ہوا کہ بارہ بجے آ رہے ہیں۔ منی کو بھی سجایا سوارا گیا ۔ جب لڑکے والے آئے تو انکا تہہ دل سے سواگت کیا گیا۔ گھر کے لوگوں نے انکو تحائف وغیرہ دئے۔ موہن لال انکو مہمان خانے میں لے گیا ۔۔۔ انکو بیٹھنے کے لیے کہا ۔ گھر کے دیگر افراد بھی بیٹھ گئے ۔ لڑکے سے جب اس کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک دسویں فیل نکما ہے، جو غیر قانونی کام کرکے حرام کی دولت جمع کرتا ہے۔۔ موہن اب دوسرا سوال پوچھنے ہی والا تھا کہ لڑکے کی ماں نے کہا، "
دیکھئے بھائی صاحب ہم کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لڑکی کیا کر رہی ہے، کتنی پڑھی لکھی ہے آپ بس اپنی بیٹی ہم کو دے دیجئے ہم اسکو اپنی پلکوں پہ بٹھا کر رکھیں گے لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے! "
" شرط کیسی شرط بہن جی۔۔۔!"
"آپ کو ہمیں ایڈوانس میں پانچ لاکھ روپیہ دینے ہونگے اور شادی کے موقع پر چار لاکھ بطور شگن۔"
"کیا شگن اور وہ بھی آٹھ لاکھ روپے۔۔۔۔ !بہن جی میری اتنی اوقات کہاں!"
"تو پھر گھر میں ہی بٹھا کے رکھئے اپنی بیٹی کو۔۔"
اسی دوراں موہن کی بیوی نے بات کاٹ کر کہا ،" کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کا سودا کریں۔۔۔۔ اوکے چائے کا کپ نیچے رکھیں اور دفاں ہو جائے اور ہاں دوبارہ اپنی شکل بھی مت دکھائے گا "
وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔۔۔ موہن نے ماتھے پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا ،"ارے منی کی ماں یہ تم نے کیا کیا؟ بڑی مشکل سے ایسا خاندان ملا جو جہیز مانگتا تھا ورنہ دوسرے تو دس بارہ لاکھ روپے بولتے ہیں ۔۔۔۔اب ہماری منی سے کون شادی کرے گا!!"
منی یہ سب کچھ کھڑکی سے دیکھ رہی تھی۔اس کا چہرہ نہ ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح ہو گیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا تھا کہ جیسے کلیاں رونے لگیں۔۔۔